ایک مسافر کے مشاہدات و تاثرات
راقم کو جون جولائی میں لاہور سے کراچی اور وہاں سے واپس لاہور کا سفر کرنا پڑا۔ لاہور سے کراچی ایئربلیو سے سفر کیا۔ ایئر بلیو سے اس لیے کہ قبل ازیں پی آئی اے کا ٹکٹ خریدا تھا مگر انھوں نے وہ پرواز ہی منسوخ کردی، مجبوراً ایئربلیو کا ٹکٹ خریدا۔ راقم 22 جون کو ایئربلیو کی پرواز نمبرPA405 سے لاہور سے کراچی روانہ ہوا۔ یہ تجربہ اس قدر تلخ تھا کہ واپسی کے لیے ریل کا ٹکٹ لیا مگر وہ تلخ تر ثابت ہوا۔
قارئینِ محترم! ہر دو سفروں کا احوال پڑھیں اور عبرت حاصل کریں۔
ایئر بلیو کی مذکورہ پرواز بروقت 6 بجے شام لاہور سے روانہ ہوئی۔ کراچی کے قریب پہنچی تو جناح ٹرمینل سے ہدایت ملی: یہاں بارش ہورہی ہے اور پرواز اترنے کے لیے موسم سازگار نہیں ہے۔ نواب شاہ رک جائیں اور انتظار کریں۔ یہ انتظار گھنٹوں پر محیط ہوکر صبح چار بجے تک طویل ہوگیا۔
قارئینِ محترم! چونکیے نہیں، قصہ سنیے۔ آدھ پون گھنٹے بعد کراچی سے اطلاع ملی کہ اب موسم سازگار ہے، آجائیے۔ مگر اب جہاز چلے تو کیسے؟ اصول یہ ہے کہ جس ایئرپورٹ سے جہاز روانہ ہوتا ہے، وہاں سے اسے ”ہر لحاظ سے قابلِ پرواز“ یعنی فٹنس سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، اس کے بغیر وہ اڑ نہیں سکتا۔ نواب شاہ کا اڈا ویران و نظرانداز (neglected)قسم کا تھا۔ یہاں مطلوبہ سرٹیفکیٹ (پروانۂ اجازت) دینے والا کوئی نہ تھا۔ نہیں معلوم کسی کی ڈیوٹی ہی نہ تھی یا ڈیوٹی تھی اور ڈیوٹی والا اپنی ڈیوٹی سے غائب تھا۔ جہاز ایک ویران سے رن وے پر کھڑا تھا اور مسافر یرغمال بنے اپنی اپنی نشستوں پر کسمسا رہے تھے۔ خواتین بھی تھیں اور بچے بھی۔ کراچی ایئرپورٹ پر میرے داماد حامد حسن مجھے لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے موبائل پر بتایا کہ ”یہاں ایئربلیو کے دفتر والوں سے میں نے پوچھا: جہاز کیوں نہیں آرہا؟ نواب شاہ سے کب اڑے گا؟ دفتر والوں نے کہا: ہمیں کچھ پتا نہیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد پھر پوچھا تو بتایا کہ جہاز ایک بجے آجائے گا۔ بعد میں بھی صبح تک وہ اسی طرح جھوٹ بول بول کر طفل تسلیاں دیتے رہے۔“
ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد جہاز کے عملے نے ازراہِ ترحّم دروازہ کھول دیا۔ مگر باہر نکلیں، اتریں تو کیسے؟ 8، 10فٹ کی بلندی سے کوئی ایتھلیٹ ہی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ خیر، نواب شاہ کے اڈے پر جو اہلکار (چوکیدار وغیرہ) تھے، انھوں نے مہربانی کی۔ ایک سیڑھی دے دی۔ مسافر اترے، کھلی ہوا میں سانس لیا، ٹینشن کم ہوئی، ٹہلنے لگے۔ مگر کب تک؟ بیٹھنے کی جگہ نہ تھی، کچھ فاصلے پر ایئرپورٹ کی عمارت نظر آئی جس پر جلی حروف میں انگریزی میں لکھا تھا: ”نواب شاہ ایئرپورٹ“۔ کچھ لوگ وہاں چلے گئے، ہم بھی۔ وہاں چند کرسیاں تھیں، صوفے تھے۔ ایک کونے میں ”مسجد“ بھی بنی ہوئی تھی۔ مغرب اور عشا کی نمازیں کئی لوگوں کے ساتھ ہم نے بھی ادا کیں۔ بھوک لگ رہی تھی۔ واپس جہاز میں آکر بیٹھ گئے۔ عملے نے ایک بار پھر کھانا دیا، حسبِ طلب چائے بھی۔ مسافروں سے ان کا رویہ ہمدردانہ تھا۔ کھانے پینے سے ہوش و حواس کچھ بحال ہوئے۔ غالباً دو بجے اطلاع ملی کہ کراچی سے کوئی انجینئر اپنی ٹیم کے ساتھ آرہا ہے، جو آکر معائنہ کرکے جہاز کے قابلِ پرواز ہونے کا پروانہ دے گا، تب جہاز اڑے گا۔ تین بجے کے قریب ایئربلیو کا ایک جہاز اترا۔ ہم جہاز کے اندر بیٹھے دیکھ رہے تھے، ہمارے جہاز کے ساتھ لگی سیڑھی اتارکر اُس جہاز کے ساتھ لگائی گئی۔ وہاں سے چار پانچ لوگ اتر کر ہمارے جہاز کی طرف آئے، سیڑھی وہاں سے اتارکر اِدھر لائی گئی۔ وہ لوگ ہمارے جہاز میں داخل ہوئے۔ ہماری پائلٹ سے گفت و شنید ہونے لگی جو ہوتی چلی گئی۔ مسافروں سے دامنِ صبر چھوٹا جارہا تھا۔ بعض مسافر عملے کو اور کراچی سے آمدہ لوگوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ وہ بھی غصے میں آگئے۔ دھینگا مشتی ہونے لگی۔ قبل اس کے کہ مار پیٹ تک نوبت پہنچتی، چند سمجھدار مردوں نے ماحول کو ٹھنڈا کیا۔ کراچی سے آمدہ ٹیم نے پروانہ دیا اور اتر کر اپنے جہاز کی طرف چلے گئے۔ سیڑھی پھر وہاں لگائی گئی، وہ پرواز کر گئے۔
