پہلی کتاب ’’مساعی فہم القرآن‘‘ حصہ اول ہے۔ یہ کتاب عام مسلمانوں خصوصاً طلبہ اور بزرگوں کے لیے قرآن فہمی اور ان کو قرآن مجید فرقانِ حمید سے جوڑنے کے لیے رکوع وار مفہوم سمجھنے کی کوشش ہے۔ آسان زبان قرآنِ پاک کی تفہیم کے اس سلسلے میں یہ پہلے تین پاروں کا رکوع وار ترجمہ اور تفہیم ہے۔ ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھریؒ کا ہے۔ مفہوم کے لیے تفہیم القرآن اور تفسیرابن کثیر سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ہر رکوع کے آخر میں مشق کے تحت سوالات دیئے گئے ہیں۔ کتاب بڑے سائز 9X7 میں ہے، سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔
دوسری کتاب حضرت مولانا محمد شفیع جوش کی ’’قادیانی امت اور پاکستان‘‘ ہے، یہ ایڈیشن قادیانی امت کے نام سے طبع کیا گیا ہے، یہ اس کا تیسرا ایڈیشن ہے، اس کتاب کے متعلق مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رائے ہی کافی ہے:
’’مجھے مولانا محمد شفیع صاحب جوش میرپوری خطیب ماڈل ٹائون لاہور کا کتابچہ ’’قادیانی امت اور پاکستان‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ متنبی قادیان مرزا غلام احمد اور اس کی امت کا کفرو زندقہ ایک ثابت اور کھلی ہوئی حقیقت ہے۔ پاکستان اور عالم اسلام کے لیے قادیانیوں کا وجود ایک سرطان ہے۔ لیکن بہت سے مسلمان اور بالخصوص پڑھے لکھے مسلمان، افسوس ہے کہ اس خطرۂ جان و ایمان سے آگاہ نہیں ہیں اور وہ قادیانی مسئلے کو محض فرقہ وارانہ اختلاف کا ایک شاخسانہ سمجھتے ہیں۔ ایسے مسلمان نہ قادیانی لٹریچر کو پڑھتے ہیں، نہ قادیانی اُن تک اپنی صحیح تصویر پہنچنے دیتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسے غافل اور ناواقف مسلمانوں کے لیے اس کتابچے کا مطالعہ مفید رہے گا۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ اس میں مرزا غلام احمد اور ان کے امتیوں کے لمبے چوڑے اقوال نقل کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے اور مختلف عنوانات کے تحت چھوٹے چھوٹے فقرے ایسے درج کردیئے گئے ہیں جو حقیقت ِ حال معلوم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مصنف نے ایک اور کام یہ کیا ہے کہ مرزا صاحب کی قرآن مجید میں تحریف کی بھی چند ایسی عبرتناک مثالیں پیش کردی ہیں جنہیں کتابت کی غلطی کہنا غیر ممکن ہے۔ ان کا سرچشمہ بھی وہی الہام ہی ہوسکتا ہے جس کے وہ مدعی ہیں اور ’’الہامی غلطیوں‘‘ کی اصلاح غالباً قادیانیوں کے بس کا روگ نہ ہوگا۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف کو جزائے خیر دے اور ان کی سعی کو مسلمانوں کے لیے موجبِ بصیرت اور قادیانیوں کے لیے باعثِ ہدایت بنائے‘‘۔
کتاب کے پروف احتیاط سے نہیں پڑھے گئے۔ کتاب کے آخر میں عدلیہ میں ہونے والے قادیانیوں کے خلاف فیصلے بھی درج کردیئے گئے ہیں۔ کتاب سفید کاغذ پر طبع ہوئی ہے۔
تیسری کتاب ’’گم شدہ میراث‘‘ (الحکمۃ ضالۃ المؤمن) جامعہ المحصنات مانسہرہ کی طالبہ نور فاطمہ کے قلم سے ہے جس کی نظرثانی مفتی خواجہ غلام رسول نقش بندی نے کی ہے۔ یہ کتاب جامعہ المحصنات اپرچنئی ایبٹ آباد روڈ مانسہرہ کے زیر اہتمام تیار ہوئی ہے۔ محمد صدیق صاحب آب ممبر مینجمنٹ کمیٹی جامعہ مانسہرہ تحریر فرماتے ہیں:
’’محترمہ نور فاطمہ جامعۃ المحصنات کی ہونہار طالبہ ہیں اور عنقریب سندِ فراغت لے کے عملی زندگی کا آغاز کردیں گی۔ اپنی اس کاوش میں انہوں نے مشاہدات اور تجربات کو تربیتی انداز سے پرکھا اور پھر سپردِ قلم کیا ہے۔ ان تحاریر میں عام سی باتوں اور معمول کی سرگرمیوں کو انگیز کرکے سبق ترتیب دیا ہے۔
محترمہ نور فاطمہ، اُن ہزاروں بچیوں کے قافلے کا حصہ ہیں جو ہر سال درجنوں کی تعداد میں اس جامعہ سے فارغ ہوکر معاشرے کی اصلاح میں جت جاتی ہیں۔
جامعۃ المحصنات مانسہرہ، محترمہ چاند باجی کی جدوجہد کے نتیجے میں پھلنے پھولنے والا گلشن ہے۔ اس مادرِ علمی کی جڑوں کو مرحوم و مغفور یونس خٹک صاحب نے اپنے اشکوں سے سینچا ہے تب جاکر اس گلستان سے محترمہ نور فاطمہ جیسی نابغہ تربیت پاکے نکلی ہیں۔
اللہ اس دبستان کو یونہی شاد و آباد رکھے اور ہمیں دونوں جہانوں کی کامیابی عطا فرمائے!!!‘‘
پروفیسر ظفر حجازی تحریر فرماتے ہیں:
