ڈاکٹر رئوف پاریکھ حفظہ اللہ کا میدانِ تخلیق، تحقیق، تنقید، تدوین، ترجمہ بڑا وسیع ہے اور وہ ہمہ تن کسی نہ کسی علمی کام میں مصروف رہتے ہیں، خاص کر اردو لغات سے ان کی دلچسپی بہت گہری ہے اور اسی میں ان کی معرکہ کی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’الفاظ کا طلسم‘‘ ان میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’پروفیسر ڈاکٹر خالدحسن قادری (مرحوم) لندن یونیورسٹی میں استاد تھے۔ زبان اور لغت سے دلچسپی کی بنا پر انہوں نے اردو کے نادر اور قلیل الاستعمال الفاظ اور ان کی تشریح پر کام کیا۔ اس ضمن میں ان کا ایک کام ’’متروکات کی لغت‘‘ کے عنوان سے تین جلدوں میں جامعہ کراچی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ نے 2004ء میں شائع کیا۔ اگرچہ اس کے نام پر شمس الرحمٰن فاروقی نے اعتراض کیا اور کہاکہ اس کا نام ’’نادر الفاظ کی لغت‘‘ ہونا چاہیے۔ بعدازاں قادری صاحب کا یہی کام ہندوستان سے ’’لفظیات‘‘ کے عنوان سے ایک جلد میں شائع ہوا، اور اس کے دیباچے میں قادری صاحب نے واضح کیا کہ اس کا نام انہوں نے متروکات کی لغت ہرگز نہیں رکھا تھا۔
قادری صاحب نے اردو کے بھولے بسرے الفاظ پر ایک اور کام ’’الفاظ کا طلسم‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ اس کی متعدد اقساط روزنامہ جنگ (کراچی) میں آج سے کوئی تینتیس چونتیس سال قبل شائع ہوئی تھیں، جس کے بعد یہ سلسلہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر منقطع ہوگیا۔ البتہ اس کا اصل مسودہ مشفق خواجہ صاحب کے پاس تھا اور ان کے ہاں غالباً اشاعت کی غرض سے بھیجا گیا تھا، لیکن مسودہ یونہی رکھا رہا اور راقم الحروف نے ادارۂ یادگار غالب/ غالب لائبریری (کراچی) کے معتمد کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد ادارے میں اشاعت کے لیے آئے مسودات کو دیکھنا شروع کیا تو ’’الفاظ کا طلسم‘‘ کا مسودہ نظر آیا۔ قادری صاحب کا یہ دست نوشتہ مسودہ کئی اقساط پر مشتمل تھا لیکن ابتدائی چند اقساط، نیز درمیان سے بھی کچھ اقساط غائب تھیں جو باوجود تلاشِ بسیار کے ہاتھ نہ آسکیں۔
راقم کو یاد تھا کہ اس کی کچھ اقساط روزنامہ جنگ (کراچی) میں 1988-89ء میں شائع ہوئی تھیں اور ان میں سے ایک قسط کا تراشہ بھی راقم کے ذخیرے میں موجود تھا۔
چنانچہ راقم نے اس کی چار ابتدائی اقساط بیدل لائبریری (کراچی) میں ’’جنگ‘‘ کے فائل سے تلاش کیں اور مسودے کو مرتب کرکے ادارے کے جریدے ’’غالب‘‘ میں شائع کیں۔ بعد کی خاصی اقساط بھی اس رسالے میں شائع ہوئیں، لیکن ادارے کی مالی مشکلات کے سبب رسالے کی اشاعت تعویق میں جاپڑی اور ان اقساط کی اشاعت کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔
