زیر نظر کتاب (واقعاتی) ’’تاریخ جماعت اسلامی‘‘ملتان سے جماعت اسلامی کے ایک مخلص اور متحرک رکن کی خلوص و محبت پر مبنی ایک کاوش ہے، جس کے متعلق کتاب کے ابتدائیہ میں انہوں نے خود ان الفاظ میں تفصیلی وضاحت کردی ہے کہ ’’شعور سنبھالتے ہی جماعت اسلامی کو گھر میں دیکھا، اس لیے اور کہیں آنے جانے کی ضرورت نہ پڑی۔ الحمدللہ 60 سال سے زیادہ اس تعلق میں گزر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ تعارف جماعت کے حوالے سے کرایا، یہ اس کا فضلِ خاص ہے، جس پر ہر لمحہ شکر لازم ہے۔ ہفت روزہ ’ایشیا‘ لاہور جماعت کا ترجمان ہے، اس میں دو تین مرتبہ اپنی تحریریں برائے اشاعت ارسال کیں جن کو ادارے نے باکمالِ مہربانی ’’کارکن کی ڈائری‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ حوصلہ افزائی پر یہ سلسلہ تقریباً ایک سال سے زائد چلا، بہت سارے افراد نے تحریروں کی ستائش کی۔ یہ تحریریں مذکورہ رسالے کے بہت سے شماروں میں محفوظ تھیں۔ مطالعے کے شوقین افراد کے لیے سارے رسالے جمع کرنے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہیں۔ اس لیے ادارہ ایشیا کے شکریے کے ساتھ تمام تحریروں کو کتابی صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔ اس طرح سے یہ جماعت کی مختصر تاریخ اور اہم واقعات کا بیان بن گئی۔ امید ہے مطالعہ کرنے والوں کو مفید محسوس ہوگی۔ ’’کارکن کی ڈائری‘‘ کے عنوان کی تحریروں کے علاوہ جماعتی تاریخ کے حوالے سے کچھ دیگر تحریرات بھی شامل ہیں۔ کچھ تحریریں ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے شکریے کے ساتھ بھی شائع کی جارہی ہیں۔ اللہ کرے اس کوشش سے کارکنانِ جماعت کے علاوہ عوام الناس کو بھی جماعت کی خدمات اور سرگرمیوں سے آگاہی حاصل ہو۔ (آمین)‘‘
جیسا کہ مرتب نے کتاب کے نام ہی میں بہت سی وضاحتیں کردی ہیں کہ یہ ایک کارکن کی یادداشتوں پر مشتمل جماعت اسلامی کی واقعاتی تاریخ ہے، مگر جماعت کے واقعاتی حوالے اتنے زیادہ اور وسیع ہیں کہ ان کا احاطہ آسان ہے نہ انہیں ایک مختصر سی کتاب میں پوری طرح سمویا جا سکتا ہے۔ کتاب میں قارئین کی دلچسپی کا سامان تو بلاشبہ موجود ہے مگر اسے ایک مکمل تاریخِ جماعت اسلامی کسی طرح بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دراصل یہ ایک کارکن کی تاریخی ترتیب کے حوالوں کے بغیر بکھری بکھری یادداشتیں ہیں جن کا زیادہ تر تعلق مرتب کی ذات، خاندان اور علاقے سے متعلق جماعت کی سرگرمیوں سے ہے۔ اسی دوران بعض اہم اور قومی نوعیت کے واقعات کا تذکرہ بھی جا بجا ملتا ہے جن سے جماعت کی دعوت و تنظیم اور اس کی خدمات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے، اور بعض قومی و علاقائی شخصیات سے شناسائی بھی حاصل ہوتی ہے۔
کتاب کے آخر میں چند خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں سے جماعت کے قائدین پروفیسر عبدالغفور احمد، سید منور حسن، لیاقت بلوچ، حافظ محمد ادریس، محمد ابرار معتمد امیر جماعت اور موجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ان کی پہلے سے شائع شدہ کتاب ’’رہنمایانِ جماعت اسلامی اور مثالی کارکن‘‘ سے متعلق آراء کا اظہار کیا ہے اور زیر نظر کتاب سے متعلق مشورے دیئے گئے ہیں، تاہم ان خطوط سے کتاب سے متعلق جو بھرپور تاثر ابھرتا ہے اور جس جامعیت کی توقع بندھتی ہے، وہ عملاً کتاب میں موجود نہیں، البتہ مرتب نے چھوٹے چھوٹے عنوانات کے تحت مختلف واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے جن کے مطالعے سے قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے جماعت سے متعلق تاریخی حقائق سے آگاہی نصیب ہوتی ہے۔ یوں کتاب کی افادیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ مرتب کی تحریر میں روانی اور سلاست نے کتاب کو کہیں بھی بوجھل نہیں ہونے دیا، تاہم کتابت کی غلطیاں کہیں کہیں کھٹکتی ہیں۔
کتاب کا انتساب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں زندگیاں وقف کردینے والے ان کے رفقاء کے نام کیا گیا ہے۔ رنگین سرورق کو بانیِ جماعت کی تصویر، جماعت اسلامی اور پاکستان کے پرچموں، جماعت کے امتیازی نشان، انتخابی نشان ترازو اور ’’اسلامی پاکستان۔ خوشحال پاکستان‘‘ کے نعرے سے مزین کیا گیا ہے اور کتاب کے موضوع سے مطابقت پیدا کرنے کی مؤثر کوشش کی گئی ہے۔ عمدہ کاغذ پر اعلیٰ طباعت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دو سو بیس کے قریب صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت صرف ڈھائی سو روپے رکھی گئی ہے جو گرانی کے موجودہ دور میں مناسب ہی نہیں خاصی کم محسوس ہوتی ہے۔