خوش بو کو قید کرنا ممکن نہیں
دو دن سے یہ خبر گردش میں ہے کہ ملک کے بعض نام نہاد دانش وروں نے ایک خط لکھ کر حکومت کو متوجہ کیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونی یورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد، جو حکومت کے خرچ سے چلتی ہیں، ان کے نصاب سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابیں نکال دی جائیں۔ خط میں ان یونی ورسٹیوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور مولانا مودودی کے بارے میں بھی غلط سلط باتیں کہی گئی ہیں۔
مذکورہ یونی ورسٹیوں کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ان کے شعبۂ اسلامیات کے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز کے نصاب میں جہادی اور ملک مخالف مواد کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ تینوں ادارے پورے ہندوستان کے اسلامی تعلیمی اداروں کے لیے ٹریل بلیزر اور رول ماڈل ہیں، لہٰذا وہ جو رخ اختیار کرتے ہیں وہ پورے ہندوستان کے اسلامی تعلیمی اداروں کے ساتھ ملک میں مسلم سیاست کے بنیادی اصول وضع کرتا ہے۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ مولانا مودودی کی کتابیں، جن میں مبینہ طور پر نفرت انگیز مواد پایا جاتا ہے، ان یونی ورسٹیوں کے نصاب کا حصہ ہیں۔
خط میں تفصیل سے مولانا مودودی کی فکر کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے، مثلاً یہ کہ انھوں نے 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کی مخالفت ہندوستان کی محبت میں نہیں کی تھی، بلکہ وہ ”مشن غزوۂ ہند“ کے لیے پُرعزم تھے۔ پورے برصغیر میں غیر مسلموں اور ان کی ثقافت کا مکمل صفایا کرکے عالمی اسلامی امت بنانا ان کا ہدف تھا۔ ان کی تحریریں مبینہ طور پر غیر مسلموں کے خلاف جہاد کا مطالبہ کرتی ہیں اور اجتماعی قتل یا زبردستی اسلام قبول کرنے پر اُکساتی ہیں۔ مودودی جماعت اسلامی ہند (JIH) کے بانی تھے، جو ہندوستان کی مکمل اسلامائزیشن کے لیے پُرعزم تنظیم تھی۔ اس کا صدر دفتر دہلی میں ہے اور یہ وزارتِ داخلہ کی ناک کے نیچے پھل پھول رہی ہے۔ مودودی کی ہائیڈرا ہیڈ آئیڈیالوجی نے انڈین مجاہدین، ہند کی ولایت (اسلامک اسٹیٹ کا ہندوستانی صوبہ)، جے کے ایل ایف، حریت، رضا اکیڈمی، پاپولر فرنٹ آف انڈیا وغیرہ جیسی کئی شاخیں تخلیق کیں۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند نے سیمی (SIMI) کی بنیاد رکھی۔ ان سب پر یا تو مختلف اوقات میں پابندی لگا دی گئی ہے، یا فی الحال انتہائی سنگین الزامات کے تحت این آئی اے کی جانچ پڑتال کے تحت ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر نام زد دہشت گرد تنظیمیں جیسے القاعدہ، داعش، حماس، حزب اللہ، اخوان المسلمون، طالبان وغیرہ مودودی کے بنیادی نظریے اور سیاسی اسلام کے فریم ورک سے متاثر ہوکر اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خط طويل ہے۔ اس میں اور باتیں بھی کہی گئی ہیں۔ ان کا خلاصہ سطور بالا میں پیش کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں حکومتی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ جو جانب داری برتی جارہی ہے اور انہیں ان کے حقوق سے جس طرح محروم کیا جارہا ہے، اس کے لیے وجہِ جواز فراہم کرنے کے لیے اس طرح کا ماحول بنایا جارہا ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے خبر آئی تھی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے سرکاری سالانہ بجٹ میں خاصی کٹوتی کردی گئی ہے، جب کہ بنارس ہندو یونی ورسٹی کا بجٹ دوگنا کردیا گیا ہے۔ اس زیادتی اور ناانصافی کے خلاف آواز نہ اٹھے، اس کے لیے اس سے اچھی ترکیب اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان یونی ورسٹیوں ہی کو مجرم بنادیا جائے؟
