کراچی میں ’کے الیکٹرک‘ کا ظلم بدترین لوڈشیڈنگ،اووربلنگ اور ٹیرف میں ظالمانہ اضافے کے ساتھ تسلسل سے جاری ہے۔ریاست اور اس کے ادارے ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے معذور ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے ستائے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ماڑی پور روڈ پر مظاہرین نے پر امن مظاہرہ کیا اور سڑک کو ٹریفک کے لیے بند رکھا،جس کے بعد پولیس اور رینجرز نے ان پریشان حال لوگوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ جو تھوڑی دیر بعد جھڑپوں میں تبدیل ہوگیا۔یہ منظر شہر کے کسی ایک حصے کا نہیں بلکہ پورے شہر میں جگہ جگہ مظاہرین گلیوں سے باہر آکر پولیس پر پتھراؤ کرتے رہے،پولیس کی جانب سے مظاہرین پر گلیوں کے اندر شیلنگ کی جا تی رہی۔گلی گلی احتجاج رہا،لانڈھی فیوچر موڑ اور لیاقت آباد تین ہٹی پل پر بھی یہی منظر تھا،لیاقت آباد تین ہٹی سے جہانگیر روڈ آنے اور جانیوالی دونوں سڑکیں ٹریفک کیلئے بند رہیں۔دن کے اوقات میں لائنز ایریا کے مکینوں کی بڑی تعداد نے شارع فیصل پر نکل کر اور گورا قبرستان کے قریب سڑک بلاک کر کے احتجاج کیا۔انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی اور سپلائی بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا، اسی طرح احتجاج کے باعث شارع فیصل کے ایک ٹریک پر ٹریفک جام رہا۔گلستان جوہر میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئے جہاں سیکڑوں افراد جوہر موڑ پر جمع ہوئے اور مین راشد منہاس روڈ کو گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے بلاک کر دیا۔مظاہرین اتوار سے بند بجلی کی فراہمی بحال کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔اس کے علاوہ گلستان جوہر میں پرفیوم چوک اورمین یونیورسٹی روڈ پر سفاری پارک کے قریب بھی دو احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ناکہ بندی کے باعث مین یونیورسٹی روڈ پر چلنے والی ٹریفک کو متبادل راستے کی طرف موڑ دیا گیا جس سے مرکزی سڑک پرشدید ٹریفک جام رہا،ناظم آباد میں بھی خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا اور کے الیکٹرک کے خلا ف نعرے لگاتے رہے۔عوام کا کہنا تھا کہ انہیں شدید گرمی میں 12 سے 14 گھنٹے بجلی کی بندش کا سامنا ہے جس سے ان کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ عوام نے مرمت اور شٹ ڈاؤن کے نام پر ’لوگوں کو بے وقوف‘ بنانے کی بھی مذمت کی ہے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ مسلسل شکایات کے باوجود کمپنی علاقے میں فالٹ کی نوعیت کا اندازہ لگانے میں ناکام ہے اوربجلی بحال ہونے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔اس وقت اسکیم 33،کوئٹہ ٹائون، گلشن اقبال، سرجانی ٹاؤن، نیو کراچی، فیڈرل بی ایریا، ایف سی ایریا، برنس روڈ، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کلفٹن، بلدیہ ٹاؤن، منگھوپیر، اورنگی ٹاؤن، لانڈھی، شاہ فیصل کالونی، ماڈل کالونی کے رہائشی ،شہید ملت روڈ، کھوکھراپار، پی ای سی ایچ ایس، محمود آباد اور ڈیفنس کے علاقوں میں بھی گھنٹوں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، لوگ ایک عرصے سے پریشان ہیں۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات دینے والے طلبہ بھی طویل لوڈشیڈنگ سے شدید متاثر ہورہے ہیں جنہیں اس گرم اور مرطوب موسم میں امتحان دینا پڑ رہا ہے،کے الیکٹرک کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ٹیکنیکل فالٹ کے بہانے کیے جاتے ہیں،اور لوڈمینجمنٹ کے نام پر شہریوں کو طویل دورانیے تک بجلی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف ’کے الیکٹرک‘ ٹیرف میں اضافہ مسلسل کیا جارہا ہے،ہر مہینے بجلی میں اضافہ کسی نہ کسی بہانے ہورہا ہے،ابھی نیپرا کے نوٹیفکیشن کےمطابق کے الیکٹرک نے اپریل کی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں 5 روپے 27 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا ہے ۔ جس کے بعد کراچی کے صارفین کے لیےبدترین لوڈشیڈنگ کےساتھ کے الیکٹرک نے بجلی 11 روپے 34 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کے لیے نیپرا کو درخواست بھیج دی ہے۔
اس سے قبل صارفین سے مارچ کا فیول ایڈجسٹمنٹ 4 روپے 83 پیسے چارج کیا گیا تھا جو اپریل میں 44 پیسے زیادہ لیےجائیں گے۔
اس صورت حال میں سے عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی و اضطراب فطری ہے اور احتجاج ان کا حق ہے ۔ کراچی کے عوام اور مظاہرین مطالبہ کررہے ہیں کہ حکومت ’کے الیکٹرک‘ کے تمام معاملات اور معاہدوں کی تفصیلات پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے لائے،پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف احتجاج کا ڈرامہ کررہی ہیں، حکومت اور نیپرا ’کے الیکٹرک‘ کی طرف سے عوامی مسائل حل کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ’کے الیکٹرک‘ کی سرپرستی اور حمایت کررہی ہے اور حکمران پارٹیاں عوام کے مسائل پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہیں۔شہر کراچی اس وقت بجلی بحران سمیت کئی حوالوں سے مسائلستان بنا ہوا ہے۔ریاست اور اس کے ادارے کراچی کو اس کا حق دینے کو تیار نظر نہیں آتے ،مسلم لیگ ن،پی ٹی آئی،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سب کے الیکٹرک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دوسری طرف جماعت اسلامی نے اپنے محدود وسائل کے باوجود کراچی کو بنانے اور اس کے شہریوں کے ہر مسئلے کے وقت اُن کے ساتھ کھڑے رہنے کی روایت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ ایسے میں کہ جب شہر کے لوگ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں،جماعت اسلامی شہریوں کے لیے ایک بار پھر میدان میں ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کا بنیاد ی مقصد لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تھا،لیکن بدقسمتی سے نجکاری کے بعد 16 برس میں ادارے کی پیداواری صلاحیت صرف 11 فیصد ہی بڑھ سکی ہے جبکہ صارفین کی تعداد میں 21 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے،کراچی کے شہری مستقل عذاب میں مبتلا ہیں جس کی ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کہ نپیرا بھی کے الیکٹرک مافیا کا ساتھ دیتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے یہ بھی کہا کہ حکومت ایک نجی ادارے کو 95 ارب کی سبسڈی دیتی ہے،عدالتیں کہتی ہیں کے الیکٹرک کی نا ماں کا پتہ ہے نا باپ کا مگر حکومتیں اس مافیا کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔حافظ نعیم الرحمان نے سوال کیا کہ 13 برس سے برسراقتدار پیپلز پارٹی کیوں اس مسئلے پر بولنے کو تیار نہیں، گورنر سندھ کے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کہاں گئے؟۔
کراچی ایک بار پھر حکمرانوں کی عدم توجہ کی وجہ سے اذیت اور تکلیف میں مبتلا ہے جس میں کے الیکٹرک کے دیے گئے عذاب کے ساتھ پانی اور سیوریج سمیت کئی مسائل لاتعداد عنوانات کے ساتھ موجود ہیں جب کہ سندھ حکومت کی کارکردگی ہم بارش کے چند گرنے والے قطروں میں ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