بلاشہ یہ کتاب علم و معرفت کا ایک شاندار اور بیش بہا خزینہ ہے۔ ’’مفتاح القلوب‘‘ دراصل اسلامی دنیا کے عظیم مجتہد ابوحامد محمد، بن محمد بن محمد بن احمد محمود الطوسی الشافعیؒ المعروف ’’امام غزالیٰ‘‘ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’مکاشفتہ القلوب‘‘ کا رواں دواں، عام فہم اور بامحاورہ سندھی ترجمہ ہے۔ یہ کتاب اپنے بے بہا علمی لوازمہ کی بدولت ایک طرح سے شہرتِ دوام کی حامل بن چکی ہے۔
امام غزالیؒ (1055ء تا 1111ء) طوس کے ایک گائوں طاہران میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پچاس برس کی مختصر عمر پائی، لیکن اسلام کی تجدید کا جو عظیم کام سرانجام دیا اس کی بنا پر وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ سب سے پہلے انہوں نے یونانی فلسفے کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کیا اور اس پر ٹھوس علمی تنقید کرکے مسلمانوں کے اذہان سے اس کی قائم کردہ مرعوبیت کو نکال باہر کیا۔
دوسرا یہ کہ عقلی علوم سے نابلد مسلمان جو فلسفیوں اور عقلیت پسندوں کی ضد میں آکر وہ غلطیاں کرنے میں لگے ہوئے تھے جو آگے چل کر یورپ کے پادریوں سے بھی سرزد ہوئیں، جنہوں نے تجربات اور مشاہدات کو بلاوجہ ہی دین کے لیے خطرہ گردان کر ان کی سخت مخالفت کی، جس کے نتیجے میں لوگوں میں بے اعتقادی نے جنم لیا۔ امام غزالیؒ نے بڑی صراحت کے ساتھ مدلل انداز میں بتایا کہ آپ کے دینی عقائد نت نئے تجربات اور ایجادات کے ہونے سے متاثر نہیں ہوں گے۔ انہوں نے اسلامی عقائد اور بنیادوں کی علمی تعبیر پیش کی اور اسلامی احکامات، عبادات اور مناسک کی مصلحتیں اور فوائد اس قدر عمدگی اور واضح دلائل کے ساتھ بیان کیے کہ انہیں عام عقل اور فہم نے بلاتردد قبول کرلیا۔ انہوں نے اپنی تحاریر کے ذریعے قرآن پاک اور سنتِ نبویؐ کی جانب لوگوں کے اذہان کو راغب اور متوجہ کرنے کا یادگار کارنامہ بھی سر انجام دیا۔
امام غزالیؒ کی اس کتاب ’’مکاشفتہ القلوب‘‘ کا سندھی زبان میں ترجمہ سندھ کے ایک اسکالر، بزرگ شخصیت اور ہمہ وقت انسانوں کی فوز و فلاح کے لیے تیار اور سرگرم حاجی سکندر علی خان مہیسر نے بڑی خوب صورتی کے ساتھ کیا اور کتاب کا نام ’’مفتاح القلوب‘‘ رکھا۔
اس کتاب کا موضوع آخرت اور اسلامی اخلاق ہے۔ کتاب کُل 111 ابواب پر مشتمل ہے۔ آغاز میں ’’حرفے چند‘‘ از عبدالرشید مہیسر (فرزندِ ارجمند مترجم مرحوم و مغفور) نے لکھے ہیں۔ علاوہ ازیں غلام یاسین مہیسر (فرزندِ ارجمند مترجم مرحوم)، پروفیسر سید گل محمد شاہ بخاری، مفتی عبدالقیوم آرائیں حقانی اور دیگر حضرات کی کتاب اور مترجم کے بارے میں قیمتی آرا اور تاثرات وغیرہ بھی شامل ہیں۔
یہ کتاب بڑی عمدگی اور نفاست کے ساتھ عمدہ سفید کاغذ پر مجلّد طبع کی گئی ہے، جس پر مہران اکیڈمی شکارپور کے منتظم پروفیسر قمر میمن ان شااللہ عنداللہ ماجور ہوں گے۔ کتاب بیش بہا مواد پر مبنی ہے اور قیمت بڑی مناسب رکھی گئی ہے۔