ماحولیاتی تباہی:حکومتوں کی پالیسیاں اہم کیوں؟(دوسرا حصہ)

اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں پالیسی سازی کا طریقہ بدلنا ہوگا۔ یہ مدنظر رکھنا ہوگا کہ گرین ہاؤس گیسوں کوصفر پر لے جانا ہے۔ دنیا بھر میں قومی رہنماؤں کو ایک ایسا وژن تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ آیا عالمی معیشت کس طرح صفر کاربن پرچل سکتی ہے۔ یہ وژن ایسا ہو کہ افراد اورکاروبارکی اُن خطوط پر رہنمائی کرسکے کہ کاربن کے بغیر حالات معمول پرآگے بڑھ سکیں۔ سرکاری حکام وہ اصول وقواعد لکھ سکیں جن کے تحت پلانٹس، گاڑیوں اورکارخانوں میں کاربن اخراج کی شرح کا تعین کیا جاسکے۔ ایسے قواعد اختیار کیے جاسکیں جومالیاتی منڈیوں کی صورت گری کرسکیں، اور ماحولیاتی تبدیلی سے ممکنہ خطرات کی وضاحت کرسکیں۔ یہ سائنسی تحقیقات میں مرکزی سرمایہ کار کی صورت میں ہوسکتے ہیں، جیسا کہ آج ہیں، جو منڈیوں تک نئی پیداوارکی رسائی کے لیے قواعد لکھ سکیں، ترتیب دے سکیں۔
ایسے اکثر فیصلے قومی سطح پرہوں گے، مگر ریاستوں اور مقامی حکومتوں کا کردار بھی اس ضمن میں بہت اہم ہے۔ بہت سے ملکوں میں باقاعدگی سے بجلی پیداوار کی منڈیاں قائم کی جارہی ہیں، اور عمارتوں میں توانائی کے استعمال کے نئے اصول بنائے جارہے ہیں۔ وہ بڑے پیمانے پر ڈیم تعمیر کررہے ہیں، ٹرانسپورٹیشن، پُل اورسڑکیں بنارہے ہیں جو اس نئی پیش رفت میں معاون ہوں۔ وہ پولیس کی گاڑیاں اور انجن خرید رہے ہیں۔ دیگرساری اشیا کے استعمال میں یہ مدنظر رکھا جارہا ہے کہ ’’گرین متبادلات‘‘ زیادہ سے زیادہ معمول کی زندگی کا حصہ بنائے جاسکیں۔
یہ بات شاید تلخ محسوس ہو کہ میں زیادہ سے زیادہ حکومتی مداخلتوں پر زور دے رہا ہوں۔ جب میں مائیکروسوفٹ قائم کررہا تھا تو خود کوپالیسی بنانے والوں سے ممکنہ طور پر فاصلے پر رکھنا چاہا۔ اُس وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ پالیسی بنانے والے ہمیں ہمارا بہترین کام کرنے سے روکتے ہیں۔ جب امریکی حکومت نے مائیکروسوفٹ کے خلاف عدم اعتماد کی قانونی درخواست دائرکی تو مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ پالیسی سازوں سے مشورے کرلینے چاہیے تھے۔
ہمیں اپنی حکومتی پالیسیوں میں اُن شعبوں پرتوجہ کرنے کی ضرورت ہے جوصفر کاربن ٹیکنالوجیزکی ایجادات اور فروغ کو ممکن بناسکیں۔ اس وقت جب ہمیں معلوم نہیں کہ پالیسیاں کیسا کام کریں گی، اورکس حد تک اہداف حاصل کرسکیں گی، ہمیں ناکامیوں کے امکانات ذہن میں رکھ کرآگے بڑھنا ہوگا۔
عمومی طور پر ان پالیسیوں کو حکومتیں ہی ابتدا میں آگے لے کر بڑھیں گی۔ نجی سیکٹرمنافع کے امکان تک پیش رفت نہیں کرے گا۔ ایک بار جب یہ پالیسیاں منافع بخش ہوجائیں گی تو نجی شعبہ انہیں اختیار کرلے گا۔ یہی درحقیقت اب تک ساری پیداواروں کی پیش رفت میں ہوتا آیا ہے۔ پرسنل کمپیوٹربزنس بشمول مائیکروسوفٹ کبھی کامیاب نہ ہوتے اگر امریکہ کی حکومت نے چھوٹے اور فعال مائیکرو پروسیسرزکی تحقیق پرسرمایہ کاری نہ کی ہوتی۔
چند سیکٹرز میں، جیسے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بھی معاملہ حکومت سے نجی کمپنی کی جانب گیا۔ صاف توانائی کے معاملے میں حکومتوں کی جانب سے زیادہ وقت اور مالیاتی ضمانت درکار ہے، کیونکہ اس ضمن میں سائنسی اورانجینئرنگ کا کام زیادہ وقت طلب اور مہنگا ہے۔
تحقیق پر سرمایہ کاری کا ایک فائدہ اور ہے: یہ ایک ملک میں کاروبار کے مواقع پیدا کرتی ہے، جس سے برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ملک سستا الیکٹرو فیول بنا سکتا ہے، وہ یہ فیول برآمد کرتا ہے، اور درآمد کرنے والا ملک اسے استعمال کرتا ہے، بغیر ارادہ کہ وہ کاربن اخراج میں کمی کا سبب بنتا ہے۔