تاریخ کا تسلسل اور تہذیبوں کی ہم آہنگی

(تیسرا اور آخری حصہ)
ہندو تہذیب ہندوستانی تہذیب— جس کو سندھ کی تہذیب (Indus civilization) بھی کہتے ہیں— کا حصہ رہی ہے۔ ہندوستانی تہذیب کے مرکزی جغرافیائی علاقے پر تو اسلام پہلے سے ہی ہے اور اب وہ ایک الگ ملک کے طور پر بھی جس کو پاکستان کہتے ہیں، موجود ہے۔ ہندوستانی تہذیب اپنے جغرافیائی مرکز میں ڈھے جانے کے بعد مختلف دھاروں میں بٹ گئی اور اس کی ایک شاخ ہندو تہذیب کی شکل میں سامنے آئی۔ ہندو تہذیب کو ہندوستان میں آریوں کے آنے اور رِگ وید کی تشکیل سے بھی جوڑا جاتا ہے، جس سے اس کی حیاتیاتی اور بشریاتی پہچان بنتی ہے۔ لیکن رِگ وید اور بعد کی مذہبی تحریکیں اور تحریریں اسے ایک مذہبی پہچان دیتی ہیں۔ ہندو تہذیب مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی پچھلے ایک ہزار سال سے زوال پذیر ہے اور ایک نسلی اور اسطوری (mythological) تمدن میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کیوں کہ کتاب اور پیغمبر مذہبی تہذیب کی بنیاد ہوتے ہیں اور ہندو تہذیب دونوں سے منحرف ہوچکی ہے۔ پیغمبروں کی تو پہلے سے ہی پہچان گم ہے اور کتاب بھی اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہے۔ اور بنیادی کتاب وید کی جگہ مختلف افسانوی و رزمیاتی کتابوں نے لے لی ہے۔ اس لیے اس کے عقیدے میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ سماجی ڈھانچہ پوری طرح زوال آمادہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اور معاشی تصور کا تو پہلے ہی سے کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہندو تہذیب کا صرف ایک ستون ہندو مذہب وجود میں ہے، اور وہ بھی نہ صرف زوال آمادہ ہے بلکہ دن بدن متنازع ہوتا جارہا ہے، جس میں مذہب کی متشدد پہچان پر زور ہے۔ اس کی بنیاد پر جو سیاسی اور سماجی تحریکیں ابھر رہی ہیں وہ تہذیب پر گفتگو کرنے کے بجائے ایک غیر واضح ماضی کے احیا پر زور دے رہی ہیں، جس سے اس میں نہ صرف ایک سطح پر اندرونی تضاد اور تعارض پیدا ہورہا ہے بلکہ ملک کے مسلمانوں یا اسلام کو مصنوعی طور سے نشانے پر لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مذہب انسان کی جس ضرورت کو پورا کرتا ہے وہ انسان کا خدا سے تعلق، خدا کی رہنمائی اور نجات ہے۔ ہندو مذہب میں انسانوں کی بڑی تعداد کو ذات پات اور اونچ نیچ کے نظام میں بانٹ کر نہ صرف کچھ لوگوں کو نجات کی ضمانت دی گئی ہے، بلکہ باقی لوگ تمام تر کوششوں کے باوجود اس درجے سے محروم کردیے گئے ہیں۔ جیسے جیسے ہندوستان میں تعلیم اور حقوقِ انسانی کا شعور بیدار ہوگا، ہم دیکھیں گے کہ یا تو بڑی تعداد کوئی دوسرا مذہب تلاش کرلے گی، یا مذہب سے ہی بیزار ہوجائے گی۔ اگر ہندو مذہبی سیاست یا ہندوتوا کی سیاست اسی زور شور سے باقی رہی تو سیاسی اور سماجی طور سے ہندوستان ایک ہزار سال پہلے والے دور میں پہنچ سکتا ہے، کیوں کہ ہندو تہذیب اور مذہب کا جغرافیہ بھی ایک ہی ہے، اسی لیے اس کے احیا کی باہر سے کوئی کوشش نہیں ہوسکے گی۔
