دنیائے سیاست کی ہوا تقریروں سے بھرگئی ہے۔ تقریریں ہوا سے بھری ہوئی ہیں، بلکہ ہوا و ہوس سے۔ سیاسی تقریروں میں اب جو زبان استعمال ہوتی ہے شرفا اُسے ’بد زبانی‘ کہتے ہیں۔ اشرافِ سیاست کی جوتیوں میں جہاں دال بٹ رہی ہے، وہیں گفتگو میں لام کاف بھی ہورہی ہے۔ ’لام کاف‘ کنایہ ہے گالی گلوچ کے الفاظ کا۔ لام کاف کے ساتھ لاف و گزاف بھی زوروں پر ہے۔ ’لاف و گزاف‘ شیخی بگھارنے اور ڈینگ مارنے کو کہتے ہیں۔ یہی ڈینگ ماری زبان سماجی ذرائع ابلاغ پر سیاسی بچگان بھی بولتے ہیں۔ مگر ضمیرؔ جعفری کہتے ہیں:
گلہ کیسا گلی کوچوں کی مخلوقِ فراواں کا
یہ وہ کرتے ہیں جو ان کے گرو گھنٹال کرتے ہیں
پس ہر طرف، ہر گرو کے چیلوںکی فقط زبان لہرا رہی ہے… لپ لپ لپکتی ہوئی زبان۔ زبان سے متعلق محاورے اب سنائی ہی نہیں، دکھائی بھی دینے لگے ہیں: زبان پکڑنا، زبان کھولنا، زبان کھلوانا، زبان کھل جانا، زبان بند کردینا، زبان بدلنا، زبان بگڑنا، زبان خراب ہونا، زبان سے پھر جانا، زبان نکالنا، زبان چڑانا، زبان چلنا بلکہ زبان تڑاق پڑاق چلنا، زبان درازی کرنا، اور زبان گدی سے کھینچ لینا وغیرہ۔
انسان کے دونوں جبڑوں کے درمیان پائی جانے والی زبان، اُن دو چیزوں میں سے ایک ہے جن کی ضمانت دینے پر مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلّم نے جنت کی ضمانت دی ہے۔ دوسری چیز دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے۔ ترمذی شریف کی ایک حدیث کے مطابق انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضا زبان کے آگے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’تُو ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر۔ اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں۔ اگر تُو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے (یعنی خیریت سے) رہیں گے۔ اگر تُو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے‘‘۔
ظاہر ہے، زبان میں ٹیڑھ آئی تو اعضا بھی ٹیڑھے میڑھے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً زبان نے اگر کسی پہلوان کو گالی دے ڈالی تو شاید وہ زبان تو نہیں کھینچے گا، طیش میں آکر منہ یا ہاتھ پاؤں ہی توڑڈالے گا اور بد زبان کو تھمادے گا۔ بول چال کی زبان بھی دونوں جبڑوں کے درمیان کی زبان ہی بولتی ہے۔ ’الجبڑا‘ ہی ’الجھگڑا‘ کھڑا کرتا ہے۔پیام بر بیچ سے بچ بھاگے تو دُو بدُو ہونے لگتی ہے۔ کلیم عاجزؔ کہتے ہیں:
تمھیں شعلہ زباں شعلہ دہن ہو، ایسا مت سمجھو
زباں کھولیں تو کم آتش کے پرکالے نہیں ہیں ہم
زبان ہی آگ لگاتی ہے۔ زبان ہی آگ بجھاتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ زبان پر قابو رہے، یعنی زبان اپنے ہی قابو میں رہے۔ انسان زبان کے قابو میں نہ چلا جائے کہ چھٹانک بھر کی زبان تمام اعضا کو دس من کے پہلوان سے بھڑادے۔ زبان کو قابو میں رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اچھی زبان سیکھی جائے۔ میٹھی زبان بولی جائے۔تحریر کی زبان میٹھی ہو تو اُس کے پرزے پرزے کر کے، پرزے تبرک کی شیرینی کی طرح بانٹ دیے جاتے ہیں۔ یہ بات ہمیں شعورؔ بلگرامی نے بتائی:
بٹ گئے مثلِ تبرک مرے خط کے پرزے
یہ میسر مری شیرینیِ تحریر کسے
شیرینیِ تحریر پر یاد آیا کہ جب ان کالموں کا آغاز ہوا تھا (جو محترم اطہر ہاشمی مرحوم نے 2013ء میں ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے کیا تھا) تو پیشِ نظر صرف یہ تھا کہ ذرائع ابلاغ پر اُردو لکھنے اور اُردو بولنے والوں کی زبان کا بگاڑ درست کیا جائے۔ مگر ’خوش زبانی‘ وہ بے مثل دولت ہے کہ اسے لُوٹنے کو شاہ و گدا سب ٹوٹ پڑے۔ نوآموز ہی نہیں، اہلِ زبان اور ماہرین زبان بھی ہاشمی صاحب کی زبان کے مزے لوٹنے لگے۔ سیاست دان بھی ’خوش زبان‘ ہوجاتے تو شاید ابلاغیات پر چھایا ہوا ’بد زبانی‘ کا طوفان تھم جاتا۔ زبان کے مزے لوٹنے اور لٹانے کے لیے لابُدی ہے کہ محاورے معلوم ہوں۔ پس ’زبان‘ سے متعلق جو محاورے ہمیں ’منہ زبانی‘ یاد ہیں، اُن میں سے چند یہاں پیش کیے دیتے ہیں۔ ’منہ زبانی‘ کی ترکیب کا استعمال ضمیرؔ جعفری نے اپنی نظم ’’دو بہرے شناساؤں سے ملاقات‘‘ میں کیا خوب کیا ہے:
