مصنوعی ذہانت کی حکمرانی:اف یہ تیس سیکنڈ کا انہماک

سوشل میڈیا نے ہم سب کو غلام بنالیا ہے۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا بہت کچھ دیکھتے ہیں جو یا تو ہمارے مطلب کا نہیں ہوتا، یا پھر ہمارے مطلب کا ہونے کی صورت میں بھی ادھورا ہوتا ہے۔ ’’میں دنیا میں چاروں طرف گھوما پھرا۔ محبت کی تلاش میں کہاں کہاں گیا، مگر آخر میں ثابت ہوا کہ دنیا گول ہے کیونکہ…‘‘ بات یہیں تک ہے۔ ایک صاحب کو یہ بُری لَت پڑی ہوئی ہے کہ وہ ہر بات کو دو ٹکڑوں میں بانٹ کر بھیجتے ہیں۔ وہ جب بھی کسی کا قول اپنے اسٹیٹس کے طور پر لگاتے ہیں تو بات ادھوری ہوتی ہے، کیونکہ پوری بات سننے کے لیے اگلے اسٹیٹس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ جب اُن صاحب سے کہا گیا کہ بھائی، ایک ہی بار پوری غزل، نظم یا اقتباس کیوں نہیں بھیجتے؟ تو اُن کا جواب تھا ’’لوگوں میں اب تیس سیکنڈ سے زیادہ طویل اسٹیٹس دیکھنے کا یارا نہیں رہا۔ میں انہیں مطالعے پر مائل کرنے کی کوشش میں ایسا کرتا ہوں۔‘‘
یہ بات بہت عجیب لگتی ہے مگر حقیقت اِس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ آج ہماری توجہ، ارتکازِ نظر یا انہماک کا دورانیہ تیس سیکنڈ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم بہت تیزی سے بہت کچھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی سوشل ویب سائٹ پر کم دورانیے کی وڈیوز زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ لوگوں میں صبر اور تحمل کا مادّہ زیادہ نہیں رہا۔ ’’بے فضول‘‘ کی عجلت پسندی اتنی بڑھ گئی ہے کہ تیزی سے دیکھنے کی دُھن میں بہت کچھ آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے مگر ہم اُس پر توجہ دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہمارے ذہن بہت سی پیچیدگیوں کا گھر بن چکے ہیں۔ بہت کچھ غیر محسوس طور پر ہورہا ہے۔

2016ء میں امریکہ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی نے ایک تحقیق کے نتیجے میں بتایا تھا کہ انٹرنیٹ سے مستفید ہونے والوں کی اکثریت اب کسی بھی مواد کو تیس سیکنڈ سے زیادہ نہیں دیکھ پاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ وقت کے معاملے میں بہت حساس اور خبردار ہوگئے ہیں، مگر جن لوگوں کو بظاہر کسی بھی بات کی جلدی نہیں ہوتی وہ بھی انٹرنیٹ پر کوئی مواد زیادہ سے زیادہ تیس سیکنڈ دیکھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ نیا جاننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں اُن میں ڈوپامائن ہارمونز کا توازن بگڑ گیا ہے۔ اِن ہارمونز کا تعلق انبساط و مسرت سے ہے۔ جب ان ہارمونز کا توازن بگڑتا ہے تو ہم دیرپا مسرت سے محروم ہوتے جاتے ہیں۔ ہم ایک ایپ سے دوسری ایپ کی طرف اور ایک پوسٹ سے دوسری پوسٹ کی طرف چھلانگ لگاتے رہنے سے مسرت کو عارضی بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یوں سیل فون بہت زیادہ استعمال کرنے والوں کے انہماک کا گراف تیزی سے گرتا رہتا ہے۔ سیل فون بہت زیادہ استعمال کرنے والے کسی بھی معاملے پر بھرپور توجہ دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جس طور ہم ہفتے میں ایک دن چھٹی کرتے ہیں بالکل اُسی طور ہفتے میں ایک دن آف لائن رہنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ ہفتے میں ایک دن ڈیجیٹل آلات سے دوری دل و دماغ کو صاف ستھرا رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

سوشل میڈیا پر لوگ بالعموم اچھے لمحات کے بارے میں اپنے تاثرات یا پھر یادوں میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ مثلاً کہیں گھوم پھر کر آئے ہوں تو اُس کے بارے میں بتایا جاتا ہے، یا نئی نوکری ملی ہو تو اُس سے دوستوں اور رشتے داروں کو مطلع کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی تمام خبروں یا پوسٹس کو پڑھ کر ہر شخص اپنا موازنہ دوسروں سے کرنے لگتا ہے۔ یہ سماجی موازنہ بسا اوقات ذہن کو الجھنوں سے دوچار کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف پیٹرز برگ کی تحقیق کے مطابق سماجی موازنے کے نتیجے میں ڈپریشن کے کیسز میں 9 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ کا استعمال جوں جوں بڑھتا جارہا ہے، ڈپریشن کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ صرف سگریٹ پینا ہی لَت نہیں، انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال بھی لَت ہے اور زیادہ خطرناک لَت ہے، کیونکہ اِس کے نتیجے میں معاشی اور معاشرتی دونوں ہی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ایک اور بُری لَت ہے شارٹ وڈیو۔ مختصر دورانیے کی وڈیوز انسان میں انہماک کی صلاحیت پر بُری طرح اثرانداز ہورہی ہیں۔ چھوٹی وڈیوز بہت کم وقت میں اچھا خاصا مواد دیتی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اِن وڈیوز میں دلچسپی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے کیونکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دیکھنے کا موقع مل رہا ہوتا ہے۔ شارٹ وڈیوز بچوں کے ذہن پر بہت بُرا اثر مرتب کررہی ہیں۔ شارٹ وڈیوز میں غیر معمولی دلچسپی کے باعث سیل فون میں منہمک رہنے سے ہمارے سماجی تعلقات پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں، اشتعال کا گراف بلند رہنے لگتا ہے۔

