برطانوی معاشرہ اور کلیسا کا کردار

مذہب تا حال مغرب میں اپنے بیانیےپر کھڑا ہے

مغرب پر گوکہ تنقید کے تیر برسائے جاتے ہیں لیکن سب کچھ یہاں قابلِ تنقید نہیں، بہت کچھ قابلِ تقلید بھی ہے۔ برطانیہ اپنے تہذیبی بیانیے میں مذہب کی ایک واضح جھلک رکھتا ہے جوکہ اب آہستہ آہستہ معدوم تو ہورہی ہے لیکن برطانیہ کی حد تک کہیں نہ کہیں اس کے نظائر موجود ہیں۔ مثلاً ازدواجی زندگی کے لیے شادی کا ادارہ تاحال قائم تو ہے لیکن اس میں نمایاں کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ہم جنس پرستوں کی عالمگیر تحریک کے بعد اب جہاں دنیا بھر میں ہم جنس پرستوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے وہیں برطانوی کلیسا اس کی راہ میں تاحال رکاوٹ ہے اور مرد سے مرد، خاتون سے خاتون کی شادی کو کسی حال میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ لہٰذا ان کا انعقاد مذہبی طور پر ممکن نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کی قانونی اجازت اور قانون میں ترمیم کے باوجود بھی مذکورہ شادیوں کو چرچ آف انگلینڈ شادی نہیں یعنی میاں بیوی نہیں بلکہ ”سول پارٹنرشپ“ کا نام دیتا ہے، اور یوں شادی کا ادارہ مرد اور عورت کے لیے مختص کردیا گیا۔ مذہب کی بنیاد پر اب تک بھی برطانیہ میں بہت سی ترامیم کو روک دیا جاتا ہے اور کلیسا کھل کر حکومتی اقدامات پر تنقید کرتا نظر آتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ گزشتہ دنوں سے برطانوی سیاست کو درپیش ہے کہ جہاں غیر قانونی تارکین وطن سے نمٹنے کے لیے بورس جانسن کی حکومت نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ آئندہ آنے والے غیر قانونی پناہ گزینوں کو اب افریقی ملک ”روانڈا“ بھیجا جائے گا جہاں حکومتِ برطانیہ ان کے قیام کے تمام اخراجات حکومتِ روانڈا کو ادا کرے گی۔ گوکہ برطانوی عدالت نے اپنے فیصلے میں حکومت کو اس کا اختیار دے کر کیس نمٹا دیا تھا، لیکن کلیسا کے قائد آرچ بشپ آف کنٹبری جسٹن ولبائے نے اس حکومتی اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ”وہ ملک جوکہ مسیحیت کی بنیاد پر قائم ہے یہ اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ایسے اقدامات سے باز رہے جہاں اپنی ذمہ داریوں کو دوسرے کو پیسے کے عوض دیا جارہا ہے“۔ یہ وہ مذہبی عقائد اور تعبیرات ہیں جوکہ آج تک مغرب میں کسی نہ کسی طور پر موجود ہیں، گوکہ اس دور میں جہاں سیکولر جمہوریت میں دین و دنیا کی دوئی کو نمایاں کیا جاتا ہے اور مثال دی جاتی ہے کہ جدید جمہوریت نے مذہب سے ریاست کی جان چھڑا کر حیرت انگیز ترقی کی ہے، لیکن یہ سب کچھ لکھنے اور بولنے والے مغرب کی ترقی کا اصل راز مذہب کی نفی میں تلاش کرکے اپنی تحقیق و تجزیے کو مشکوک بنادیتے ہیں۔ یہ تجزیے بغیر کسی سیاق وسباق کے ایسے پیش کیے جاتے ہیں جیسے مغرب کے تاریک دور کا اصل مسئلہ مذہب ہی تھا۔ جبکہ اصل بات یہ ہے کہ کٹھ ملاّئیت کا کلیسا کا جبرِ ناروا ہی دنیا کو ایک نئے تجربے سے متعارف کروا گیا، کہ جہاں یورپ میں بادشاہت اور کلیسا کے جبر سے نالاں عوام نے نہ صرف بادشاہت کا تختہ الٹ دیا بلکہ کلیسا کو بھی اس کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنے سیاسی و دنیاوی معاملات سے علیحدہ کردیا۔ انقلابِ فرانس کی بدولت جدید جمہوریت اور سیکولرازم کی تحریک کا آغاز ہوا، اور آج تک مغربی جمہوریت آزادی کے اسی فلسفے کی بنیاد پر قائم ہے، لیکن برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی جہاں بادشاہت ابھی تک کسی نہ کسی طور پر قائم ہے مذہب کو سیاست و ملکی امور سے قطعی لاتعلق نہیں کیا جاسکا۔ یعنی جمہوریت جمہور کی آزادی کا قطعی اعلان نہ ہوگا بلکہ بہت سے معاملات میں تاج و تخت کا عمل دخل شامل رہے گا۔ اور تاج و تخت مذہبی اعتبار سے مذہب کے حکومتی نمائندے یعنی ”خلیفہ“ ہیں۔ برطانیہ سمیت جہاں جہاں بھی جمہوریت قائم ہے شخصی و مذہبی آزادی اور سیکولرازم کے باوجود آج بھی امریکی صدر حلفِ صدارت سے قبل چرچ کا رخ کرتا ہے اور برطانیہ میں موجود ہاؤس آف لارڈز ایوانِ بالا میں کلیسا کی نمائندگی ان کو سیاست و ملکی معاملات سے متعلق بناتی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جمہور کی آزادی، حقوق اور انسانی حقوق کا معاملہ خاص سیکولر انداز میں کیا جاتا ہے وہاں ان حقائق کو یکسر فراموش کردیا جاتا ہے کہ ان حقوق کا شعور دراصل مذہب نے ہی انسان کو دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج اس گئے گزرے دور میں بھی کہ جہاں مذہب کی چھاپ معدوم ہورہی ہے وہاں مذہب اپنی پوری قامت کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتا نظر آتا ہے، اور انسان کو حیوانِ مطلق بنانے کے تصور سے کسی نہ کسی طور پر علیحدہ اپنا نقطہ نظر بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔ برطانوی چرچ کا ان دو معاملات میں موقف یقیناً قابلِ تحسین ہے اور ایسے مذاہب جو خود انسانی فلاح کا کوئی نظریہ رکھتے ہیں اُن کو اس معاملے میں ایک حکمت عملی وضع کرکے ایسے اور ان سے جڑے معاملات پر مذاہب کا مشترکہ موقف دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ پاکستان اور ان جیسے ممالک کہ جہاں مذہب بنیادی طور پر آئین کا ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے اب وہاں بھی تبدیلیِ جنس کی تحاریک پیش اور قانون سازی کی جارہی ہے اور ان معاملات پر بولنے کو مذہب سے جوڑ کر سیکولر بیانیے کو سامنے لایا جاتا ہے۔ وہ افراد جو مغرب کو خاص سیکولر طور پر دیکھتے اور سمجھتے ہیں ان کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مغرب میں مذہب ابھی تک اپنے بیانیے پر کسی نہ کسی طور پر کھڑا نظر آتا ہے، تو مغرب کا مکمل تناظر پیش کیے بغیر صرف یہ بات کرنا کہ پوری دنیا میں یہی ہورہا ہے تعبیر کی ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اب فیفا ورلڈ کپ کے دوران قطری حکومت نے LGBT کا پرچم لہرانے پر قید کی سزا کا اعلان کرکے مغرب کے سیکولر عناصر کو بھی واضح پیغام دیاہے کہ ہمارے ملک میں بھی خلافِ اسلام کسی کام یا اس کی ترویج کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کو ایک وسیع تناظر میں دیکھیں تو آج بھی ہزار اختلاف کے باوجود قطری حکومت بھی چرچ آف انگلینڈ کے بیانیے کی ہی بات کرتی نظر آتی ہے جوکہ الہامی مذاہب کا بیانیہ ہے، لہٰذا ایسی تمام قوتوں کو ایسے فتنوں سے بچنے کے لیے ایک مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