چودہ اگست 1947ء سے چودہ اگست 2022ء تک دو چار برس کی بات نہیں پون صدی کا قصہ ہے۔ الحمد للہ اسلامیان پاکستان اپنا 75 واں یوم آزادی منا رہے ہیں تاہم اس مملکت خداداد کے مقصد وجود کا حصول ابھی تک ’’ہنوز دلی دور است‘‘ والا معاملہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام بلاشبہ اس خطہ کے مسلمانوں کی زندگی کا ایک تاریخ ساز سنگ میل تھا جس کی دو نمایاں خصوصیات تھیں اولین یہ کہ تحریک قیام پاکستان کی اساس اسلامی قومیت پر اٹھائی گئی تھی خطہ کے مسلمانوں نے رنگ و نسل، زبان و علاقہ اور قبیلہ و فرقہ، غرضیکہ ہر طرح کی تفریق و تقسیم سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف مسلمان کی شناخت پر ایک الگ اسلامی مملکت کے حصول کی جدوجہد کی جب کہ دوسری خصوصیت یہ تھی کہ پاکستان کے حصول کی تحریک کی تمام تر اٹھان خالصتاً جمہوری اصولوں پر تھی، تحریک کے قائد نے مقصد کے حصول، قیام پاکستان تک تشدد اور لاقانونیت وغیرہ کو کسی بھی مرحلہ پر تحریک میں در آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ قیام پاکستان کے فوری بعد بانیٔ پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح نے نئی مملکت کے ارباب اختیار، سول و فوجی بیورو کریسی سے مختلف مواقع پر خطاب کے دوران بھی ہر مرحلہ پر انہیں اسلام اور جمہوری اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کی تلقین کی اور کسی بھی صورت ان سے رو گردانی کو نئی مملکت کے لیے تباہ کن قرار دیا مگر اسے مسلمانان برصغیر کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا نام دیا جائے کہ بانیٔ پاکستان کی آنکھیں بند ہوتے ہی قوم نے ان کی ہدایات کو یکسر فراموش کر دیا اور وہ جو حصول پاکستان تک صرف اور صرف مسلمان تھے، پاکستان بنتے ہی ذات برادری، رنگ و نسل، زبان و علاقے، قبیلوں اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے شکار ہوتے چلے گئے اور مخلصیں ملت، مصور پاکستان علامہ اقبال ؒ کے الفاظ میں یہ پوچھنے پر مجبور ہو گئے کہ: ؎
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، یہ تو بتلائو کہ مسلمان بھی ہو؟
دوسری جانب تحریک پاکستان کی دوسری نمایاں ترین خصوصیت جمہوریت اور جمہوری اصولوں کو بھی بانیٔ پاکستان کے بعد اقتدار کے مناصب پر قابض ہونے والوں نے بری طرح پامال کیا۔ کم و بیش ربع صدی تک ملک میں بالغ رائے دہی کے اصول پر انتخابات کرائے گئے نہ قوم کو کوئی متفقہ قابل قبول اور قابل عمل آئین نصیب ہو سکا۔1970ء میں جو پہلے عام انتخابات ملک میں ہوئے، ان میں مختلف نفرتوں نے اپنا رنگ دکھایا، جو نتائج سامنے آئے، ان کو بھی برسراقتدار طبقہ نے قبول نہیں کیا، جس کے نتیجے میں بڑی امنگوں اور آرزوئوں سے بنائی گئی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان، دولخت ہو گئی۔ مگر افسوس کہ اتنا بڑا سانحہ گزر جانے کے باوجود ہم نے سبق نہیں سیکھا اور بچی کھچی مملکت میں بھی اقتدار اور ہر قیمت پر اقتدار کو مطمعٔ نظر بنا لیا گیا۔ بانیٔ پاکستان کے دکھائے ہوئے راستہ پر چلنے اور ایمان، اتحاد اور تنظیم کو نصب العین بنانے کی بجائے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کا حصول ترجیح اول قرار پایا۔ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کو پون صدی گزرنے کے بعد بھی ملک میں انتشار و افتراق عروج پر ہے، ملک دشمنوں کی سازشوں کے مقابلہ کے لیے قومی اتحاد و اتفاق لازم ہے مگر ہم اپنے کردار سے دشمنوں کا کام آسان کرنے میں مصروف ہیں۔ ملک کا کوئی ادارہ محفوظ نہیں، ملکی سرحدوں کی محافظ فوج سے لے کر اعلیٰ ترین سطح کی عدلیہ جیسے اداروں تک کو کھلے عام الزام تراشی اور اتہام بازی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہی حال دیگر ملکی اداروں پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اور قومی احتساب بیورو وغیرہ کا بھی ہے۔ یقیناً اس بداعتمادی کی فضاء کے پروان چڑھانے میں ان قومی اداروں کے ذمہ داران کا کردار بھی قابل ستائش نہیں رہا اور اس صورت حال کی ذمہ داری خود ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ آج کل بدعنوانی اور بے عملی میں ہمارا ملک دنیا میں سر فہرست دکھائی دیتا ہے مگر کسی کو اس کی اصلاح اور بہتری کی فکر نہیں ہر طرف آپا دھاپی اور افراتفری کا عالم ہے، عوام میں مایوسی، بد دلی اور بے یقینی تیزی سے سرایت کر رہی ہیں اس کے باوجود نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی سیاسی قیادت اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر تیار ہے ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
تمام تر معاشی و معاشرتی اور سیاسی ابتری اور زبوں حالی کے باوجود آج بھی ہماری ملت کے مرض کہن کا چارہ یہی ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر آگے بڑھیں، مایوسی و بد دلی کی بجائے اتحاد و یگانگت کے ساتھ نئے عزم سے آغاز سفر کریں۔ اس عزم سے جس پر کار بند ہو کر ہم نے یہ عظیم اسلامی مملکت حاصل کی تھی۔ آج بھی وطن عزیز میں ایسی قیادت کا قحط نہیں جو اس مملکت کی کشتی کو کنارے پر لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جس کا دامن ہر طرح کی آلائشوں سے بھی پاک ہے۔ ضرورت ہے کہ قوم سود، جوئے، قمار بازی، عریانی، فحاشی اور بے حیائی جیسی لعنتوں سے چھٹکارہ حاصل کر کے دین فطرت اسلام کے نظام حیات کے قیام کے لیے متحد ہو کر بدعنوان قیادت سے نجات حاصل کرے۔ اور ملک و قوم سے مخلص، نیک، صالح، صادق، امین اور قابل اعتماد لوگوں کو منتخب کر کے ان کی رہنمائی میں آگے بڑھے تو موجودہ بحرانی کیفیت سے نجات ناممکن نہیں۔ ورنہ حالات یہی رہے تو ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔
(حامد ریاض ڈوگر)