پاکستان اس وقت ہمارے قائدین کرام کی عاقبت نا اندیشیوں کے سبب بحران در بحران کی کیفیت سے دو چار ہے ملک آئینی، سیاسی، سماجی اور سب سے بڑھ کر معاشی و اقتصادی بحران کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ عوام کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں کا سامنا ہے قوم کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے …غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں مگر ہمارے سیاسی رہنمائوں کو باہم سرپھٹول، الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں سے فرصت نہیں، ایک دوسرے کی کردار کشی کی کاوشیں تمام حدوں کو پھلانگ چکی ہیں، مذموم سازشوں میں مہارت کے جوہر دکھائے جا رہے ہیں اور اس پر داد و تحسین کے ڈونگرے بھی برسائے جا رہے ہیں…!
آئین و قانون کے تحت وجود میں لائے گئے اداروں کا وقار، عزت اور احترام خاک میں ملا کر رکھ دیا گیا ہے، کوئی بھی ادارہ الزامات کی دست برد سے محفو ظ نہیں۔ سول و ملٹری بیو رو کریسی، الیکشن کمیشن، احتساب کے ادارے، حتیٰ کہ خود مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) تک کے ادارے اور ان کے ارکان و سربراہان کھلم کھلا اعتراضات و الزامات کی زد میں ہیں، پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حالیہ تنازعہ میں عدلیہ جیسے مقدس ادارے کو جس طرح بے توقیر کیا گیا اور جس طرح عدالت عظمیٰ، جیسی فراہمی عدل و انصاف کی آخری امید کی عزت و وقار کی بھی دھجیاں اڑائی گئیں، اس میں اندرونی تقسیم کا تاثر عام کیا گیا اور اسے انتشار و خلفشار کا شکار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی، بقول الطاف حسین حالیؔ مرحوم:
اک دسترس سے تیری حالیؔ بچا ہوا تھا
اس کے بھی دل کو تونے چرکا لگا کے چھوڑا
اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی ادارہ ایسا نہیں بچا جس پر قوم اعتماد کر سکے اور جس سے مسیحائی کی توقع لگائی جا سکے، بد اعتمادی کی فضا کا عالم یہ ہے کہ صدر مملکت جو ریاست کی وحدت و یکجہتی اور سالمیت کی علامت تصور کئے جاتے ہیں انہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران متحارب سیاسی عناصر کو باہم مذاکرات کے لیے بٹھانے اور سیاسی تنازعات کا حل گفت و شنید سے تلاش کرنے کی دعوت دینے سے معذرت کر لی ہے… اس گھمبیر صورت حال اور سنگین بحرانی کیفیت میں کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ انتہائی بلندیوں کو چھوتی ہوئی یہ سیاسی کشیدگی ملک و قوم کو کس تباہی سے دو چار کرے گی: ؔ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
مگر اب تو معاملہ پردہ اٹھنے اور اٹھانے سے خاصا آگے نکل چکا اکثر امور میں سب پردے چاک ہو چکے، کسی کو یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی کہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے، اب سب پردہ نشینوں کے نقاب اتر چکے بلکہ انہوں نے خود ہی انہیں نوچ پھینکا ہے، شیطانی ناچ برسر محفل جاری ہے، ناچنے اور نچانے والے تاہم اس فہم و ادراک سے عاری ہیں کہ ان کی یہ حرکات و سکنات ملک و قوم پر کس قدر بھاری ہیں، کتنے سنگین نتائج ان کے برآمد ہو سکتے ہیں اور کیا وطن عزیز ان کو برداشت کرنے کی سکت بھی رکھتا ہے؟؟؟
صورت حال کی یہ سنگینی اگرچہ بہت زیادہ مایوس کن ہے اور عوام میں حد درجہ کی بے یقینی پائی جا رہی ہے مگر اس سب کے باوجود ہمیں خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب ہدایت میں مایوسی سے دور رہنے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور امید کا دامن تھامے رکھنے کا حکم دیا ہے اس لیے حالات کی تمام تر خرابی کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ وطن عزیز تمام بحرانوں سے ان شاء اللہ سرخرو ہو کر بلکہ کندن بن کر نکلے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ قوم رحمۃ اللعالمین کا دامن تھام کر اسوۂ حسنہ کی روشنی میں آگے بڑھے اور اپنے لیے ایسی قیادت تلاش کرے جو اپنی ذات اور جماعت، خاندانی، لسانی، نسلی و علاقائی گروہ بندیوں سے زیادہ ملک و قوم سے مخلص ہو اور خوف الٰہی سے سرشار ہو کر مسائل کے حل میں سنجیدہ ہو۔ اطمینان بخش حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا معاشرہ آج بھی ایسی مخلص،بے لوث، خدمت گزار، سنجیدہ و با کردار قیادت سے تہی دامن نہیں، جس پر ہمیں جہاں اپنے رب کے حضور سجدۂ شکر بجا لانا چاہئے وہیں اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے جب اور جہاں موقع ملے، رائے دہی یا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے معمولی معمولی ذاتی و گروہی مفادات کی خاطر اجتماعی ملی مفادات کی قربانی سے لازماً گریز کریں، حق رائے دہی کو ایک اہم ذمہ داری سمجھ کر اپنے ضمیر اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے خالق و مالک کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ استعمال کریں اور کسی ایسے شخص کے حق میں رائے یا ووٹ کسی صورت نہ دیں خواہ وہ ہمارا قریب ترین عزیز، رشتہ دار یا سیاسی ہم خیال ہی کیوں نہ ہو، جس کا ماضی بے داغ نہ ہو اور ذاتی کردار خود غرضی، مفاد پرستی اور وعدہ خلافی جیسی برائیوں سے آلودہ ہو…!!!
کشیدگی کی ایسی فضا میں جب کہ صدر مملکت جیسی شخصیت نے سیاسی فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں کوئی موثر کردار ادا کرنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔ یہ امر یقیناً خوش آئندہ اور اطمینان کا پہلو لیے ہوئے ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سابق سینیٹر محترم سراج الحق نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو وسیع تر مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دی ہے اور ایسے مذاکرات کی میزبانی قبول کرنے کی پیشکش بھی کی ہے، انہوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ سیاسی جھگڑے عدالتوں میں طے نہیں ہوں گے آخر کار انہیں سیاستدانوں ہی کو حل کرنا ہو گا۔ اس لیے سیاسی جماعتیں اقتدار کی جنگ میں اس حد تک نہ جائیں کہ خدانخواستہ ملک کا بڑا نقصان ہو جائے۔ بحران کے حل کے لیے مجلس شوریٰ میں موجود تمام جماعتیں گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز کریں، سب متفق ہوں تو جماعت اسلامی ملک و قوم کی خاطر میزبانی کے لیے بھی تیار ہے… جماعت اسلامی کے امیر کی یہ تجویز نہایت صائب ہے اقتدار میں موجود اور اقتدار سے باہر اس کے حصول کے لیے کوشاں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے اور ان کی جانب سے کی گئی پیشکش کو غنیمت جانتے ہوئے اسے قبول کر لینا چاہئے اور خلوص نیت سے بحران کے حل کے لیے مذاکرات کا ڈول ڈالنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)