ہر چند کہ لاطینی امریکہ نے کئی مشہور تہذیبوں کو جنم دیا ہے، تاہم ان کے تاریخی مقامات کو چھوڑ کر اب کچھ نہیں بچا ہے۔ نہ صرف لاطینی امریکہ کی بیشتر آبادی نابود ہوچکی ہے، بلکہ ان کی ریاست و سیاست پر غیر لاطینی امریکیوں کا قبضہ ہے۔ اگرچہ ان کے بعض ممالک کے تعلقات مغرب اور امریکہ سے کشیدہ ہیں، لیکن اس کی وجوہ تہذیبی کشمکش کے بجائے سیاسی و نظریاتی ہیں۔ لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک کمیونزم کے زیراثر رہے ہیں اور اب بھی ہیں، جس کی بنا پر ان کی سیاست میں مغرب کے تئیں تصادم اور آویزش نظر آتی ہے۔ ادھر افریقی تہذیب بھی کوئی وجود نہیں رکھتی، کیوں کہ افریقہ کا مکمل شمال اسلام اور مشرقی تہذیب کا حصہ ہے، دیگر ممالک یا تو مغرب کے بہت نزدیک ہیں یا باہمی و اندرونی نزاعات کا شکار ہیں۔ ایک مکمل تہذیب کے جو عناصر ہونے چاہئیں جن کی بنیاد پر افریقی تہذیب کی تعریف متعین کی جاسکے، وہ افریقہ میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
آرنلڈ ٹوئن بی نے تہذیبوں کے عروج و زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے زوال آمادہ تہذیبوں اور معاشروں کی علامات کی نشان دہی کی ہے۔ اس نے کچھ خاص باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے بقول زوال آمادہ تہذیبوں اور معاشروں میں اپنے ہی بنائے ہوئے اداروں (institutions)کی پرستش کا مرض پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ معاشرے خود ساختہ اداروں کو خدائی کے درجے پر رکھ دیتے ہیں۔ ٹوئن بی نے پارلیمنٹ کی مثال پیش کی تھی۔ اِن دنوں ہندو معاشرہ بھی اسی دلدل میں بہت اندر تک دھنس چکا ہے اور ملک یا نیشن جو خالص ایک انسانی ادارہ ہے، اسے نہ صرف خدائی کے درجے پر فائز کردیا ہے بلکہ دیگر تمام قوموں سے بھی یہی مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے گائے کے حوالے سے بھی ان کا یہی رویہ تھا۔ ان باتوں کو نہ صرف ملک میں رہنے یا نہ رہنے کی بنیاد قرار دیا جارہا ہے بلکہ فساد اور خون خرابے کے ماحول کو بھی ہوا دی جارہی ہے۔ ٹوئن بی نے زوال آمادہ معاشروں اور قوموں کی ایک اور علامت یہ بتائی ہے کہ وہ اپنے مزعومہ سنہرے ماضی کے احیا کے خوابوں میں جیتی ہیں جسے اس نے آرکائیوزم (archivism) کہا ہے، نیز مستقبل میں چھلانگ لگانے کی کوشش کرتی ہیں، جسے اس نے فیوچرزم (futurism)کا نام دیا ہے۔ ٹوئن بی کے مطابق یہ دونوں ہی مقاصد ناممکن الحصول ہیں۔ اس مرض میں اس وقت ہندو معاشرے کا بڑا حصہ مبتلا ہے۔ گاندھی اور نہرو اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ناکام ثابت ہوں گے۔ آرکائیوزم اور فیوچرزم نے معاشرے میں بے سمتی اور بے مقصدیت پیدا کردی ہے جس سے وہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔ قرائن کہتے ہیں کہ یہ عمل اسی صدی میں مکمل ہوجائے گا۔
ہن ٹنگٹن نے روس کو براہِ راست دشمن قرار دینے کے بجائے سلاوی آرتھوڈوکس کو بھی مغربی تہذیب کے مدمقابل ایک تہذیب کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ سلاوی آرتھوڈوکس رومن کیتھولک سے کچھ معاملوں میں اختلاف رکھتے ہیں، لیکن وہ تہذیبی طور پر کم و بیش یکساں ہیں۔ روس میں بوڑھے افراد چرچ میں تو جاتے ہیں لیکن سیلوک آرتھوڈوکس کے ایک تہذیب کے طور احیا کرنے کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں۔ روس کا مغرب سے تصادم تہذیبی نوعیت کی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ مکمل سیاسی مفاد پر مبنی ہے۔ اس کی تازہ مثال یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ہے، حالاں کہ یوکرین اور روس دونوں ہی سیلوک آرتھوڈوکس چرچ کے پیرو ہیں، لیکن سیاسی طور پر اور بین الاقوامی سیاست کے اعتبار سے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ روس تہذیبی وجوہ کے بجائے تاریخی و سیاسی وجوہ سے مغرب کے ساتھ متصادم رہے گا۔