خط میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی ہند کے بارے میں بعض صریح غلط بیانیاں کی گئی ہے۔ ایسی امید تو نہیں کہ یہ نام نہاد دانش وران اتنے بے خبر ہوں گے، اس سے شبہ ہوتا ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا مودودی نے متحدہ ہندوستان میں 1941ء میں جماعت اسلامی کی تاسیس کی تھی۔ اُس وقت اس کا مرکز لاہور میں تھا۔ تقسیم کے بعد جو لوگ ہندوستان میں رہ گئے انھوں نے ازسرنو اکٹھا ہوکر جماعت کی تشکیل کی اور اس کا نام ”جماعت اسلامی ہند“ رکھا۔ جب کہ خط میں مولانا کو جماعت اسلامی ہند کا بانی لکھا گیا ہے۔ اسی طرح سیمی طلبہ اور نوجوانوں کی ایک آزاد تنظیم تھی، لیکن لکھا گیا ہے کہ جماعت اسلامی ہند نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔
جہاد کے بارے میں عالمی سطح پر جو غلط فہمی پائی جاتی ہے اس میں یہ لکھنے والے بھی مبتلا ہیں۔ جہاد کو دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے ہم معنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ اور چوں کہ مولانا نے ”الجہاد فی الاسلام“ کے نام سے ایک معرکہ آرا کتاب تصنیف کی ہے اس لیے انہیں دہشت گردی کو پروموٹ کرنے والا باور کرایا جاتا ہے۔ اسلام میں جہاد کا مطلب غیر مسلموں کا قتلِ عام کرنا یا انہیں زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا نہیں ہے۔ مولانا مودودی نے بھی یہ بات نہیں لکھی ہے۔ جہاد نام ہے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جدّوجہد کرنے اور اس کے خلاف دشمنی کا رویّہ اختیار کرنے والوں سے مقابلہ کرنے کا۔
یہ بات کہ مولانا مودودی کی تحریریں شدّت پسندی پر ابھارتی ہیں اور دنیا کی تمام شدّت پسند تنظیمیں ان کی تحریروں سے تحریک حاصل کرتی ہیں، بالکل غلط ہے اور مولانا کو خوامخواہ بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ مولانا پُرامن اور کھلے عام جدّوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے خفیہ اور زیرِزمین تحریکات چلانے کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے شدّت پسندی سے منع کیا ہے اور پوری صراحت کے ساتھ عسکری کارروائیوں سے روکا ہے۔ وہ طاقت کے ذریعے کوئی تبدیلی لانے کے مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو تبدیلی طاقت کے ذریعے آئے گی اسے طاقت کے ذریعے ختم بھی کیا جاسکتا ہے، اس لیے وہ دیرپا نہیں رہ سکتی۔ ایسی صاف و شفاف فکر رکھنے والے شخص کو دہشت گردی کا ”ایکسپورٹر“ کہنا کتنی بڑی زیادتی ہے؟!
مولانا مودودی نے یہ بات بہت زور دے کر کہی ہے کہ اسلام چند رسوم و روایات رکھنے والا مذہب نہیں، بلکہ ”دین“ یعنی طریقۂ زندگی ہے۔ معاشرت، معیشت اور سیاست کے بارے میں بھی اس کی تعلیمات ہیں، جو نفاذ چاہتی ہیں۔ آج کے دور میں اسلام کو غلط طور پر ”سیاسی اسلام“ اور ”معتدل اسلام“ کے خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے اور معتدل اسلام کو پسندیدہ اور سیاسی اسلام کو مبغوض قرار دیا گیا ہے، اور چوں کہ مولانا میدانِ سیاست میں بھی اسلام کو دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے انہیں ”سیاسی اسلام“ کے نظریہ ساز کی حیثیت دے دی گئی ہے۔
مولانا مودودی نے اسلام کا ایک جامع تصور پیش کیا ہے۔ ان کی فکر کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی ہے۔ ان کی جماعت سے وابستہ لوگوں کی تعداد چاہے ہزاروں میں ہو، لیکن ان کی فکر لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دل میں سمائی ہوئی ہے۔ ان کی تحریروں میں جو خوش بو ہے اسے قید کرنا ممکن ہے نہ اسے جلا وطن کیا جاسکتا ہے۔ کیا نادان سمجھتے ہیں کہ تین یونیورسٹیوں کے نصاب سے ان کی کتابیں خارج کرواکے وہ ان کی فکر پر قدغن لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ یہ ان کی بھول اور خام خیالی ہے، جس کا انہیں جتنی جلدی ادراک ہوجائے، اتنا ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