سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ

بڑے پیمانے پر بدانتظامی اور دھاندلی کی شکایات

صوبہ سندھ کے 4 ڈویژن کے 14 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ بالآخر اتوار 26 جون کی شام 5 بجے اختتام پذیر ہوگیا۔ لیکن اس اختتام کو کسی طور پر بھی ’’بہ حسن و خوبی اختتام پذیر‘‘ ہونا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان انتخابات میں جس طرح سے لگ بھگ ہر ضلع میں بڑے پیمانے پر انتخابی عمل کے دوران سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور حامیوں کے مابین لڑائی جھگڑے ہوئے، ایک دوسرے پر حملے کیے گئے، فائرنگ کی گئی اور لاٹھیاں چلائی گئیں اس کی وجہ سے جہاں ایک طرف دو قیمتی انسانی جانوں کا اتلاف ہوا، وہیں دوسری جانب سیکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے اور بہت سے زخمیوںکو بغرضِ علاج ہسپتالوں میں بھی داخل کرانا پڑا۔ مذکورہ انتخابات سے ایک روز قبل جیکب آباد کے مولا داد پھاٹک کے قریب انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی غرض سے بلوچستان سے آئے ہوئے ڈومکی ذات سے تعلق رکھنے والے ایک دہشت گرد نے رینجرز کی گاڑی پر حملہ کرنے کے لیے اس پر دستی بم پھینکا، رینجرز اہلکاروں کی گاڑی تو گزر گئی اور بچ گئی، لیکن بدقسمتی سے ایک راہ گیر غلام مصطفی جکھرانی اس حملے کے باعث جاں بحق اور دو پولیس اہلکاروں سمیت دیگر سات افراد شدید زخمی ہوگئے، جنہیں سول ہسپتال جیکب آباد میں علاج معالجے کی غرض سے لایا گیا۔ پولیس نے جس دہشت گرد کو گرفتار کیا ہے اُس کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان سے رینجرز کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک آیا تھا۔ بہرحال ان بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کو بلاشبہ ’’خونریزی کا حامل شدید متنازع اور دھاندلی زدہ انتخاب‘‘ بھی قرار دے دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیوں کہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی جس نے ان انتخابات کو جیتنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلے تھے اور ہر وہ ہتھکنڈا اختیار کیا جس کی وجہ سے اسے بڑے پیمانے پر بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی پیش گوئیوں اور آراء کے مطابق کامیابی نصیب ہوئی ہے، جب کہ جی ڈی اے، متحدہ، آزاد امیدواران، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں، اور ظاہر ہے کہ یہ کامیابی محدود پیمانے پر ہوئی ہے۔ یہ انتخابات بدانتظامی اور بدامنی کا ایک ایسا بدنما استعارہ تھے جس کی مذمت تمام سیاسی جماعتوں نے کی ہے، اور حکومتِ سندھ اور الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے سخت ہدفِ تنقید بھی بنایا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی نااہلی یہ تھی کہ کافی وقت میسر آنے کے باوجود اُس نے نہ تو درست طریقے سے انتخابی فہرستوں کو مرتب کیا، اور نہ ہی صوبہ بھر میں ٹھیک طور سے حلقہ بندیاں کی گئیں، جس کے سبب سیاسی جماعتوں کے امیدواروں اور ووٹروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے لگ بھگ ہر ضلع میں انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے ہارنے والے امیدواران کی جانب سے کامیاب ہونے والے پی پی کے امیدواران، حکومتِ سندھ، مقامی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن پر دھاندلی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں مسترد کردیا گیا ہے اور عدالتوں میں جانے کے اعلانات بھی کیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مختلف انتخابی حلقوں کی ایسی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہیں جن میں پی پی کے امیدواروں کے حامیوں کو انتخابی عملے یا پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر ’’ٹھپہ بازی‘‘ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جی ڈی اے کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صفدر عباسی، جے یو آئی سندھ کے جنرل سیکرٹری مولانا راشد محمود سومرو نے گزشتہ روز لاڑکانہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے دورانِ خطاب اعلان کیا ہے کہ پی پی نے سندھ کے تمام بلدیاتی انتخاب کے حلقوں میں جس بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے کامیابی حاصل کی ہے وہ جعلی اور غیر قانونی ہے، جسے ہم سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر پی پی کے امیدواروں کو مقامی انتظامیہ اور پولیس نے حمایت کرکے کامیاب کروایا، جب کہ مخالف امیدواروں کو انتخابات سے قبل زبردستی انتخابات میں حصہ لینے سے دست بردار کروانے کے لیے ہر ناجائز حربہ آزمایا گیا، اور جنہوں نے بات نہیں مانی انہیں اغوا کرکے غائب کردیا گیا تاکہ بلامقابلہ پی پی کے امیدواروں کو کامیاب کروایا جاسکے، جس کی وجہ سے پی پی کے امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم انتخابات کے آئندہ مرحلے کا متحدہ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ انہی وجوہات کی بنا پر بائیکاٹ کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں۔‘‘ بہرحال یہ متنازع بلدیاتی انتخابات سندھ میں ایک نئی سیاسی محاذ آرائی کا باعث بھی بن سکتے ہیں، اور پی پی کے مخالفین اُس پر اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے جن ہتھکنڈوں اور ناجائز ذرائع کو اپنانے کے الزامات عائد کررہے ہیں وہ اس لیے بھی قابلِ توجہ ہیں کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس حوالے سے بہت سارے ثبوت ویڈیوز ریکارڈنگ کی صورت میں موجود ہیں۔ یہ انتخابات الیکشن کمیشن کی واضح نااہلی اور نالائقی پر بھی پوری طرح سے صاد کرتے ہیں۔ یہ بلدیاتی انتخابات عوام کو ٹائون، یوسی اور تعلقہ سطح پر نئی قیادت فراہم کرتے ہیں، لیکن سندھ میں پہلے مرحلے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پی پی سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر وہی پرانے بلدیاتی نمائندے کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے ماضی میں بھی بارہا کامیاب ہوکر اپنے حلقے کے عوام کے لیے کوئی مثبت کام نہیں کیا، بلکہ ترقیاتی فنڈز ہڑپ کرکے اپنے اپنے علاقوں کو تباہ کردیا اور انہیں کھنڈر میں تبدیل کر ڈالا۔ اس لیے آئندہ بھی ان نومنتخب امیدواروں سے کسی بہتری کی امید رکھنا عبث ہوگا۔ ان انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اِس مرتبہ نوجوان لڑکیوں، لڑکوں اور خواتین نے بھی پہلی مرتبہ قسمت آزمائی کی، جن میں سے بعض کو کامیابی بھی میسر آئی اور کچھ کو تجربہ بھی حاصل ہوا۔ ایک اہم اطلاع اس حوالے سے خیرپور شہر سے آئی ہے جہاں گدھا گاڑی چلانے والے ایک محنت کش گلشن شیخ کی بیٹی پروین شیخ نے وارڈ نمبر 1 میں سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور ایم این اے نفیسہ شاہ کے امیدوار منٹھار شیخ کو بدترین شکست سے دوچار کردیا۔ پروین شیخ نے وسائل نہ ہونے کے باوجود 450 ووٹ حاصل کیے، جب کہ ان کے مدمقابل منٹھار شیخ نے باوجود تمام تر حکومتی سرپرستی اور وسائل کے، محض 190 ووٹ حاصل کیے۔ اس انتخابی فتح کا سندھ بھر میں ہر سطح پر بڑا شہرہ ہوا ہے اور عوامی سطح پر بھی اس کا بڑا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ سکھر میں پی پی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ کے بیٹے زیرک شاہ کی جانب سے گوٹھ نہال خان کھوسو کے پولنگ اسٹیشن پر جس طرح سے شائستہ کھوسو نامی خاتون اور دیگر عورتوں کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اُس کی بھی ہر سطح پر سخت مذمت کی گئی ہے۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے خلاف یوسی گھنوواہ کے پولنگ اسٹیشن پر عوام نے شدید نعرے بازی کی۔ اور بھی کئی مقامات پر پی پی قیادت کے خلاف عوامی منفی ردعمل کے مظاہر سامنے آئے ہیں۔
کئی پولنگ اسٹیشنوں سے امیدواروں کی جانب سے بیلٹ باکس اٹھا کر لے جانے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ سندھ کے کئی انتخابی حلقوں سے ایسے امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں جنہیں اِس مرتبہ پی پی کی جانب سے ٹکٹ نہیں دیے گئے اور وہ آزادانہ طور پر انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہو کر اپنے مدمقابل پی پی کے ٹکٹ یافتہ امیدواروں کو شکست دے کر کامیاب ہوگئے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ صرف پی پی کا ٹکٹ ہولڈر ہونا ہی انتخابات میں سندھ میں حصولِ کامیابی کی واحد ضمانت نہیں ہے، بلکہ شخصی کردار اور ذاتی تعلق بھی اہمیت کا حامل ہے۔ لاڑکانہ ضلع کے کئی حلقوں میں پی پی کے مخالف امیدواروں نے بھی کامیابی حاصل کرکے سب کو حیران کر ڈالا۔ ان بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کرنے کی شرح خاصی کم رہی چلیں۔ بلدیاتی انتخابات کا اگلا مرحلہ سندھ میں 24 جولائی کو ہوگا۔