اسلامی تہذیب ساتویں صدی میں وجود میں آئی جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا اور انسانوں کی رہنمائی کے لیے قرآن و سنت کو پیش کیا۔ تب سے اب تک تمام تر نشیب و فراز کے باوجود اسلامی تہذیب اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے جب اسلامی تہذیب نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں تو اُس وقت اس کے اردگرد بہت سی زوال زدہ تہذیبیں تھیں۔ مشرق میں چینی و ہندو تہذیبیں اور مغرب میں یونانی و رومی تہذیبیں تھیں۔ یہ تہذیبیں تاریخ کا کھنڈر بن چکی تھیں اور اپنی توانائی کھو چکی تھیں، چناں چہ سیاسی و سماجی اتھل پتھل سے گزر رہی تھیں۔ صرف یورپ میں عیسائی تہذیب باقی تھی۔ اپنے ابتدائی دور میں اسلامی تہذیب نے ایک معرکہ آرا کردار ادا کیا اور ان زوال پذیر تہذیبوں کے ورثے کو تحفظ بخشا۔ ہندوستانی اور یونانی تہذیب کے سرمائے کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ اسے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا، اور نئی بلندیوں سے روشناس کرایا۔ اگرچہ صلیبی جنگیں ہوئیں، جنھیں بعض یورپی اور مسلم حکمرانوں کے درمیان آویزش کہا جاسکتا ہے، لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ کبھی پوری دنیا کے مسلمان یکجا ہوکر یورپ سے متحارب نہیں ہوئے۔ اس میں کچھ علاقائی سیاست کی کارفرمائی بھی تھی، جو خالص مفادات پر مبنی تھی۔ جہاں اسلام نے زوال آمادہ ہندوستان میں ایک نئی روح پھونکی، جغرافیائی اعتبار سے یکجا کیا، ایک نئی سیاسی رہنمائی دی، ایک نئے سماج کی بنیاد رکھی، اور سب سے اہم یہ کہ اسے ایک مکمل دین پیش کیا جو اس کے زوال زدہ دین کے خاصا قریب تھا۔ بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کی پھونکی ہوئی روح سے ہندوستان نہ صرف دوبارہ کھڑا ہوا بلکہ آج یہ ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ یہ الگ بات کہ جو طاقت ایک ہزار سال پہلے اس کے زوال کی ذمہ دار تھی اگر وہ دوبارہ حاوی ہوگئی تو پھر ویسے نتائج دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔
مغرب نے آج جو ترقی کی ہے وہ اس کی نشاة ثانیہ کا ثمرہ ہے، اور تمام معتبر مؤرخین اس میں اسلام کے کردار کو کلیدی مانتے ہیں۔ یونانی تہذیب کا سب سے بڑا کارنامہ اس کا فلسفہ تھا جس نے ہزاروں برس میں ارتقا کیا تھا۔ یونان کے زوال کے بعد اسلام نے اس سرمائے کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اس کو سنوارا بھی اور اسے ترقی دے کر یورپ تک پہنچایا بھی۔ یہی فلسفہ بعد میں مغربی تہذیب کے ابھرنے کا سبب بنا۔ ہن ٹنگٹن کا یہ دعویٰ کہ اسلام اور مغرب تیرہ سو سال سے متصادم ہیں، نہ صرف خلافِ واقعہ ہے بلکہ زہرناک بھی ہے۔
چین اور روس اسلامی تہذیب کے شمال مشرق اور مشرقی کناروں پر موجود ہیں۔ تاریخی طور پر دونوں کے تعلقات اسلام سے نہ صرف بہت گہرے رہے ہیں بلکہ دونوں ملکوں کی سیاسی تاریخ میں اسلام نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ملکوں کی جغرافیائی سیاست اور کمیونزم کی آمد کے بعد اس صورتِ حال میں ایک منفیت آگئی تھی لیکن اب کمیونزم کے زوال اور عالمی سیاست میں تبدیلی کے بعد دونوں ملک اسلام کے ساتھ اپنے تعلقات کی تجدید کررہے ہیں اور بہت خوش آئند اشارے دے رہے ہیں۔
