بروز اتوار 24 جولائی 2022ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں علی رضا پیرزادہ نے وطنِ عزیز کے سیاسی ماحول کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’ملک کی موجودہ صورتِ حال جہاں گمبھیر رخ اختیار کررہی ہے وہیں کچھ افراد کی دلچسپی کا مرکز بھی بن رہی ہے۔ فکر اور تشویش اس بات کی ہے کہ ملک میں سیاسی اور آئینی بحران کی وجہ سے کئی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، جن میں معاشی اور توانائی بحران سب سے بڑھ کر اہم گنوائے جارہے ہیں۔ ان بحرانوں کا سامنا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے جو مہنگائی عوام کے کاندھوں پر مزید بوجھ کی صورت میں آن پڑی ہے اس کی وجہ سے عوام میں مایوسی کی شدت میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، جس سے انسانی دماغ پر دبائو بڑھ جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے، اور ذہنی دبائو میں اضافہ ہوجانے سے لوگ یا تو نشہ آور چیزوں کا استعمال کرنے لگ جاتے ہیں یا پھر اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات بہ طور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ سارے خطے میں سیاسی روایات دنیا کے دیگر خطوں سے مختلف ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے پڑوسی ممالک میں کسی حد تک سیاسی رواداری اور برداشت کی روایات پر عمل ہورہا ہے، لیکن ہمارے ملک کی سیاست پر ساری دنیا کی نظر رہی ہے۔اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوری ملک کے طور پر نمودار ہوا تھا، اور یہ وہ اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹمی طاقت، طاقتور فوج اور بہترین خفیہ ادارے بھی موجود ہیں۔ اتنے طاقت ور ملک کی معیشت کمزور ہونے یا جان بوجھ کر اسے کمزور بنانے میں دلچسپی رکھنے والے کئی ممالک ہوسکتے ہیں، جس طرح سے ایک مال دار اور طاقتور شخص یا خاندان کے دشمن بھی بہت سارے ہوا کرتے ہیں، پھر یہ ایک الگ بات ہے کہ کچھ واضح دشمن ہوتے ہیں جو صاف ظاہر اور دکھائی دیتے ہیں اور کچھ خفیہ۔ اسی طرح سے ہمارے ملک کے بھی کچھ دشمن تو صاف عیاں اور ظاہر و باہر ہیں، اور کچھ چھپے ہوئے ہیں جن کے بارے میں شاید ہمیں صحیح طور سے معلومات بھی نہ ہوں، لیکن اس کے باوجود ملک کے اربابِ اختیار اور اہم اداروں کو اس کے متعلق کامل آگہی حاصل ہوتی ہے۔
یہ مثال سیاست میں بھی دی جاسکتی ہے۔ طاقت ور ہمیشہ مخالفین کی نظروں میں کانٹے کی مانند کھٹکتا ہے۔ اس وقت ملک میں جاری سیاسی اور آئینی بحران ملک کے تمام تر مسائل کی جڑ ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کی سیاست بعض افراد کے لیے دلچسپ بھی ہوگی۔ ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے باری باری اقتدار سے لطف اندوز ہونے والی سیاسی جماعتوں سے ملک کے طاقتور حلقے 2018ء سے کچھ پہلے بیزار ہوتے ہوئے دکھائی دیئے، جس کے نتیجے میں ایک نئی سیاسی جماعت کو فرش سے عرش پر پہنچا دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ جب انسان کو کوئی اچھی پوزیشن ملتی ہے یا اس کا اچھا وقت شروع ہوتا ہے تو وہ بدل نہیں جاتا بلکہ اپنی اصلیت ظاہر کرتا ہے اور اس کا باطن سب پر آشکار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب پی ٹی آئی سربراہ کو ملک کی باگ ڈور ملی اور انہیں کرسیِ اقتدار پر براجمان ہونا نصیب ہوا تو انہوں نے بھی اپنی اصلیت ظاہر کرنی شروع کردی۔ 2018ء سے قبل یعنی الیکشن سے پہلے جو وعدے انہوں نے عوام سے کیے تھے، حصولِ اقتدار کے بعد انہوں نے سب کو یکسر فراموش کردیا اور احتساب کی آڑ میں ذاتی اختلافات کی بنیاد پر اپنے مخالفین کا وہ حشر کیا جس کے بارے میں شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ ملک کی سینئر سیاسی قیادت کو جیل جانا پڑا، اکثر سیاسی رہنمائوں کے خلاف اتنے زیادہ کیس داخل کیے گئے کہ آئے روز میڈیا کے ذریعے سے خبر ملتی تھی کہ آج فلاں رہنما کو نیب کی عدالت میں طلب کیا گیا، اور آج فلاں لیڈر اپنی حاضری پر نیب کی عدالت میں پہنچا۔ اس طرح سے ملک میں ایک طرف کچھ سیاست دانوں نے خود کو صادق اور امین کہلوانا شروع کیا تو دوسری جانب بعض کو چور کے القابات سے نوازا گیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس احتسابی آگ میں ساڑھے تین برس گزر گئے، جس کے بعد طاقتور حلقوں کے منتخب شدہ افراد عوام کی نظروں میں اپنی اہمیت اور شہرت گنواتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے ساتھ انہی کے من پسند افراد نے کسی بے وفائی کا ارتکاب کیا ہو جس کے نتیجے میں پھر حزبِ مخالف کو آگے لاکر عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے انہیں اقتدار سونپ دیا گیا ہو۔ عدم اعتماد کی تحریک سے پیشتر پی پی پی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے یہ بھی کہا تھا کہ بڑی سرکار نے ان سے رابطہ کرکے ملک کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کا فارمولا طلب کیا یا مانگا ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ ملک کی اس ڈوبتی نیّا کو ہم خود پار لگائیں گے، جس کے بعد سیاسی جوڑتوڑ کا سلسلہ شروع ہوا اور ہم سب نے دیکھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کس طرح سے صورتِ حال نے دوسرا رخ اختیار کرلیا۔
اس عرصے میں ملک کی معیشت مزید روبہ زوال ہوتی چلی گئی، مہنگائی دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کو چھونے لگی، ملک میں بے روزگاری کی شرح بھی بڑھنے لگی، عوام اپنی گزر اوقات کے حوالے سے پریشانی میں پڑ گئے، اور حکومت نے نہ صرف عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالا بلکہ ان کے حقوق پر پڑنے والے ڈاکوں کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے ہمسایہ ممالک سے مہاجرین کے لشکروں کو لاکر مختلف علاقوں میں آباد کرنے کی سازش کی، جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ غیر ملکی مہاجروں کو ملک میں آباد کرنے کی وجہ اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا ہے۔ اس ووٹ سے وہ اقتدار کی مسند تک مستقل رسائی چاہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے خواہ وہ عوام کی بھلائی کے لیے ہو یا پھر نقصان کے لیے… اس کا مرکز، محور اور مقصد محض حصولِ اقتدار ہے۔ چند روز پیشتر جب پنجاب اسمبلی کے 20 ارکان کی نشستوں پر الیکشن ہوا تو اس میں پی ٹی آئی نے اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی، اور اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کو بہت کم نشستیں ملیں۔ اس کے باوجود پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لیے ہونے والے انتخاب میں آصف علی زرداری نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ کے طور پر کامیاب کرایا۔ یہ فیصلہ آئینی طور پر 63 اے کے مطابق کیا گیا، لیکن اس پر تفصیلی بحث کرنے کے بجائے ہم اصل موضوع پر آتے ہوئے اس امر کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ اس کے پسِ پردہ مقاصد آخر کیا ہوسکتے ہیں؟ اس وقت موجودہ اتحادی حکومت آصف علی زرداری کے بل بوتے پر قائم ہے، لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ بات بھی ممکن ہے کہ آصف زرداری مسلم لیگ (ن) کے بجائے ’’بڑی سرکار‘‘ کی دی گئی ہدایات کے بموجب کام کررہے ہوں، کیوں کہ اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی سیاست کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے، اور یہاں پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے ووٹ کے ساتھ ساتھ ’’بڑوں‘‘ کی آشیرباد اور ان کی پشت پناہی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ آصف علی زرداری نے ابھی تک جتنے بھی حربے استعمال کیے ہیں اگرچہ وہ بہ ظاہر مسلم لیگ(ن) کے حق میں ہیں، لیکن ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ان سے کوئی بھی فائدہ نہیں مل سکا ہے بلکہ اس کے برعکس اُسے نقصان ضرور پہنچا ہے، اور دوسری جانب عوام کا تاثر پی ٹی آئی کے حق میں مثبت تشکیل پارہا ہے جس کا حالیہ ثبوت پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن کا نتیجہ ہے۔ اس وقت بھی حمزہ شہباز کے پاس ووٹ کی اکثریت نہ ہونے کے باوجود انہیں وزیراعلیٰ بنوایا گیا۔ خواہ اس کے لیے جتنے بھی حربے استعمال کیے گئے، چاہے وہ جائز تھے یا ناجائز… قانونی تھے یا پھر غیر قانونی… آئین کی پاس داری کی گئی یا اس کی خلاف ورزی… اس کا فیصلہ تو بروز پیر عدالتِ عظمیٰ ہی کرے گی، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آصف علی زرداری مخالفین کے لیے بھاری ثابت ہوں گے یا پھر مسلم لیگ (ن) کے لیے۔ کیوں کہ سیاست میں بہ ظاہر جو دکھائی دیتا ہے پردے کے پیچھے اس کے برعکس ہی ہوتا ہے۔‘‘
(نوٹ: کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔)