ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے پنجاب کے سیاسی بحران کا فیصلہ کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ انتخاب کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے مسلم لیگ(ق) کے 10 ووٹ مسترد کرنے کی رولنگ رد کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار چودھری پرویزالٰہی کو نیا وزیراعلیٰ قرار دے دیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنادیا۔ سپریم کورٹ کا 11 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ چیف جسٹس نے سنایا۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پرویزالٰہی کی درخواست منظور کی جاتی ہے اور ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے اور آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح درست نہیں کی گئی، اس لیے یہ برقرار نہیں رہ سکتی۔
ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے روبرو آئینی مقدمہ پیش کیا گیا ہو، درجنوں ایسے مقدمات ہیں جو آئینی امورکی وضاحت کے لیے عدلیہ کے روبرو پیش کیے گئے ہیں، مولوی تمیزالدین کیس ہماری سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس کیس میں جسٹس منیر کا فیصلہ آج بھی ہماری سیاسی تاریخ کے گرد آکاس بیل کی طرح لپٹا ہوا ہے۔ ہماری عدلیہ آئین کی محافظ ہے، مگر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کے نظام کو قانونی اور آئینی تحفظ دیا گیا، جنرل پرویزمشرف کو فوجی وردی میں صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی۔ ہماری عدلیہ میں جسٹس کارنیلیس جیسے جج بھی گزرے ہیں جنہیں مالِ غنیمت اور کشور کشائی سے کوئی غرض نہیں تھی، جو ریٹائرمنٹ کے بعد ہوٹل کے کمرے میں رہے، ان کے فیصلوں میں انسانی حقوق کی جھلک ملتی ہے۔ ہمیں آج اپنے سیاسی معاشرے میں جسٹس منیر کے فیصلے تو ملتے ہیں تاہم جسٹس کارنیلیس کے فیصلے کم کم دکھائی دے رہے ہیں۔ ان دنوں بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63/A سے متعلق ایک مقدمہ پیش ہوا، سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں فیصلے کا اختیار پارلیمانی پارٹی کے پاس ہے یا سیاسی جماعت کے سربراہ کے پاس؟ اب عدلیہ کو جائزہ لینا ہے کہ آئین کی نظر میں سربراہِ جماعت یا پارلیمانی پارٹی میں سے فوقیت کس کی ہے۔ بظا ہر تو یہ مقدمہ بہت سادہ ہے، تاہم پیچیدہ اس قدر کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے اس مقدمے کی فل کورٹ میں سماعت کی استدعا کی تھی جو مسترد کردی گئی۔ انتظامی طور پر چیف جسٹس کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی مقدمے کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیں، تاہم حکمران اتحاد نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ مسلم لیگ(ن) کو دال میں کچھ کالا نظر آرہا تھا۔ اب وہ ایک بار پھر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ اختیار کرے گی، نوازشریف کی ہدایت پر پارٹی اب پہلے سے بھی زیادہ سخت پالیسی اپنائے گی، اس بات کا امکان ہے کہ نوازشریف عوام کے ساتھ اپنا رابطہ دوبارہ شروع کریں۔ وہ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت نہیں لینا چاہتے تھے، بہرحال انہیں یہ آپشن استعمال کرنا پڑا، اب مسلم لیگ (ن) کو اپنے اس فیصلے کی قیمت چکانا پڑے گی اور انتخابات میں اسے ایک جہاں کا سامنا ہوگا جس میںاس کے لیے کہیں فائدہ نظر نہیں آرہا، اس لیے مسلم لیگ(ن) کی قیادت جلد انتخابات نہیں چاہتی، وہ نوازشریف کی واپسی اور موزوں حالات کی تلاش میں ہے۔ مسلم لیگ(ن) میں یہ بات سنجیدگی سے سوچی جارہی ہے کہ کچھ نہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ وہ ایک سیاسی حکمت عملی پر بھی غور کررہی ہے کہ آئندہ کسی کے ساتھ تعاون نہ کرے، اس لیے مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نوازنے ’’فکسڈ بینچ‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے اور کہاکہ ’’ایمپائرز‘‘ کی طرف سے عمران خان کو کچھ حمایت مل رہی ہے، اگر وہ حکومت میں ہوتیں تو فوراً حکومت چھوڑ دیتیں۔
سینئر قانون دان اور تحریک انصاف کے رہنما حامد خان نے کہا ہے کہ قانونی طورپرسپریم کورٹ کے سینئر ججوں کا بینچ بنتا ہے، سینئر جج جسٹس فائز عیسیٰ کو بینچ سے باہر رکھنا غلط ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ ججوں کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھنے چاہئیں، جوڈیشل کونسل کا اجلاس جلد مؤخر کر دیا جانا چاہیے، سپریم کورٹ میں ہر ہائی کورٹ اور ہر صوبے کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس پاکستان سے اپیل ہے کہ انصاف کریں، آپ کو انصاف کے لیے بٹھایا گیا ہے، ججوں سے اختلاف اپنی جگہ مگر سپریم کورٹ کی عزت میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔
پنجاب میں تبدیلی کے بعد پی ٹی آئی کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ سابق وزیراعظم عمران خان اپنی وفاقی حکومت ختم ہونے کے بعد سے فوری الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں،تاہم موجودہ حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے گی۔ پی ٹی آئی کے پاس جلد انتخابات منعقد کرانے کا ایک طریقہ اپنی صوبائی حکومتیں تحلیل کرنا بھی ہے، لیکن کیا وہ اس آپشن پر غور کررہی ہے؟ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ تین صوبوں پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں ہماری ہیں تو ہم پنجاب میں اسمبلی کیوں تحلیل کریں؟ صوبائی اسمبلیاں وفاقی حکومت برقرار رہنے تک تحلیل نہیں کی جائیں گی۔ پنجاب میں حکومت تبدیل ہونے سے سیاسی اختلافات بڑھیں گے لیکن اسمبلیاں فوری تحلیل ہوتی نظر نہیں آ رہیں بلکہ اب پی ٹی آئی چاہے گی کہ دو صوبوں میں حکومت بنی ہے تو پوری مدت تک جاری رکھی جائے، البتہ سیاسی درجہ حرارت بلند رکھا جائے گا تاکہ وفاق پر دباؤ بڑھے۔ تاہم اگلے سال تک الیکشن کا جانا مشکل نظر آتا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ پنجاب میں حکومت تبدیل ہونے سے مسلم لیگ(ن) کو سیاسی فائدہ ہوگا، عثمان بزدار کچھ نہ کرسکے، اب چودھری پرویز الٰہی کیا ڈیلیور کریں گے! لہٰذا ان کی نااہلی سے نون لیگ کو سیاسی فائدہ ہوگا، پنجاب میں حکومت تبدیل ہونے سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے کیونکہ چودھری پرویز الٰہی کے تحریک انصاف کے ساتھ بہت اچھے تعلقات نہیں تھے،پنجاب میں جس طرح تحریک انصاف حکومت چلانا چاہتی ہے وہ پرویزالٰہی کا مزاج نہیں۔ پی ٹی آئی صوبے میں جو سیاسی کارروائیاں چاہتی ہے شاید وہ نہ کرسکیں۔ ہو سکتا ہے پرویز الٰہی وفاقی حکومت کے ساتھ بہتر انداز میں چلنا چاہیں اور پی ٹی آئی انہیں سخت رویہ اپنانے پر مجبور کرے جس کے نتیجے میں اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں۔
مختصر فیصلے میں مزید کہا گیا کہ چیف سیکریٹری پنجاب پرویزالٰہی کا بطور وزیراعلیٰ نوٹیفکیشن جاری کریں جبکہ تمام صوبائی مشیران اور معاونینِ خصوصی کو عہدے سے فی الفور ہٹایا جاتا ہے۔ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمٰن نے لاہور میں حلف لینے سے انکار کیا تو چودھری پرویزالٰہی منگل کی رات ایک خصوصی طیارے میں اسلام آباد پہنچے۔ طیارے میں ان کے ہمراہ چودھری وجاہت حسین، مونس الٰہی، یاسمین راشد اور زین قریشی بھی تھے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ایوانِ صدر میں چودھری پرویزالٰہی سے وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف لیا۔
شیخ رشید احمد کے بقول اب وفاق میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔ ردعمل میں کہا گیا کہ وزارتِ داخلہ بھی اب متحرک رہے گی اور اتحادی حکومت پنجاب میں اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ کرے گی، فی الحال تو اس نے ’’تبدیلی‘‘ برداشت کرنے کا فیصلہ کیا تاہم صوبے میں وفاق کے لیے گرم ہوا چلی تو وفاق گورنر راج کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔ یہ سوچ اس لیے بنی کہ حال ہی میں بیان بازی ہوئی تھی کہ پنجاب وفاق کی کچھ حکومتی شخصیات پر صوبے میں داخل ہونے پر پابندی لگا سکتا ہے۔ بظاہر تو یہ سیاسی بیان بازی تھی مگر عدم برداشت کا ماحول کسی وقت کوئی بھی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) یہ سمجھتی ہے کہ حالیہ فیصلے کے بعد صوبہ پنجاب میں سیاسی صورت حال تنائو کا شکار ہوسکتی ہے، اب چونکہ پنجاب اور وفاق میں ایک دوسرے پر چڑھائی کرنے کا بھی ماحول بن سکتا ہے، جس کا امکان بہرحال کم ہے لیکن کسی بھی جانب سے پاگل پن کا کوئی علاج تو کسی کے پاس نہیں ہے، لہٰذا خرابی کی کسی نہ کسی صورت کا خطرہ موجود ہے۔ اگر پنجاب سے اسلام آباد کی جانب چڑھائی ہوئی تو عین ممکن ہے کہ پرویزالٰہی خود بھی تحریک انصاف کی مزاحمت کریں، اس لیے کچھ ہفتے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو والی صورت حال ہوگی۔ اگر اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کی گئی تو معاملہ اِس بار 25 مئی سے کہیں آگے کا ہوگا۔ وفاق کے پاس امن و امان کے لیے جو بھی فورس دستیاب ہے اسے استعمال میں لایا جائے گا۔
مسلم لیگ(ن) کے لیے عدلیہ کے اس فیصلے کے بعد ایک ہی آپشن باقی بچتا ہے کہ وہ اپنی تنظیم سازی بہتر کرے، اپنے کارکن کو تحفظ فراہم کرے اور نوازشریف کی وطن واپسی کے لیے سنجیدہ ہوجائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مسلم لیگ(ن) اگلے عام انتخابات میں بری طرح پٹ جائے گی۔
تازہ منظرنامہ یہ ہے کہ دگرگوں صورت حال کے باعث ملکی معیشت ڈوبتی جارہی ہے اور روپیہ اسٹیٹ بینک کی راہ تکتے تکتے تیزی سے بے جان ہوتا جارہا ہے، ملک کا سیاسی عدم استحکام ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس کے ذمہ دار ہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ عمران خان ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ ہیں، لیکن ’’غیر جانب دار‘‘ کہتے ہیں کہ ہم کسی کے طرف دار نہیں ہیں۔ اب ان حالات میں اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک ہی جانب رخ کیے ہوئے ہیں، لیکن بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور معیشت کو ڈوبتا دیکھتے ہوئے ان کے خاموش رہنے کا آپشن بظاہر ختم ہونے جارہا ہے، اور سیاسی موسم گرج چمک کی اطلاع دے رہا ہے۔ سیاسی بحران کا واحد حل نئے انتخابات ہی ہیں لیکن اس سیاسی موسم میں اس کے امکانات بہت کم ہیں، اور وجہ ملک کے معاشی حالات ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کا نسخہ تلاش کیا جارہا ہے۔ پنجاب حکومت کی گیند حمزہ شہباز سے پرویزالٰہی کے پاس چلے جانا بھی اسی کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے۔ مشورہ دینے والوں نے پہلے فیصلہ دیا ہے اور اس کے بعد مشورہ بھی دے دیا ہے کہ تحریک انصاف اور قاف لیگ کی وزارتِ اعلیٰ کے بارے میں عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے اور وفاق معیشت کی بحالی پر توجہ دے۔ تازہ اطلاع ہے کہ شہبازشریف کی مصالحتی کوشش کا ذائقہ چکھ لینے کے بعد نوازشریف نے ’کم بیک‘ کا فیصلہ کیا ہے۔اس حکمت عملی سے دیوالیہ پن کے قریب جاتے ملک میں کیا سیاسی استحکام آئے گا؟ کیا جنہیں سدھارنے کی کوشش کی جا رہی ہیں وہ سدھر جائیں گے؟ اس کا امکان بہت کم ہے۔ اگر اس وقت کوئی اتفاقِ رائے دکھائی دے رہا ہے حکومت اور اپوزیشن میں، تو وہ یہ ہے کہ دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے پر متفق ہیں اور دونوں ’مزاحمت‘ کے بیانیے میں اپنی بقا دیکھ رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں صورتوں میں اپنی مقبولیت قائم رکھنا مشکل ہے، لہٰذا ایک دوسرے کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ بظاہر آسان ہدف ہے۔ کچھ سوالات کا تعلق اہلِ سیاست کے رویوں سے ہے کہ وہ پہلے اپنے سیاسی معاملات پارلیمان میں طے کرنے کے بجائے عدالت میں لے آتے ہیں اور پھر عدالت کی کردار کشی شروع کر کے اسے دباؤ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم کچھ سوالات کا تعلق خود نظام ِانصاف سے بھی ہے۔