لبرل اکانومی اور اب نیو لبرل اکانومی خاص طور پر اپنی استحصالی نوعیت اور صارفیت کی بنا پر ہمیشہ تنازعات کے گھیرے میں رہی ہیں۔ اب ان کے بنیادی تصورات پر گفتگو کی ضرورت ہے۔ اسلام کے ساتھ مغرب کا مثبت انگیجمنٹ مغربی تہذیب کو بنیادی اصلاحات کی طرف لے جاسکتا ہے۔
اس وقت دنیا میں بس ڈھائی تہذیبیں اپنا وجود رکھتی ہیں: اسلامی، مغربی اور دیگر تمام باقی ماندہ تہذیبی دھارے۔ اسلامی تہذیب نہ صرف دنیا کے جغرافیائی وسط میں واقع ہے بلکہ تہذیبوں کی بحث کے مرکز میں بھی ہے۔ اسلام ”تصادم“ کے بجائے ”تفاہم“ پر یقین رکھتا ہے اور برے سلوک کا جواب دوستانہ رویّے سے دینے کو عین دین قرار دیتا ہے۔ لہٰذا اسلام اپنی طرف سے کسی بھی طرح کے تصادم کا حامی نہیں ہے۔ اگر دوسری تہذیبیں اور باقی ماندہ تہذیبی دھارے مثلاً ہندو، چین، روس اگر کسی قسم کی تصادمی پالیسی اختیار کرتے ہیں، تب بھی اسلام اس سے بچنے کا حامی ہے اور افہام و تفہیم کو ترجیح دیتا ہے۔ چناں چہ ہم نے دیکھا کہ جب یورپ کے بیشتر ممالک اپنی اپنی فوجوں کو افغانستان کی جنگ میں جھونک رہے تھے اور بے شمار عام افغانیوں کو قتل کررہے تھے، تب بھی طالبان نے یورپ کے عام شہریوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی، جب کہ ان کے لیے ایسا کرنا آسان تھا۔
اس دور میں اسلام مغرب کے ساتھ سب سے گہرے طور پر وابستہ ہے، اور مغرب بھی تہذیبی اعتبار سے سب سے زیادہ اسلام ہی کے ساتھ انگیج ہے۔ مغربی تہذیب کی تین بنیادیں ہیں: جمہوریت، سیکولرزم اور لبرلزم۔ اور تینوں اس وقت بحرانی دور سے گزر رہی ہیں۔ جمہوریت پر لابی نے قبضہ کرلیا ہے جس کے بدترین مظاہر عراق و افغانستان کی جنگیں اور مختلف ممالک میں لابی کے اثرات پر مبنی فیصلے ہیں۔ اسرائیل کے تعلق سے مغرب کا جو رویہ ہے وہ بھی اسی صورتِ حال کا عکاس ہے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں جو بحران ہے وہ مختلف ادوار میں آمروں، فوجی تختہ پلٹ (military coup d’etat) اور خانہ جنگیوں کی مغربی حمایت ہی کا شاخسانہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی جمہوری اقدار کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہے اور اسے اس سے نکال کر نئی اقدار عطا کرنے اور نئے جمہوری نظام میں لائے جانے کی ضرورت ہے، جو لابی، مفاد اور مادہ پرستی کے بجائے سچائی کی بنیاد پر فیصلے کرسکے۔ مذہب اور سماج کی علیحدگی سیکولرزم کا خاصہ ہے اور مغربی تہذیب اب بھی اس پر مضبوطی سے قائم ہے۔ تاہم بعض واقعات اشارہ کرتے ہیں کہ اس موقف میں کچھ تخفیف بھی واقع ہوئی ہے۔
تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ اسلامی تہذیب اب مغربی تہذیب اور باقی ماندہ تہذیبی دھاروں کے ساتھ تہذیبی تعاملی رابطے میں آگئی ہے۔ اگر اسلامی دنیا اور اس کے دانش ور سنجیدہ کوششیں کریں تو ایک تہذیبی یک جہتی پیدا کرنے اور نئے منظرنامے کے نمودار ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے، اور اسلامی تہذیب وہی کردار ایک بار پھر ادا کرسکتی ہے جو اس نے اپنے عروج کے دور میں کیا تھا۔