مجلہ ’’ادبِ عالیہ‘‘، ایک تعارف

(بسلسلہ کراچی کے ادبی رسائل)

ادب ہماری اصل زندگی کو سامنے لاکر ہمیں خود کو خود سے آگاہ کرنے میں مدد دیتا ہے اور اُن پہلوئوں کو سامنے لاتا ہے جو عام طور پر معاشرے کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ادب کی اشاعت میں رسائل و جرائد کا کردار اہم ترین ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل سے لے کر ادبی رسائل و جرائد کی اشاعت کا سلسلہ جاری و ساری ہے، لیکن بہت سے رسائل ناگزیر وجوہات کی بنا پر تحقیقی، ادبی اور علمی ہونے کے باوجود اپنی اشاعت کو برقرار نہیں رکھ سکے۔ ان میں کراچی کا ایک اہم رسالہ ’’ادبِ عالیہ‘‘ بھی شامل ہے۔
مجلہ ’’ادبِ عالیہ‘‘ کا آغاز کتابی سلسلے کے طور پر کیا گیا، اس کا پہلا شمارہ محترمہ حجاب عباسی کی زیرادارت (بطورِ مدیر) مئی 2016ء میں شائع ہوا، جس کے صفحات کی تعداد 424 تھی۔ یہ شمارہ ادبِ عالیہ پبلی کیشنز، کراچی کے زیراہتمام اشاعت پذیر ہوا۔ اس شمارے میں ’’مدیر‘‘ نے اس رسالے کی اشاعت کے بارے میں اپنے ادارتی نوٹ بعنوان ’’اظہاریہ‘‘ (ص424) میں لکھا:
’’خودغرضی اور خود مرضی کا گراف اپنی انتہائی تقویم کھوچکا ہے، آج کا تخلیق کار دھڑے بندیوں اور اپنے مخصوص مکتبہ فکر کا پرچار کرنے میں اس درجہ فعال ہوچکا ہے کہ اپنے ہم عصروں کو تو کیا، رفتگاں تک کو اُن کے مقام سے بے مقام کردینا چاہتا ہے… لوگ مجھ سے رسالے کی پالیسی کے بارے میں پوچھتے ہیں، سو عرض ہے میں جو محسوس کرتی ہوں، جو وقت کی آواز ہے، جو چشمِ بینا دیکھ رہی ہے میں وہی کہوں گی، اور چھاپوں گی وہی جو اس سے نزدیک تر ہو… میرا ایمان ہے جیسے صوت کو موت نہیں، بعینہٖ خیال کو بھی زوال نہیں، اگر لکھنے والے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے دوسروں کی بپتا احوالِ واقعی کی صورت میں لکھتے رہے تو بہت جلد ’’مارچ‘‘ کے شگوفے پھوٹیں گے اور بہار دائم ہوجائے گی۔‘‘
شمارہ اوّل میں حمدونعت کے بعد نامور مصنّفین مثلاً شمس الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر انور سدید، ستیہ پال آنند، خواجہ رضی حیدر کے ادبی مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔ اس کے بعد قدیم اور نئے شعرا کی غزلیں اور نظمیں اس شمارے کی زینت ہیں۔ بعد ازاں مختصر افسانوں کو خاصی تعداد میں شائع کرنے کے علاوہ چار طویل افسانے پیش کیے گئے ہیں۔ عام روایت سے ہٹ کر اداریہ بعنوان ’’اظہاریہ‘‘ رسالے کے آخری صفحات پر تحریر کیا گیا ہے۔
دوسرا شمارہ جو کہ مارچ 2017ء میں شائع ہوا، اُس میں حجاب عباسی کے لیے ’’مدیر‘‘ کے بجائے مدیرہ کا لفظ استعمال کیا گیا اور مشاورت میں سلمان صدیقی کا نام تحریر ہے۔ یہ شمارہ 296 صفحات پر مشتمل تھا۔ حسبِ سابق اس شمارے میں بھی حمدونعت، مضامین، مختصر افسانے، طویل افسانے شامل کیے گئے، لیکن اس میں ہائیکو، دوہوں کے علاوہ خطوط کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ خطوط میں اہلِ علم و ادب نے رسالے کی اشاعت کو ایک خوشگوار جھونکا قرار دیا ہے، جیسے کہ (ص283) رشید امجد نے لکھا: ’’پرچہ سلیقے سے نکالا گیا ہے۔ ادبی پرچوں کے اس قحط میں ’’ادبِ عالیہ‘‘ تازہ ہوا کا جھونکا ہے‘‘… فخر زمان، حیات رضوی امروہوی، علی تنہا، جتیندر بلّو، فردوس انور قاضی، نیر اقبال علوی، بشریٰ رحمٰن، شباب صفدر، زین سالک، علی حسنین تابش، خورشید بیگ میلسوی وغیرہ کے خطوط شاملِ اشاعت ہیں۔
