ضلع بہاول پُور کی مشہور تحصیل، حاصل پُور سے ہمیں حاصل ہوا ہے ایک مکتوب۔ یہ مکتوب محترم گلزار احمد صاحب نے بھیجا ہے۔ گلزار صاحب قواعدِ اردو کے ماہر اور قادرالکلام شاعر ہیں۔ آپ نے بچوں کے لیے ’قادر نامہ‘ کی طرز پر ایک نظم ’منظوم اُردو قواعد‘کہی ہے جو نہایت مفید اور معرکے کی چیز ہے۔ یہ نظم بچوں ہی کو نہیں بچوں کے لیے لکھنے والوں کو بھی زبانی یاد کرلینی چاہیے۔ گلزار صاحب لکھتے ہیں:
’’محترم احمد حاطب صدیقی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ ماشاء اللہ حسبِ سابق اِس مرتبہ بھی معلومات سے بھرپور کالم پڑھنے کو ملا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ میری معلومات کے مطابق آں جناب کا کالم علمی و ادبی حلقوں میں بڑی دل چسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، اس لیے احقر مناسب خیال کرتا ہے کہ آج کے کالم ’’سبقت ممنوع‘‘ میں موجود سہوِ قلم کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرا دی جائے۔ امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے۔’’بجلی کے جھٹکوں نے اسے چاق و چوبند اور مستعد و’چُستعد‘ بنا دیا ہے‘‘، اس جملے میں لفظ ’چاق و چوبند‘ کے درمیان ’و‘ نہیں ہے۔ یعنی درست لفظ ’چاق چوبند‘ ہے۔ نوراللغات اور مہذب اللغات میں سند کے طور پر شوقؔ قدوائی کا یہ شعر درج کیا گیا ہے ؎
چاق چوبند سینہ زوری میں
پھول رکھے ہوئے کٹوری میں
آپ کا بھائی گلزار احمد، حاصل پور‘‘۔
خط پڑھ کر اپنے سہو پر ہمارا دل شرم سار ہونے کے ساتھ ساتھ گُلِ گُلزار بھی ہوگیا۔ ہم محترم گلزار احمد صاحب کے انتہائی شکر گزار ہوئے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ صریح سہوِ قلم تھا۔ ہم خود ہر کس و ناکس کو ’چاق و چوبند‘ لکھنے پر بڑی رعونت سے ٹوکتے آئے ہیں۔ اس رعونت کی ہمیں خوب سزا ملی کہ ’چاق چوبند‘ لکھتے ہوئے خود وہ اُنگلی ہی پھسل گئی جو اس باب میں دوسروں کی طرف اُٹھ اُٹھ جایا کرتی ہے۔
بڑے بڑے لکھے پڑھے ’چاق و چوبند‘ ہی لکھتے اور ’چاق و چوبند‘ ہی بولتے ہیں۔ حتیٰ کہ ’فرہنگِ تلفظ‘ اور ’اردو لغت تاریخی اصول پر‘ سمیت بہت سے اہلِ لغت بھی یہی ترکیب بتاتے ہیں۔ پَر ہے یوں کہ درست ترکیب ’چاق چوبند‘ ہی ہے۔
گلزار احمد صاحب کے کہے پر اب ہمارا کچھ کہنا محض تحصیلِ حاصل ہوگا۔ مگر تحصیل حاصل پور سے مکتوب کے حصول پر اپنے مطالعے کا ماحصل پیش کردینے میں کوئی حرج بھی نہیں۔
’چاق‘ ترکی الاصل لفظ ہے۔ یہاں ایک دلچسپ نشان دہی کرتے چلیں کہ جن الفاظ میں’چ،ق‘ اور ’چ،غ‘ یکجا نظر آئیں، اُن میں سے اکثر الفاظ ترکی سے تشریف لائے ہوئے ہوتے ہیں۔ مثلاً: چِق، چاقو،چقماق، چقندر، قینچی، چُوغہ، چَغتائی اور چُغد وغیرہ۔
’چاق‘ کا مطلب ہے ترو تازہ، تن درست، توانا، زور آور، چست اور پھرتیلا۔ ایک زمانہ تھا کہ گھروں میں مٹی کے چراغ جلتے تھے۔ دِیوں میں تیل ڈال کر کپڑے یا روئی کی بنی ہوئی اور خوب بَٹی ہوئی بَتّی تیل میں بھگو دی جاتی۔ پھر دیا سَلائی سُلگا کربَتّی روشن کردی جاتی۔ بعض لوگ آج بھی، یعنی بجلی کے چراغوں کو بھی ’بَتّی‘ ہی کہتے ہیں۔ بتی کا اوپری سرا جل جانے سے چراغ کی لو مدھم ہونے لگتی تو تیل میں گرتی ہوئی بتی ذرا سی اوپر کھسکا دی جاتی۔ اس عمل کو ’چراغ چاق کرنا‘کہتے تھے، مطلب چراغ چست کرنا یا چراغ تیز کرنا۔ فارسی میں ’چاق‘ صرف تن درست اور توانا فرد کے لیے نہیں، فربہ اور موٹے شخص کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اہلِ فارس کو ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنا ہو تو باہم یوں پوچھتے ہیں: ’’دماغِ شما چاق است؟‘‘ مراد تو یہی ہوتی ہے ’’کیا آپ بخیر ہیں؟ تن درست و توانا ہیں؟‘‘ مگر جب ہم نے پہلی بار یہ فقرہ سنا تو یہی سمجھے کہ پوچھنے والا شاید پوچھنا چاہ رہا ہے کہ ’’اے میاں!کیا تمھارا دماغ موٹا ہے؟‘‘
