لو صاحبو! اگست کا مہینا آن پہنچا۔ پہنچے ہوئے بھی پانچ دن ہوگئے۔ اس مہینے میں جشنِ آزادی منایا جاتا ہے۔ اب کے برس ہم اپنی آزادی کا ’جشنِ الماسی‘ منا رہے ہیں۔ جن ظالموں سے آزادی حاصل کی گئی تھی اُن کی بولی میں’Diamond Jublee’کہہ لیجے۔ بعد میں کُلّی کرلیجے گا۔ ’ڈائمنڈ‘ ہیرے یا الماس کو کہتے ہیں اور ’جوبلی‘ کہتے ہیں اظہارِ خوشی و مسرت کو، جشن منانے اور بغلیں بجانے کو۔ ’انگریز‘سے آزادی پر بغلیں بجانے والوںکی گردن میں ’انگریزی‘ کا طوق اب تک لٹک رہا ہے۔ پس یہ مردانِ آزاد انگلش کے ’ڈنکی‘ بنے ’ڈائمنڈ جوبلی‘ کا ڈنکا پیٹ رہے ہیں۔ صاحب! ہمارے لڑکپن میں تمباکو نوش حضرات دوسری چھاپ کے سگرٹوں کے علاوہ ’ڈائمنڈ سگرٹ‘ بھی پیا کرتے تھے۔کچھ توپی پی کر ‘Die away’ ہوگئے، جب کہ کئیوں کے گلے گل سڑ کر ’بانسرہ گلی‘ بنے۔ ’بانسرہ گلی‘ ہمارے کوہِ مری کی گلیات میں سے ایک گلی ہے جہاں ’جنگلی حیات‘ جمع کرکے سیرگاہ بنادی گئی ہے۔
آسمانِ ولایت ہی سے شاید یہ وبا بھی نازل ہوئی کہ کسی واقعے کو پچیس برس بیت جائیں تو ’جشن سیمیں‘ منائیے کہ سِیم چاندی کو کہتے ہیں۔ پچاس برس ہوجائیں تو ’جشنِ زرّیں‘ منائیے، زر سونے کو کہتے ہیں۔ اور پچھتّر برس گزر جائیں تو ’جشنِ الماسی‘ منا لیجے۔ ہمیں جشن منانے پر جلن نہیں۔ سُلگے اس بات پر ہیں کہ ’چلی سمتِ غرب سے جو وبا، اُسے ہم نے بڑھ کے لپک لیا‘۔ سو وباؤں کا یہ عام چلن ہو گیا کہ
آسماں سے جو کوئی تازہ ’’وبا‘‘ آتی ہے
پوچھتی سب سے مرے گھر کا پتا آتی ہے
اب ہم قسم قسم کے وبائی امراض میں مبتلا ہیں۔ قوم کی قوم کو ایک نیا وبائی مرض یہ لاحق ہوا ہے کہ اگر کسی نے اپنی کوئی بصری عکس بندی کرلی ہے، کوئی نیا ’بصریہ‘ تیار کرلیا ہے، تو اُس کی خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ یہ ’بصریہ‘ کسی طرح سماجی ذرائع ابلاغ پر ’وبائی‘ ہوجائے۔ عربی لغت اُٹھا کر دیکھی تو ’’وَبَّ یَؤُبُّ وَبَّا‘‘ کے معنی نکلے ’لڑائی میں حملے کے لیے تیار ہونا‘۔ جانوروں سے لڑی ہوئی بیماریاں جب انسانی آبادیوں پر حملہ آور ہوتی ہیں، ہوا کے ساتھ یا چھوت چھات سے پھیلنے لگتی ہیں، تو ’وبا‘ کہلاتی ہیں۔ سماجی ذرائع ابلاغ کو تو ’’کھلی چھوت‘‘ حاصل ہے۔ کوئی بات سچی ہو یا جھوٹی، کوئی نقل صحیح ہو یا غلط،کوئی خبر اصل ہو یا من گھڑت، بس ایک بار ایک زوردار ’چھینک‘کی طرح ’سوشل میڈیا‘ پر مار دیجے۔ اب اسے جو بھی چھوئے گا، اُس کی چھوت چھات سے خود ہی ’وبائی‘ ہوتی چلی جائے گی۔
اُردو بھی اب وبائی ہوتی جارہی ہے۔ کچھ لوگوں کا گمان تھا کہ اس زبان کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ جانے جیتی بھی ر ہتی ہے یا نہیں۔ مگر سب نے جیتے جی دیکھ لیا کہ اردو کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ وہاں وہاں جا پہنچی جہاں جہاں برصغیر کے لوگ پہنچے۔ بلکہ جہاں جہاں سارک ممالک کے لوگ پہنچے۔ سارک ممالک کے عوام میں رابطے کی زبان اُردو ہے۔ دیکھیے اختر ؔشیرانی نے نہ جانے کب کہا ہوگا:
دنیا کی کُل زبانیں بوڑھی سی ہو چکی ہیں
لیکن ابھی جواں ہے اُردو زباں ہماری
ابھی تو اُردو کی عمر پورے ڈیڑھ ہزار برس بھی نہیں ہوئی۔ مگر اپنی اس کم عمری کے باوجود یہ کم سِن زبان کئی کئی ہزار برس قدیم زبانوں کے شانوں سے شانہ ملا کر کھڑی ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے اپنی دفتری زبانوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ متعدد ممالک میں ’اردو مراکز‘ کام کررہے ہیں۔ بہت سی غیر ملکی جامعات میں اردو زبان و ادب کی تعلیم کے شعبے قائم ہیں۔ مثلاً مانچسٹر یونیورسٹی میں ۲۰۰۷ء سے اُردو کی تدریس ہورہی ہے۔ ستمبر ۲۰۱۵ء میں اس یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو ’بین الاقوامی تجارت‘ اور ’علمِ سیاسیات‘ کے مضامین ڈگری کی سطح پر اُردو میں پڑھنے کا اختیار بھی مل گیا ہے۔ برطانوی شہر شیفیلڈ کے شفاخانوں، کتب خانوں اور تعلیمی اداروں کے باہر نصب تختیوں پر انگریزی کے ساتھ اُردو ترجمہ بھی موجود ہوتا ہے۔