اُس نے کہا: ’’کیا آپ کو اپنی جوانی یاد ہے؟‘‘
اِس نے کہا: ’’ہاں یاد ہے اور منہ زبانی یاد ہے!‘‘
بہرے میاں کو’زبانی یاد ہے‘ کہہ دینا کافی تھا۔ یہی درست محاورہ ہے۔ ’زبانی سنانے‘کے معانی ’بغیر دیکھے محض حافظے کی مدد سے سنانا‘ ہیں۔ مگر بچپن میں ہم کوئی نظم یا پہاڑا وغیرہ یاد کرلیتے تو اُستاد کا منہ دیکھ دیکھ کر انھیں ’منہ زبانی‘ ہی سنایا کرتے تھے کہ ’ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں‘۔ یہ نہ جانیے کہ اس مصرعے میں زبان رکھنے کی جا کا انکشاف کیاگیا ہے۔ ’منہ میں زبان رکھنے‘ کا مطلب ہے بولنے یا جواب دینے کی طاقت رکھنا۔ ’تم زباں رکھتے ہو، کیا بندہ زباں رکھتا نہیں؟‘ پان دان تو پان رکھنے کا ظرف ہے۔ مگر ’زبان دان‘ اُس شخص کو کہتے ہیں جو زبان کا ماہر ہو۔ ’زبان سمجھنا‘ بھی ایک محاورہ ہے۔ اگر میں پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد مغل سے یہ کہوں کہ ’میںآپ کی زبان سمجھتا ہوں‘ تو یقیناً وہ اس کا یہ مطلب نہیں لیں گے کہ میں پشتو سمجھ لیا کرتا ہوں۔ مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ دراصل کیا کہنا چاہتے ہیں، میں جانتا ہوں۔ اُن کا مدعا پہچانتا ہوں۔ ’زبان تر رکھنا‘ کسی ذکر کو بکثرت کرنا، کسی ذکر میں لطف آنے لگنا۔ ’اپنی زبان ذکرِ الٰہی سے تر رکھو‘۔ ’زبان سوکھنا‘ کوئی بات کہنے سے زبان کا عاجز ہوجانا۔ مگر چاپلوس اور خوشامدی لوگوں کی تو زبان نہیں سوکھتی کسی کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے۔ پیاس سے زبان خشک ہوجانے کو بھی ’زبان سوکھ گئی‘ کہتے ہیں، یا یوں کہتے ہیں کہ ’زبان میں کانٹے پڑ گئے‘۔ ’زبان میں آبلے پڑجانا‘ کچھ کہنے کے قابل نہ رہنا۔ جونؔ بھائی کی حرکتیں ایسی تھیں کہ احباب اُن کے حق میں بولنے سے قاصر رہتے تھے۔ تب ہی تو جونؔ بھائی مرحوم نے تپ کر پوچھا تھا: ’بولتے کیوں نہیں مرے حق میں؟آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟‘
غرض زبان کے اتنے محاورے ہیں کہ سب کو بیان کرنے سے زبان عاجز ہے۔ لہٰذا اب ہم زبان تالو سے لگائے لیتے ہیں اور آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آخر میں محاوروں بھری زبان کا ایک چسکا بھی لے لیجیے۔ محمد ابن الحسن سیدؔ اپنی خوش ذائقہ زبان میں اپنے سفرِامریکہ کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں۔ سید صاحب اپنے میزبان کی بیٹھک میں بیٹھے تھے اور… (آگے کا قصہ اُنھیں کی زبانی سنیے)…
’’ٹیلی ویژن پر ایک شخص مشین گن کی رفتار سے کوئی بیان داغ رہا تھا۔ میں نے کہا:’’اس کی چیخ پکار بند نہ کردیں؟ بڑا مظلوم جان پڑتا ہے‘‘۔ کہنے لگے: ’’اسے آپ چیخنا کہتے ہیں؟ جنابِ عالی! اس کی آمدنی دس لاکھ ڈالر سالانہ ہے۔ کھیلوں، خاص کر آئس ہاکی کا بہترین مبصر ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا:’’شیخ صاحب! ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ شاید اسی کو کہتے ہیں۔ میں نے اس کی آمدنی کی بات نہیں کی، صرف یہ کہا ہے کہ رواں تبصرے سے آپ کی بیٹھک پر نقار خانے کا گمان ہوتا ہے‘‘۔ شیخ صاحب مسکرائے اور جواباً بولے: ’’میں نے سوچا، اس کی مالی حیثیت آپ کے علم میں آجائے گی تو آواز کے متعلق رائے میں بھی خوش گوار تبدیلی آجائے گی‘‘۔ میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور ٹیلی ویژن پر ڈالر بولتا رہا۔‘‘