جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتِ حال کو خاصا سنگین قرار دیا ہے۔ اُن کے بقول اس وقت حکومت اور حزبِ اختلاف آپس میں ٹکرائو کا ماحول ختم کریں اور سیاسی گرینڈ ڈائیلاگ کا راستہ اختیار اپنائیں۔ سراج الحق کا نکتہ بہت اہم ہے کہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ قومی یا ریاستی اداروں کو بھی موجودہ صورت حال میں متنازع بنادیا گیا ہے
قومی سیاست کے تناظر میں بنیادی سوال حکومت اور حزبِ اختلاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان اہم معاملات پر گفتگو یا مکالمہ ہے۔ کیونکہ سیاست اور جمہوریت میں کامیابی کی بنیادی کلید بات چیت، مکالمہ، مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنا اور ایک ایسے ایجنڈے پر متفق ہونا ہے جو پیچھے کے بجائے آگے کی طرف لے کر جاسکے۔ اس کے لیے اہلِ سیاست کو اپنی اپنی سطح پر تدبر، فہم وفراست اور رواداری کی سوچ اور فکر کو تقویت دے کر سیاسی مخالفین کے لیے راستہ نکالنا ہوگا۔ سیاست اور جمہوریت بند دروازوں کو کھولتی ہیں، نہ کہ انہیں بند کرکے سیاسی تعطل کا ماحول پیدا کریں۔ سیاسی تعطل عمومی طور پر انھی قوتوں کے مفاد میں ہوتا ہے جو یہاں جمہوریت کے مقابلے میں غیر جمہوری نظام کی حامی ہوتی ہیں۔ اس لیے اِس وقت قومی بحران کے حل کے لیے گیند اہلِ سیاست کے ہی کورٹ میں ہے، اور اگر وہ اس سے استفادہ کرسکے تو قومی بحران کے حل میں مثبت پیش رفت ہوسکتی ہے۔ وگرنہ سیاسی سطح پر جو ماحول بنا ہوا ہے وہ مزید بحران پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
اس وقت قومی سیاست میں جو تقسیم ہے وہ خاصی گہری ہے۔ اس نے محض سیاست کو ہی تقسیم نہیں کیا بلکہ مختلف طبقات اوراداروں کی سطح پر بھی ہمیں تقسیم کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس طرز کی تقسیم میں مکالمے یا مفاہمت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ اگر اس کا راستہ نہ نکالا گیا تو یہ تقسیم پورے سیاسی نظام کو ہی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ جب سیاسی جماعتیں اور سیاست دان مکالمے کا راستہ بند کردیں تو دیگر قوتوں یا اداروں کو چاہیے کہ آگے بڑھ کر مکالمے کا ماحول پیدا کریں یا ان کو مجبور کریں، دبائو ڈالیں کہ وہ بیٹھ جائیں۔ اسی وجہ سے بہت سے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ اگر سیاسی فریقین میں بات چیت ہونی ہے یا اسے نتیجہ خیز بنانا ہے تو فیصلہ ساز قوتوں کی جانب سے ’’نرم مداخلت‘‘ کرنا ہوگی جو بات چیت میں سیاسی فریقین کے لیے سہولت کاری کا کام کرسکے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی موجودہ صورتِ حال میں براہِ راست بیٹھ کر مکالمے کے حق میں نہیں، اُس کا مؤقف ہے کہ یہ کام اہلِ سیاست خود کریں اور ہماری حمایت ان کو حاصل رہے گی۔
جو لوگ سہولت کاری کے لیے ایوانِ صدر کی جانب دیکھ رہے ہیں تو اس پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے بقول براہِ راست مذاکرات ان کا ایجنڈا نہیں البتہ اگر حکومت اور حزبِ اختلاف اتفاق کریں تو وہ اس میں معاونت کے لیے تیار ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکومت یا اتحادی سطح پر موجود جماعتوں اور عدلیہ میں جو رسّاکشی دیکھنے کو مل رہی ہے وہ اس کا بات کا تقاضا کرتی ہے کہ محض سیاست ہی نہیں بلکہ کچھ بنیادی نوعیت کے انتظامی، قانونی اور معاشی معاملات پر بھی مکالمہ درکار ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بقول ملک میں نئے اور شفاف انتخابات اور نئے الیکشن کمیشن پر کچھ طے کرکے ہی ہم موجودہ بحران سے نکل سکتے ہیں، وگرنہ دوسری صورت میں انتشار کی سیاست مزید نمایاں ہوگی۔ اگرچہ فوری انتخابات پر حکمران اتحاد میں تضاد ہے، اور وہ فوری انتخابات کے مقابلے میں اگلے برس 2023ء میں نئے انتخابات کے حامی ہیں۔ لیکن نوازشریف نے بھی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کرنے کے بجائے ہم کو فوری انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ان کے بقول اگر ہم مزید حکومت میں رہے تو ہماری سیاسی پوزیشن مزید کمزور ہوگی اور اس کی بھاری قیمت ہمیں ادا کرنا ہوگی۔ یہ خبریں بھی ہیں کہ کچھ غیر سیاسی افراد انفرادی سطح پر سیاسی فریقین کے درمیان مکالمے کے ماحول اور ایجنڈے کی تشکیل میں سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ یہ کتنا نتیجہ خیز ثابت ہوسکے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں کچھ عملی فیصلے اگست کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں متوقع ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتِ حال کو خاصا سنگین قرار دیا ہے۔ اُن کے بقول اس وقت حکومت اور حزبِ اختلاف آپس میں ٹکرائو کا ماحول ختم کریں اور سیاسی گرینڈ ڈائیلاگ کا راستہ اختیار اپنائیں۔ سراج الحق کا نکتہ بہت اہم ہے کہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ قومی یا ریاستی اداروں کو بھی موجودہ صورت حال میں متنازع بنادیا گیا ہے، اور سیاست دانوں کو اپنے مسائل سیاسی فورم پر ہی حل کرنے چاہئیں، بلاوجہ ہم اپنے سیاسی مسائل کو الجھا کر عدلیہ سمیت دیگر اداروں پر بوجھ ڈال کر اُن سے مرضی یا منشا کے مطابق فیصلے کی توقع کرتے ہیں، اگر نتائج ہمارے حق میں نہیں ہوتے تو اس کا نتیجہ اداروں سے ٹکرائو کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سراج الحق کا یہ نکتہ وزن رکھتا ہے کہ مسائل کا حل خود سیاست دانوں کو ہی تلاش کرنا ہے، اور اس کی کلید بات چیت یا گرینڈ سطح کا سیاسی ڈائیلاگ ہی ہوسکتا ہے۔ سراج الحق کی یہ تجویز بھی اہم ہے کہ اگر مسئلہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بداعتمادی کا ماحول ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تو جماعت اسلامی اس کام کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ اُن کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ فوری انتخابات مسائل کا حل ہوسکتے ہیں، مگر اُن کے بقول جب تک انتخابی اصلاحات اور انتخابات کی شفافیت پر اصولی اتفاق نہیں ہوگا نئے انتخابات کے نتائج کو بھی کوئی قبول نہیں کرے گا۔
ایک تجویز یہ دی جارہی تھی کہ حکومت تحریک انصاف کے اراکین ِ قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے بجائے ان کو پارلیمنٹ میں واپس لائے، اسی بنیاد پر وہ اپنی مدت بھی پوری کرسکتی ہے۔ لیکن حکومت نے تحریک انصاف کی جانب سے عدم اعتماد کے ڈر سے قومی اسمبلی کے گیارہ ارکان کے استعفے منظور کرکے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا ہے، اور باقی ارکان کے ناموں پر انتظار کی پالیسی ہے، اس سے یقینی طور پر پہلے سے موجود سیاسی تلخی میں اضافہ ہوگا اور مفاہمت یا بات چیت کے امکانات بھی کم ہوں گے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ حکمران اتحاد نے بھی طے کرلیا ہے کہ عمران خان کے ساتھ کسی بھی سطح کی مفاہمت کے بجائے بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ ایسے میں سیاسی فریقوں میں مکالمے کی منزل مزید دور ہوجائے گی۔ خیال ہے کہ عمران خان بھی جوابی مہم کی بنیاد پر اسلام آباد پر سیاسی چڑھائی کرکے انتخابات کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حکمران اتحاد بڑی شدت سے الیکشن کمیشن پر زور دے رہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے۔ اگر فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آتا ہے تو اس کا شدید ردعمل تحریک انصاف کی جانب سے، اور اگر تحریک انصاف کے حق میں آتا ہے توحکمران اتحاد کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے کو ملے گا جو حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔ ویسے بھی یہ سمجھنا کہ اس فارن فنڈنگ مقدمے سے عمران خان نااہل اور ان کی پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ ہوسکتی ہے، محض خام خیالی ہے۔ اور اگر بالفرض ایسا ہوتا ہے تو یہ نیا سیاسی پنڈورا باکس کھولنے کا سبب بنے گا اورکئی دیگر جماعتیں بھی اس کی لپیٹ میں آسکتی ہیں۔
حالیہ داخلی اور خارجی بحران اور معاشی بدحالی سے نمٹنے کے لیے سب کو ہی مل بیٹھنا ہوگا، وگرنہ ہم معاملات میں اصلاح کے تناظر میں تاخیر کا شکار ہوجائیں گے۔ اس وقت رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے (اس میں خاص طور پر میڈیا، وکلا برادری، کاروباری طبقات شامل ہیں) کہ حکومت اورحزبِ اختلاف پر دبائو ڈالیں کہ وہ داخلی سطح کے معاملات کو الجھانے کے بجائے سلجھانے کی طرف توجہ دیں۔ سب فریق مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور دیگر فیصلہ ساز اداروں کو بھی غو رکرنا چاہیے کہ معاملات کدھر جارہے ہیں ۔ کیوں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں حزب اختلاف سے اور حزب اختلاف حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔اسٹیبلشمنٹ ایک اہم فریق ہے، اگرچہ براہِ راست مذاکرات ان کا مینڈیٹ نہیں اورنہ ہی ان کا اپنا کوئی ایجنڈا ہونا چاہیے، مگر ان کو سیاسی قوتوں کو یہ واضح پیغام دینا ہوگا کہ انہیں بات چیت کی طرف بڑھنا ہوگا،کیونکہ اس وقت مفاہمت اوربات چیت کا عمل ناگزیر ہوگیا ہے۔ اور یہی مسئلے کا حل بھی ہوگا۔