تیسرا شمارہ جولائی 2017ء میں شائع ہوا، اُس کے صفحات بھی 296 تھے۔ جب کہ اس پر پبلشر کا نام فرید پبلشرز، کراچی درج کیا گیا۔ یہ شمارہ بھی حسبِ سابق مختلف النوع ادبی گوشوں پر مشتمل تھا۔ اس شمارے میں بہت سے لوگوں کے تنقیدی اور تعریفی خطوط شائع کیے گئے، جن میں شمارہ اوّل بالخصوص شمارہ دوم کے بارے میں تفصیلی آرا لکھی گئیں۔
چوتھا شمارہ بھی296 صفحات پر مشتمل تھا لیکن اس میں سرپرستِ اعلیٰ کے طور پر ڈاکٹر شفقت حسین عباسی، معاون مدیر: سلمان صدیقی اور مشیر قانونی اُمور: سجاد عباسی کے ناموں کے علاوہ مجلس ادارت میں ڈاکٹر محمد ایوب عباسی، سیما عباسی اور مجلسِ مشاورت میں ظہیرالدین عباسی اور محمد حفیظ عباسی کے نام شامل کیے گئے ہیں، جب کہ ناشر کا نام بھی تبدیل ہوا، یہ شمارہ ناشر (پبلشر) ’’تہذیب ‘‘ کے تحت شائع کیا گیا۔ مدیرہ کے طور پر حجاب عباسی کا نام ہی تھا۔ شمارے میں حمد و نعت، مضامین، غزلیات، افسانے، شاعری، خطوط کو جگہ دی گئی۔ پانچواں شمارہ 196 صفحات پر مشتمل تھا۔ مجلسِ مشاورت میں کشور عدیل جعفری کے نام کا اضافہ ہوا، باقی نام حسبِ سابق شائع ہوئے اور نظم و نثر پر مبنی ہی تخلیقات و نگارشات شائع ہوئیں۔
شمارہ ششم اور ہفتم 572 صفحات پر مشتمل یکجا اشاعت بطورِ ’’خصوصی نمبر‘‘ سامنے آیا اور ’’ادبِ عالیہ‘‘ کا آخری شمارہ بھی ثابت ہوا۔ مجلسِ ادارت کے نام ختم کرکے صرف مجلسِ مشاورت میں ڈاکٹر محمد ایوب عباسی، سیما عباسی اور زرقا نسیم کے نام شائع ہوئے۔ سرپرستِ اعلیٰ، مدیرہ، معاون مدیر اور مشیر قانونی حسبِ سابق لکھے گئے۔ ناشر کا نام فرید پبلشرز، کراچی شائع ہوا۔ یہ شمارہ شاعری کی مختلف اصناف حمد، نعت، غزل، سلام، ہائیکو، آزاد نظم، نثری نظم، پابند نظم، قطعات، گیت، ملّی و دیگر نغمے، منقبت، دوہے، نظم معرا، رباعیات، سب سطری، شہرِ آشوب، مثنوی، مستزاد، تروینیاں، سہرے؍ سہاگ، مرثیہ؍ نوحہ، ثلاثی، قصیدہ، کافی، نظم ماں، مسدس، فردیات، طنزومزاح (مزاحیہ نظمیں) کے لیے بطور خاص شائع کیا گیاہے۔ اس شمارے میں ’’ماں‘‘ کے عنوان پر بھی خاص نظمیں شائع کی گئیں۔ اس شمارے کے بارے میں ’’اظہاریہ‘‘ کے تحت صفحہ 572 پر حجاب عباسی لکھتی ہیں:
’’کوشش کی گئی ہے کہ اُردو کے قالب میں ڈھلنے والی اصنافِ سخن کا کماحقہٗ احاطہ کرلیا جائے، لیکن معدوم ہوتی ہوئی شاعری کی چند جہتیں اُن کے کہنے والوں کے دُنیا سے اُٹھ جانے اور نئے آنے والوں کی عدم توجہی کے باعث اتنی فزوں تر نہیں جتنی ماضی میں تھیں… طویل دورانیے کی لکھی جانے والی اصناف مثلاً قصیدہ، مثنوی، مسدس وغیرہ اب خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ سہ غزلے کا رواج اور رجحان بھی اب دیکھنے میں نہیں آتا۔‘‘
اس خصوصی اشاعت میں ان تمام اصناف کو یکجا کرنے اور قارئین کے سامنے پیش کرنے کا کارنامہ حجاب عباسی صاحبہ نے بخوبی سرانجام دیا ہے۔ مجلہ ’’ادبِ عالیہ‘‘ نے مختصر دور میں کُل چھ شمارے شائع کیے، جن کے صفحات کی تعداد تقریباً اکیس سو (2100) ہے۔ پانچ عمومی اور ایک خاص نمبر شائع کیا گیا ہے۔ تین شماروں (نمبرچار، پانچ، چھ+سات) پر سنِ اشاعت نہ ہونے کی وجہ رسالے کے آخری ماہ وسال کا پتا نہیں چلتا۔