2020ء کے اواخر میں راقم کا تقرر ادارۂ فروغِ قومی زبان (اسلام آباد) میں ہوا تو محب گرامی جناب محمد احسن خاں صاحب (جو لغات و لفظیات سے یک گونہ دلچسپی رکھتے ہیں) نے ہدایت کی کہ الفاظ کا طلسم ایک اہم کام ہے اور اس کو ضائع ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ نیز قارئین ’’اخبار اردو‘‘ کے لیے بھی یہ ایک علمی تحفہ ہوگا۔ چنانچہ اس کی خاصی اقساط ادارۂ فروغ قومی زبان کے نفسِ ناطقہ ’’اخبارِ اردو‘‘ میں راقم کے حواشی کے ساتھ شائع ہوئیں۔
بعدازاں جناب احسن خاں صاحب نے اس کی کتابی صورت میں اشاعت پر بھی زور دیا۔ لہٰذا اب یہ کتابی صورت میں حاضر ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ (معتمد ادارۂ یادگار غالب) کا بھی شکریہ واجب ہے جنہوں نے مسودے کے صفحات کی تلاش میں بھی معاونت کی اور اس کی اخبارِ اردو میں اشاعت اور بعدازاں کتابی صورت میں اشاعت کی اجازت مرحمت فرمائی۔
’’الفاظ کا طلسم‘‘ کا مسودہ جب دست یاب ہوا تو خاصا پرانا ہونے کے باوجود اس وقت تک غیر مطبوعہ تھا، ماسوائے ان اقساط کے جو روزنامہ جنگ (کراچی) میں شائع ہوئی تھیں۔ البتہ بعض اقساط جو جنگ میں شائع ہوئیں اس لحاظ سے نامکمل تھیں کہ ان میں بعض اندراجات (جو اصل مسودے میں موجود تھے) شامل نہیں تھے، لیکن اصل مسودے کی بنیاد پر اس متن میں شامل ہیں۔
اصل مسودہ دست نوشتہ ہے اور اے فور (A4) کی جسامت کے غیر لکیردار کاغذوں پر سیاہ روشنائی سے لکھا گیا ہے۔ ہر قسط میں کئی الفاظ/ مرکبات پر بحث کی گئی ہے۔ لیکن شاذو نادر ہی کسی لفظ کو قلم زد کیا گیا ہے۔ چند مقامات پر سفیدہ ضرور لگایا گیا ہے۔
ہاں البتہ چند صفحات کو نصف کاٹ کر نصف حصہ نئے کاغذ کا جوڑا گیا ہے، غالباً تبدیلی یا اضافوں کی وجہ سے۔
قادری صاحب کا خط یوں تو صاف ہے لیکن بعض الفاظ پڑھے نہیں جاتے۔ قدیم اور متروک الفاظ کے ضمن میں بار بار کئی لغات سے رجوع کرنا پڑا۔ بعض صورتوں میں اس عاجز طالب علم کو قادری صاحب سے کچھ اختلاف کی جسارت بھی کرنی پڑی لیکن اس اختلاف کا اظہار راقم نے حواشی میں کیا ہے۔ یہ حواشی ہر قسط کے آخر میں درج ہیں۔ فہرستِ اسنادِ محولہ آخر میں ملاحظہ فرمایئے۔
قادری صاحب کا املا بعض مقامات پر حیرت انگیز طور پر قدیم ہے اور اس میں یکسانی بھی نہیں ہے، مثلاً وہ ہاے مخلوط کو کبھی کبھار نظرانداز کر جاتے ہیں اور مثال کے طور پر ’’دوبھر‘‘ کو انہوں نے’’دوبہر‘‘ لکھا ہے اور ’’کھائے‘‘ کو ’’کہائے‘‘۔ لیکن ’’ہ‘‘ کی جگہ ہاے دو چشمی بھی لکھ جاتے ہیں، مثلاً پہنچی کو ’’پھنچی‘‘ اور پہیلی کو ’’پھیلی‘‘ لکھا ہے۔ قدیم انداز میں پہنچا کو ’’پہونچا‘‘ بھی لکھ گئے ہیں، یا پتا کو ’’پتہ‘‘۔ نہ ہو کو کہیں ’’نہو‘‘ بھی لکھا ہے۔ اس طرح کے بعض دیگر الفاظ کا املا بھی جدید کردیا گیا ہے۔ امالہ اکثر جگہ پر نہیں کیا۔ ان مقامات پر مجبوراً ’’دخل درمعقولات‘‘ کرنا پڑا‘‘۔
’’لغت نویسی کے نقطہ نظر سے اس کتاب میں بعض نادر و قلیل الاستعمال الفاظ و تراکیب ملتی ہیں جو اگر بعض دیگر لغات مثلاً اردو لغت بورڈ کی لغت میں درج بھی ہیں تو ان کی اسناد کی کمی ہے اور یہ کتاب ایسے نادر اندراجات کے لیے قدیم اسناد بھی پیش کرتی ہے۔ پھر اس کتاب میں بعض عجیب اور لطیف نکات ہیں مثلاً ’’عشق ہے‘‘ جیسی تراکیب و محاورات کی تشریح میں ہمارے بڑے بڑے لغت نویسوں، اہلِ علم و اہلِ قلم حتیٰ کہ غالب کے جید شرح نویسوں نے بھی کیسی کیسی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ قدیم روایات و رسوم و رواج کا بھی اس میں دلچسپ ذکر ملتا ہے۔
