حافظ محمد ادریس کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، انہوں نے تحریر و تقریر، تحقیق و تالیف اور تنظیم میں اپنا سکہ جمایا ہے۔ جو ذمہ داری انہیں سونپی گئی، حافظ صاحب نے سنجیدگی، خلوص اور محنت سے اس کو نبھایا ہے۔ وہ جہاں جہاں بھی گئے اپنی شخصیت کے واضح اور نمایاں نقوش اور محسوس اثرات چھوڑ آئے۔ ’’عزیمت کے راہی‘‘ دراصل حافظ محمد ادریس کی ’’یادِ رفتگان‘‘ کے ضمن میں علمی و تحقیقی کاوشوں کا حاصل ہے جس کی آٹھویں جلد پیش نظر ہے، جس کے آغاز میں عرضِ مصنف میں انہوں نے وضاحت کی ہے:
’’اللہ کی توفیق سے اب تک متوفی اہلِ ایمان میں سے احباب کی ایک بڑی تعداد کے حالات ہم نے اپنے فہم کے مطابق حدیث میں دی گئی ہدایت کی روشنی میں مرتب کیے ہیں۔ سب سے پہلی کتاب ’’مسافرانِ راہِ وفا‘‘ تھی جو پہلی بار مارچ 1993ء میں چھپی۔ اس کے بعد ’’چاند اور تارے‘‘ کے نام سے دوسری کتاب جون 1994ء میں منظرعام پر آئی۔ ان دونوں کتابوں کے بعد ’’عزیمت کے راہی‘‘ کے نام سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس سلسلے کی پہلی جلد اپریل 2008ء میں چھپی۔ پھر الحمدللہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا گیا تاآنکہ اب جلد ہشتم مکمل ہوگئی ہے۔ ان کتابوں میں بیان کردہ حالات و واقعات میں ہم نے پوری طرح یہ کوشش کی ہے کہ ہر واقعہ درست اور مستند ہو۔ جہاں تک ممکن ہوا مرحومین کے احباب اور اہل و عیال سے بھی معلومات حاصل کی گئیں۔ اس کے علاوہ ان شخصیات کے ساتھ ذاتی طور پر جو تعلق رہا اس سے بھی خاصی معلومات حاصل ہوئیں۔‘‘
’’عزیمت کے راہی‘‘ کے حصہ ہشتم کا پیش لفظ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق نے تحریر کیا ہے، ان کی رائے ہے:
’’زیر نظر کتاب جہاں ان صاحبانِ عزیمت کے سوانحی حالات سے آگہی کا ذریعہ ہوگی، وہیں پر یہ احساس بھی اجاگر کرے گی کہ اللہ کے بندوں کو اپنی زندگی کیسے گزارنی ہے، کن سرگرمیوں کو اختیار کرنا ہے اور اپنے وسائل کیسے اور کہاں صرف کرنے ہیں۔ ایک مومن کو یہ احساس ہر لمحہ رہنا چاہیے کہ اس کے پاس زندگی کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، جس کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔‘‘
ممتاز ماہرِ اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ’’مشعل راہ تذکرے‘‘ کے عنوان سے تقریظ میں رقم طراز ہیں:
’’ اپنے اکابر و اصاغر کے، سوانح اور کارناموں کا ذکر قلم بند کرنا، نظریاتی تحریکوں کا فریضہ ہے، مگر تحریکیں کم ہی ایسا کرتی ہیں۔ حافظ صاحب رفتگان کے تذکرے مرتب کرکے ایک طرح سے تحریکاتِ اسلامی کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کررہے ہیں۔ آئندگان کے لیے یہ تذکرے مشعلِ راہ ہوں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بیش از بیش توفیق بخشے تاکہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھ سکیں۔‘‘
’’عزیمت کے راہی‘‘کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حافظ محمد ادریس صاحب کو بلا کا حافظہ عطا فرمایا ہے اور سالہا سال پرانی ملاقاتوں کی تفصیل ان کی یادداشت میں محفوظ ہے، اسی طرح ان کے تعلقات کی وسعت کا عالم یہ ہے کہ وہ صرف پاکستان اور یہاں کی دینی و سیاسی اور سماجی شخصیات تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں دین کی سربلندی اور اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف تحریکوں اور ان کے قائدین سے متعلق نہ صرف معلومات حافظ صاحب کو حاصل ہیں بلکہ اکثر سے ذاتی روابط اور تعلقات بھی استوار ہیں، جن کا تذکرہ ان کی تحریروں میں کثرت سے ملتا ہے۔ کتاب کا موضوع اگرچہ ’’یادِ رفتگان‘‘ ہے تاہم اس کے مطالعے سے عالمِ اسلام کو درپیش مسائل، اسلامی تحریکوں کے حالات، طریقِ کار اور مستقبل کے امکانات سے متعلق بھی گراں قدر معلومات قاری کو دستیاب ہوتی ہیں۔ یوں تو ’’عزیمت کے راہی‘‘ کی تمام جلدوں میں جن شخصیات کا تذکرہ ہے وہ اپنی اپنی جگہ نادرِ روزگار ہیں، تاہم آٹھویں جلد میں شامل ہستیاں جگمگاتے ستاروں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سب کے نام سمونا تو اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں البتہ ان میں سے چند ناموں چودھری غلام محمد، چودھری رحمت الٰہی، سید منور حسن، عبدالغفار عزیز، ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی، ڈاکٹر سید وسیم اختر، ڈاکٹر محمد مرسی، اعجاز رحمانی، جسٹس فدا محمد خاں، حفیظ الرحمٰن احسن اور نعمت اللہ خان سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کتاب کے آخر میں دو خواتین کا تذکرہ بھی موجود ہے جن میں پروفیسر غلام اعظم کی اہلیہ محترمہ عفیفہ اعظم اور حافظ ادریس صاحب کی ہمشیرہ محترمہ عبیدہ بی بی شامل ہیں۔ حافظ صاحب کی تحریر سادہ اور رواں ہے جس میں ان کی ذات بھی ہر جگہ متحرک اور فعال دکھائی دیتی ہے۔
کتاب عمدہ کاغذ پر معیاری طباعت کا نمونہ ہے، حروف خوانی پوری توجہ سے کی گئی ہے، چنانچہ کتابت کی غلطی ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ رنگین سرورق، مضبوط جلد کے ساتھ چار صد صفحات پر محیط اس کتاب کی قیمت محض چھ سو روپے نہایت معقول بلکہ روزافزوں گرانی کے پیش نظر خاصی کم محسوس ہوتی ہے۔ موضوع اور اہمیت کے لحاظ سے ’’عزیمت کے راہی‘‘ ہر ذاتی اور اجتماعی کتب خانے کی زینت بننے کی متقاضی ہے۔