چار بج گئے تھے، ہمارے پائلٹ نے اعلان کیا کہ پرواز دس منٹ میں چلے گی اور پندرہ بیس منٹ میں ہم اِن شاءاللہ کراچی لینڈ کریں گے۔ مسافروں کو تو ایسی خوشی ہورہی تھی جیسے عید کے روز، خصوصاً بچوں کو ہوتی ہے۔ خیر، جہاز چلا اور 5 بجے جناح ٹرمینل پر اتر گیا۔
ساری صورتِ حال کا سبب ایئربلیو کی بے توجہی، غفلت اور بد انتظامی تھی۔ 9 بجے جب نواب شاہ میں پروانۂ راہداری دینے والا کوئی نہ تھا تو اُسی وقت کراچی سے انجینئر کو ٹیم سمیت نواب شاہ بھیجنا چاہیے تھا۔ ممکن ہے کچھ مجبوریاں بھی ہوں، مگر یہ ہنگامی صورتِ حال تھی۔ یوں سمجھیے کہ ایک حادثے سے نمٹنا تھا۔ خاقان عباسی صاحب بہت باوسیلہ شخص ہیں، انھیں ایئربلیو سے منافع تو بخوبی ہوتا ہوگا۔ کاش وہ مسافروں کی سہولت کا بھی خیال کرلیا کریں۔
یہ تو تھی لاہور سے کراچی تک کے سفر کی داستان۔ اس تجربے کے بعد، ہم نے ریل سے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب ریلوے سے اہلِ خانہ کے ساتھ واپس لاہور تک کے سفر تک کا احوال سنیے۔
پاک بزنس ٹرین کے12 جولائی کے ٹکٹ ہم نے کئی روز پہلے خرید لیے تھے۔ گھر سے نکل کر کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچے تو گندے پانی کے ایک تالاب سے واسطہ پڑا۔ دو روز سے بارش نہیں ہوئی تھی اور شہر کی سڑکیں خشک تھیں، مگر ریلوے نے اپنا تالاب برقرار رکھا ہوا تھا۔ لاکھوں کی آمدنی اور وسائل رکھنے والے ایک بڑے محکمے کے لیے اس تالاب سے پانی کے نکاس کا انتظام مشکل نہیں، مگر وزیر ریلوے اور افسران کی بے توجہی قابلِ داد ہے۔ بہرحال گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے، پانی اور کیچڑ میں اتر کر، سامان گاڑی سے اتارا۔ قلیوں سے ”بھائو تائو“ کرکے سامان اپنے ڈبے میں رکھوایا، اور اب ہم اس خیال سے اپنے ڈبے میں بیٹھ گئے کہ ریل بروقت چل پڑے گی۔ مگر سوا گھنٹہ لیٹ ہوئی، سوا پانچ بجے چلی۔ جوں کی رفتار سے چلتی ہوئی چھوٹے اسٹیشنوں پر رُکتی رکاتی ریل نے ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد رفتار پکڑی۔ رات سوتے جاگتے گزری کیونکہ کسی کسی وقت اے سی بند ہوجاتا تھا۔ کھڑکی کھل نہیں سکتی تھی۔ واش روم کا کیا ذکر کیا جائے، بہت تنگ تھا اور وہاں کپڑوں کا پاک رہنا آسان نہ تھا۔ ریل صبح بہاول پور اسٹیشن پر دس، پندرہ منٹ کے لیے رکی، ایک ناشتا دو سو تین روپے اور چائے کی پیالی ساٹھ روپے میں۔ (باقی صفحہ 33پر)
ریل لیٹ تھی، لیٹ ہوتی گئی۔ لاہور پہنچنے کا وقت دس بجے تھا۔ پہنچی ڈیڑھ بجے۔ یوں مجموعی طور پر پانچ گھنٹے کی تاخیر۔ باہر نکلے تو پھر کراچی کینٹ یاد آگیا۔ عمارت سے باہر تالاب بارش کے پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ خیر، جوں توں کرکے سامان گاڑی میں رکھوایا اور گھر کی طرف چلے۔ روزنامہ 92 نیوز میں فرح تیمور غلزئی صاحب کا ایک مضمون ”پاکستان ریلوے بہتری کی جانب گامزن“ کے عنوان سے چھپا تھا (غلزئی صاحب کوئی وزیر شزیر یا ریلوے کے اعلیٰ افسر معلوم ہوتے ہیں۔) مجھے مضمون کا آخری جملہ یاد آرہا تھا: ”عوام، آنے والے چند دنوں میں مزید بہتری دیکھیں گے“۔ اگلے روز کے اخبار میں یہ دیکھ کر کہ بزنس ٹرین نو گھنٹے لیٹ ہے۔۔۔ مجھے ”بہتری“ کے معنی سمجھ میں آگئے۔