’’(نور فاطمہ نے) بہت سبق آموز کہانیاں لکھی ہیں۔ ضیا الحق کے دور میں ٹیلی ویژن پر آدھے گھنٹے کا ڈرامہ دکھایا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے سے لیے گئے واقعات اور کردار اپنی کارکردگی دکھاتے اور نتیجہ نکالا جاتا، اور آخر میں قرآن مجید کی آیت دی جاتی… گویا پوری کہانی قرآن مجید کی آیت کے مرکزی نقطے کے گرد لکھی جاتی… اس کتاب میں اکثر کہانیاں اسی طرز پر لکھی گئی ہیں، مثبت انداز میں اخلاق آموز کہانیاں ہیں۔
چوتھی کتاب محترمہ منیبہ مختار اعوان صاحبہ کا ناول ’’تُو روبرو ہے‘‘ ہے۔ منیبہ نے کتاب کا انتساب کیا ہے اپنے والدین، وطن اور اسلام کی خاطر جان قربان کرنے والے بہادر بیٹوں اور اس عورت کے نام جس نے اپنی زندگی میں کوئی خوشی نہیں دیکھی۔
منیبہ مختار اعوان تحریر فرماتی ہیں:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: ’’میری عظمت کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے آج کہاں ہیں؟ میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں ، کیونکہ آج میرے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہیں ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن حبان اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ میری اس کہانی میں بھی کچھ ایسے ہی کردار ہیں جنہوں نے اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت اور دوستی کی۔ دوستی میری کہانی کا بنیادی اور اہم پہلو ہے۔ دوسری اہم چیز اس میں اپنے دوست کو دعوت دینے اور سیدھا راستہ دکھانے کی بھی ہے۔ حضرت سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ تم اطمینان سے چلتے رہو یہاں تک کہ ان کے میدان میں پہنچ جائو، پھر ان کو اسلام کی دعوت دو اور اللہ تعالیٰ کے جو حق ان پر واجب ہیں ان کو بتائو۔ اللہ کی قسم! تمہارے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت دے دیں یہ تمہارے لیے سرخ اونٹ سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری 1073)
آپ لوگ بھی اپنی دوستیوں کو خالص اللہ کی رضا کے لیے رکھیں اور خود کو اپنے دوستوں کے لیے بہترین دوست بنانے کی کوشش کریں تاکہ قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ ہوگا اُس وقت اللہ کی رحمت کا سایہ نصیب ہوسکے۔ میرے اطراف میں کئی ایسی داستانیں رقم ہوئیں جن کو دیکھتے ہوئے میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ ان داستانوں کو کسی ایسی جگہ اتارا جائے جہاں یہ محفوظ ہوجائیں، ان داستانوں میں پاکستان کے محافظ جان کا نذرانہ پیش کرتے نظر آئے۔ میں انہیں خراج عقیدت پیش کرنا چاہتی تھی لیکن مجھ ناچیز کی حیثیت شاید اپنے ملک کے بہادر بیٹوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ اس لیے میں نے اپنی حیثیت کے مطابق ملک کے محافظوں کو اس ناول کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ خراج پیش کرنے کے لیے یہ میری ادنیٰ سی کوشش ہے، امید کرتی ہوں قارئین کو پسند آئے گی۔ اس ناول میں ملک کے بہادر بیٹوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے لیکن یہ خراج تحسین میرے لیے ناکافی تھا کیونکہ ہر جگہ بہادر بیٹوں کو تو خراج تحسین پیش کردیا جاتا ہے لیکن ان کی بیویوں، مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو اکثر داستانوں میں خاص مقام نہیں دیا جاتا، جبکہ اپنے گھر کے مردوں کو کھونے کے بعد انہوں نے دنیا کے عذاب جھیلے ہوتے ہیں۔ میری اس کہانی میں ایک کردار عظیم ماں اور عظیم بیوی کا بھی ہے جس کو میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں سراہنے کی کوشش کی ہے۔
اس کتاب میں چار دوستوں کے مابین شہادت کی جستجو پہ مبنی اور رب کی خاطر ایک دوسرے سے کی گئی داستانِ وفا ہے۔ اسلام کی سربلندی کے لیے اپنا گھربار اور والدین کو چھوڑ دینے والوں کی داستان ہے۔ کورونا کے مشکل دنوں میں دوسروں کی زندگیاں بچاتے بچاتے اپنی زندگی گنوا دینے والے بیٹے کی دل گداز کہانی ہے۔ اس میں اُس عورت کی داستانِ وفا ہے جس نے راہِ وفا پہ چلتے ہوئے اپنی زندگی میں کبھی کوئی خوشی نہیں دیکھی، ایک سیٹھ جو کہ قاتل اور بدمعاش ہے اس کہانی کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔‘‘
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