۱۹۹۰ء میں شیفیلڈ میں ’’اُردو ٹیچنگ سینٹر‘‘ نامی ادارہ قائم ہوا۔ برطانیہ میں اُردو صحافت بھی خوب پھل پھول رہی ہے۔ لندن کو اُردو کا تیسرا یا چوتھا بڑا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور ناروے وغیرہ میں بھی اردو زبان و ادب کو فروغ مل رہا ہے۔ آسٹریلیا میں اُردو کی ادبی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں۔ چین اور جاپان میں مدت سے اُردو پڑھائی جارہی ہے۔ سنگاپور، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ اور متحدہ عرب امارات کے بازاروں میں اُردو بولی جارہی ہے۔ حرمین الشریفین میں اُردو کی تختیاں جا بجا لگی ہوئی ہیں۔ بنگلا دیش میں اُردو پرکام ہورہا ہے۔ ’گُوگل‘ اور ’یاہو‘ سمیت برقی تلاش کی سہولت فراہم کرنے والے بڑے بڑے عالمی تجارتی اداروں نے ’اُردو میں تلاش‘ کی سہولت فراہم کردی ہے۔ ’یوٹیوب‘ ہر موضوع پر اور ہر طرح کی اُردو نشریات سے بھرا ہوا ہے۔ فیس بُک، ٹوئٹر، ٹیلی گرام اور واٹس ایپ جیسے بہت سے عالمی ذرائع ابلاغ پر اُردو موجود ہے۔ لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر لکھنے کے لیے اُردو کے متعدد نظام میسر ہیں۔ موبائل فون اور آئی فون پر تحریر کرنے کے لیے اُردو کی تختی بلکہ کئی تختیاں برقی بازار سے آپ کو مفت مل جاتی ہیں۔ ان تختیوں کے اندر بنے بنائے پیغامچے بھی ہیں اورتاثراتی تمثیلچے بھی۔ اردو کے بے شمار برقی صفحات عالمی ربط (انٹرنیٹ) پر اپنا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ برقی خزینوں میں اُردو کی لاتعداد کتب کا انبار ہے۔ ان کتابوں کا شمار ممکن نہیں۔ اب اردو کی شاید ہی کسی کتاب کو آپ ’نایاب‘ کہہ سکیں۔ صرف پاکستان اور بھارت ہی میں نہیں، جدید سہولتوں کی مدد سے آج دنیا بھر میں اُردو رسائل و جرائد اور اردو کتب دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں۔ اب آپ ہی کہیے، یہ تمام آثار اس کم سِن کی زندگی کے آثار ہیں یا موت کے؟
بات آزادی کے ’جشنِ الماسی‘ سے شروع ہوئی تھی۔ پچھلے پچھتّر برسوں میں پاکستان اور بھارت میں جو مطبوعہ، سمعی اور بصری اُردو تخلیقات پیش کی گئی ہیں اُن کا ٹھیک ٹھیک شمار آسان نہیں، سو یہ بے شمار ہیں۔ ان میں ہمارے قدیم روایتی علوم، جدید عصری علوم، ہماری تہذیب، ہماری ثقافت، ہمارے تمدن اور ہمارے شعر و ادب کا بہت قیمتی خزانہ محفوظ ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی ’قومی زبان‘ اُردو ہے۔ دستورِ پاکستان کی رُو سے پاکستان کی ’سرکاری زبان‘ بھی اُردو ہے۔ اُردو پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کی واحد ’مشترک زبان‘ ہے۔ اس وجہ سے یہ ہمارے قومی اتحاد، یکجہتی اور استحکامِ پاکستان کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان میں ابلاغِ عامہ کا سب سے اہم وسیلہ اردو ہی ہے۔ ابتدا میں برقی ذرائع ابلاغ پر انگریزی نشریاتی چینل دست یاب تھے مگر ’عوام‘ میں ان کے ناظرین ’نایاب‘ تھے، سوناکام ہوئے اور بند کرنے پڑے۔ انگریزی اخبارات اب اُردو چینل چلا رہے ہیں۔ انگریزی میں لکھنے والے دانشور اپنے نظریات و افکار کے عوامی ابلاغ کے لیے اُردو میں کالم لکھ رہے ہیں۔ عوام میں آکر سیاسی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے اور اُن کے آگے سیاسی تقریریں جھاڑنے کے لیے بھی اُردو ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے خواہ ’کانپیں‘ کیوں نہ ’ٹانگنے‘ لگیں۔
قومی زبان کی حیثیت سے اُردو زبان اوردیگر پاکستانی زبانوں میں قریبی رشتہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی تمام زبانیں عربی، فارسی اور ترکی سے متاثر ہیں۔ اس وجہ سے ان زبانوں میں متعدد الفاظ مشترک ہیں۔ عملاً بھی اردو ہی ہماری ’قومی زبان‘ ہے۔ اگر قومی زبان ہی ہماری تعلیمی زبان، ہماری دفتری زبان اور ہماری عدالتی زبان بن جائے، ہم انگریزی زبان کا طوق گلے سے اُتار پھینکیں تو ’جشنِ الماسی‘ منانے کے ساتھ ساتھ کسی دن ’جشنِ گلو خلاصی‘ بھی منا لیا جائے۔