ہم میں تحمل کا گراف نیچے لانے میں سب سے بڑا کردار شارٹ وڈیو ایپ ٹِک ٹاک نے ادا کیا ہے۔ چند ممالک نے ٹِک ٹاک پر پابندی لگائی ہے مگر اس کے باوجود اس ایپ کے منفی اثرات کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیابی نہیں ملی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی چند دیگر ایپس کے ہاتھوں نئی نسل آج بھی اپنا وقت بہت بڑے پیمانے پر ضایع کررہی ہے۔ ٹِک ٹاک چین کی ایپ ہے۔ اس ایپ پر جو کچھ بھی بنایا گیا ہے یعنی جتنی بھی وڈیوز بناکر اَپ لوڈ کی گئی ہیں وہ چین کی ملکیت ہیں۔ چین نے اس مواد کی مدد سے دنیا کی سب سے وقیع فیس ریکاگنیشن ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔ ٹِک ٹاک نے بہت سے ممالک کو اتنا بدل ڈالا ہے کہ اب پُرانی حالت کی بحالی کسی بھی طور ممکن نہیں۔ بھارت کی مثال بہت نمایاں ہے۔ حکومت بھی اعتراف کرچکی ہے کہ ٹِک ٹاک کے آنے کے بعد سے بھارت میں سماجی رویوں کے حوالے سے بہت سی ایسی منفی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن سے کسی بھی طور نمٹا نہیں جاسکا۔

آج کی نئی نسل کو جو کچھ بھی چاہیے، فی الفور چاہیے۔ صبر اُس سے ہوتا نہیں۔ کتاب پڑھنے کی توفیق نہیں۔ کوئی بھی کتاب پڑھنے پر اُس کے خلاصے کی آڈیو فائل سُننے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ ایسے میں شارٹ وڈیوز بہت حد تک آسانی پیدا کرتی ہیں۔ شارٹ وڈیوز کے ذریعے نئی نسل بہت سا مواد تیزی سے دیکھ لیتی ہے۔ شارٹ وڈیو ایپس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ سیاسی جماعتیں بھی اِن کا فائدہ اٹھا رہی ہیں اور نظریاتی تنظیمیں اور ادارے بھی اِن کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔

اب دنیا میں امریکہ کی حکومت ہے نہ چین کی۔ اب تو ٹیکنالوجی کا راج ہے۔ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے دور میں سکوت اور جمود کی گنجائش برائے نام بھی نہیں۔ جو کچھ تیزی سے بدل رہا ہے اُس سے ہم آہنگ رہتے ہوئے اپنے آپ کو بدلے بغیر چارہ نہیں۔ ساتھ ساتھ چلنا ہی پڑے گا۔ رُکے، تو گئے کام سے۔ کورونا کی وبا نے سیل فون اور انٹرنیٹ کو ہماری زندگی میں کلیدی مقام دے دیا ہے۔ اب کوئی بھی سیل فون محض بات چیت یا رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ دفتر اور تعلیمی ادارہ بن چکا ہے۔ ویبیکس، زُوم اور گوگل میٹ اب عام آدمی کی زندگی کا بنیادی حصہ بن چکے ہیں۔ اِن ایپس نے ہم میں تحمل کا مادّہ بھی خاصا کم کردیا ہے۔ مختلف حوالوں سے بے صبری اتنی بڑھ گئی ہے کہ کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ زندگی کو متوازن کیسے رکھیں۔

آج ہم دن رات صرف اس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ شارٹ وڈیوز دیکھ لیں، زیادہ سے زیادہ اشتہارات دیکھ لیں، زیادہ سے زیادہ پوسٹیں پڑھ لیں۔ بس، یہی زندگی ہے؟ کیا اب ہمارا یہی کام رہ گیا ہے کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ نیا جاننے کے لیے کوشاں رہیں؟ دن میں کئی بار ہم سوشل ایپس کھول کر نوٹیفکیشنز حذف کرتے ہیں، اور اگر کسی نوٹیفکیشن میں کوئی پُرمزاح بات ہو تو اُسے پڑھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا اب محض تیس سیکنڈ کا نام نہاد انہماک ہمارا مقدر ہے؟