قاری کی آسانی کے خیال سے اس کام کے آخر میں اشاریۂ الفاظ بھی مرتب کردیا گیا ہے تاکہ اگر کسی قاری کو کوئی لفظ الف بائی ترتیب سے تلاش کرنا ہو یا یا دیکھنا ہو کہ کسی خاص لفظ/ مرکب کی بحث اور کہاں کہاں آئی ہے تو اسے آسانی ہو۔ اس سے لغت نویس بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس تدوین میں کتاب کے اندراجات کی ترتیب نہیں بدلی گئی (اگرچہ وہ الف بائی ترتیب میں نہیں ہیں) اور پہلے وہ فہرستِ اندراجات دی گئی ہے جو کتاب کے اندراجات کے مطابق ہے۔ فہرست بترتیبِ حروفِ تہجی الگ سے پیش نہیں کی گئی، کیونکہ اشاریہ الف بائی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ قادری صاحب نے جس طرح اقساط کے شمار کے عدد ڈالے تھے، ہر قسط کے آغاز میں انہیں اسی طرح برقرار رکھا گیا ہے۔ البتہ چند ایک مقامات کو چھوڑ کر تمام حواشی اس عاجز طالب علم کے نوشتہ ہیں۔ حواشی میں جن کتب کا حوالہ دیا گیا ہے ان کی طباعتی تفصیلات آخر میں فہرست مآخذ میں درج کی گئی ہیں۔ قادری صاحب کے حواشی کی نشاندہی بھی کردی گئی۔
اس کام میں اگر کوئی خوبی ہے تو وہ قادری صاحب کی مرہونِ منت ہے، اور اگر کوئی خامی یا غلطی راہ پاگئی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اِس عاجز طالب علم کا تساہل و تغافل ہے۔ وماتوفیقی الاباللہ‘‘۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب سے بطور نمونہ ایک مثال بھی یہاں درج کردی جائے:
پرچین سازی [پ مفتوح، ی معروف]
قدیم شاہی عمارات پتھر پر نقش و نگار اور فن کارانہ کام کے لیے مشہور ہیں، یہ نقش و نگار دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک قسم ابھرے ہوئے کام کی ہے یعنی جو نمونہ گل کاری اور بیل بوٹوں کا ہوتا ہے اس کی باقی زمین کوکھود کر اس نمونے کو ابھار دیتے ہیں، اس ابھرے ہوئے نقوش کی فن کاری کو ’’مُنَبَّت کاری‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ ہے کہ جو نقوش ہوں انہیں کھودتے ہیں اور پھر اس میں دوسرے رنگ کے قیمتی پتھروں کو تراش کر بٹھاتے اور مسطح کرتے ہیں۔ اس عمل کو جو منبّت کاری کے برعکس ہوتا ہے، پچی کاری کہتے ہیں۔
پروفیسر عبداللہ بلگرامی ’’حل الغوامض‘‘ 1885صفحہ 44 پر لکھتے ہیں:
’’پَرچین۔ کیل وغیرہ کا کسی چیز کے اندر کرکے مضبوط کرنا۔ اہلِ عمارت کی اصطلاح میں پتھر کے ٹکڑوں کو دوسرے پتھر میں جڑ کر گل بوٹے ہموار طور پر بنانا، اوسے [اسے] پچی کاری کہتے ہیں، اور پچی کاری میں جو باریک خطوط گل بوٹے ہوتے ہیں اوس [اس] کے بنانے کو پرچین سازی کہتے ہیں‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے، سادہ مگر رنگین سرورق سے مزین ہے۔