یہاں ہمیں وطنِ عزیز کا ایک دلچسپ قصہ یاد آگیا۔ ہر دل عزیز استاد، صحافی، نظامت کار، ماہرِ ابلاغیات اور ماہر ادبِ اطفال، نیز متعدد رسائل کے مدیر اور ہمارے لڑکپن کے بے تکلف دوست محترم پروفیسر سلیم مغل ایک بار ایک علمی و ادبی کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی سے اسلام آباد تشریف لائے تو چائے کے وقفے میں ہمیں ایک الگ گوشے میں لے جاکر پوچھنے لگے:
’’حاطب بھائی! آپ کے شہر میں ہر دوسرا تیسرا آدمی آکر یہ کیوں پوچھتا ہے کہ خَرّیت ہے؟ خَرّیت ہے؟‘‘
اُن کو سمجھاتے ہوئے عرض کیا:
’’ہمارے شہر کے لوگ بہت مخلص اور سادہ لوح ہیں۔ وہ فقط یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کا گدھا پن اب تک برقرار ہے یا نہیں ؟ سو، ان کا دل رکھنے کے لیے جواب میں آپ کو بھی یہی کہنا چاہیے کہ جی ہاں، الحمدللہ خَرّیت ہے!‘‘
چاق کے ساتھ جو ’چوبند‘ لگایا جاتا ہے وہ ترکی ہے نہ فارسی۔ ہندی الاصل لفظ ہے۔ سنسکرت سے آیا ہے۔ اسی وجہ سے چاق کے بعد اور چوبند سے پہلے حرفِ عطف واؤ لگانا درست نہیں سمجھا جاتا۔ ’چوبند‘ کا مطلب ہے ’چاربند‘۔ دو ہاتھ اور دو پاؤں مل کر چار بند بنتے ہیں اور ’چوبند‘ کہلاتے ہیں۔ ’چاق چوبند‘ میں ’چوبند‘ کا مفہوم چاروں ہاتھ پاؤں سلامت، درست اور فعال ہونا ہے۔گھوڑے کے چاروں پیروں میں نعل ٹھونکنے کا عمل ’چوبندی‘ کہلاتا ہے۔ کسی مجرم کے چاروں ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں تو اِسے بھی ’چوبندی‘ یا ’چوبندکسنا‘ کہتے ہیں۔ یہی عمل ’مشکیں باندھنا‘ یا ’مشکیں کسنا‘ بھی کہلاتا ہے۔ لفظ ’چَو‘ ہندی زبان میں ’چار‘ کے معنی دیتا ہے اور اکیلا نہیں مرکبات میں استعمال ہوتا ہے، مثلاً: چَو بُرجی، چَو مُکھی، چَورنگی، چَوراہا، چَوپایہ اورچَوبارا وغیرہ۔ جو مَجا چھجو دے چَوبارے، اوہ نہ بلخ نہ بخارے۔
مشکیں ہی نہیں، بعض لوگوں کی زبان بھی کس جاتی ہے۔ حلق سے قاف نہیں نکال پاتے۔ قاف کا تلفظ کاف کرتے ہیں۔ قائداعظم کو کائداعظم بولتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض علمائے کرام قاف کو حلق کی اُن گہرائیوں سے ادا کرتے ہیں جہاں سے بقولِ یوسفیؔ ہم جیسے بے علمے صرف قے کرتے ہیں۔ شاید قے ہوجانے ہی کے ڈر سے لوگ ’چاق چوبند‘ کو ’چاک و چوبند‘ بولنے لگے ہیں۔ بولتے ہی نہیں لکھتے بھی ’چاک و چوبند‘ ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔ ’چاک‘ کے معنی کچھ اور ہیں۔ ایک تو اُس کھریا مٹی کو چاک کہا جاتا ہے، جس سے تختۂ سیاہ پر سفید الفاظ تحریر کیے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ چکی یا چکا جس پر کمھار گول گول پھرا کر مٹی کے برتن ہانڈی، لوٹا، پیالہ اور کوزہ وغیرہ بناتے رہتے ہیں۔ ن۔م راشد کی نظم ’’حسن کوزہ گر‘‘ میں اس ’چاک‘ کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔ ثروتؔ حسین اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یا ایک ستارے کا گزرنا کسی در سے
یا ایک پیالے کا کسی چاک پہ ہونا
’چاک‘ کے ایک معنی پھٹا ہوا، چِرا ہوا یا تراشا ہوا بھی ہے۔ کپڑا تراش کر گریبان اور دامن بنایا جاتا ہے۔ دامن کا چاک اور گریباں کا چاک اردو شاعری میں عُشّاق کے ہاتھوں کھلواڑ ہی بنا رہتا ہے۔ پس ’چاق چوبند‘ کی جگہ ’چاک و چوبند‘ لکھنا اور بولنا قطعاً درست نہیں۔
چلتے چلتے ایک اور بات بتاتے چلیں۔ محترم گلزار احمد صاحب نے اس عاجز کو دُعا دینے کے لیے نواب مرزا داغؔ دہلوی کا ایک مصرع استعمال کیا ہے، جو غلط مشہور ہوگیا ہے۔ ’’گُل زارِ داغؔ‘‘ میں پورا شعر اِس طرح لکھا ہوا ہے:
خط اُن کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی
اللہ کرے حُسنِ رقم اور زیادہ