حجِ بیت اللہ کا سفر بظاہر مقدس مقامات کی زیارات سے قلب و نظر کی تسکین اور ایک اسلامی فریضے کی ادائیگی ہے۔ مگر اسے معاشرتی تفوق و مفاخرت کا وسیلہ، نیکی و پارسائی کی ملمع کاری کا طریقہ، اور امورِ دنیا کی قباحتوں اور خباثتوں کی ڈھال بنالیا گیا ہے۔ مگر حقیقتاً یہ اہلِ ایمان کا ہی اعزاز، افتخار اور امتیاز ہے کہ وہ ادائیگیِ حج کے ذریعے اللہ کی رضا طلبی کے نادر و وقیع موقع سے مستفید ہوتے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے گئے طریقوں کے مطابق پورے اخلاص و احتیاط کے ساتھ حج ادا کرنے والے کو متعدد بشارتوں سے نوازا ہے، جن میں سب سے دلآویز بشارت یہ ہے کہ بندۂ مومن گناہوں اور خطائوں سے یوں پاک و صاف ہوجاتا ہے، جیسے وہ پہلی بار اپنی ولادت کے روز، پاک و صاف اور معصوم حالت میں دنیا میں آیا۔
حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے، جبکہ باقی عبادات کی ادائیگی مسلسل تادمِ حیات مطلوب ہے۔ یوں حج کو عبادات میں خصوصی اہمیت، فضیلت اور جامعیت کا درجہ حاصل ہوا اور اس کے متعدد انفرادی، اجتماعی، ملّی اور روحانی اثرات، نتائج و فوائد نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ عالمِ انسانی پر مرتب ہونے کا سلسلہ جاری ہوا۔ قرآن حکیم نے اسے مبارکا وہدی للعالمین ’’دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کے لیے باعثِ برکت و ہدایت‘‘ قرار دیا۔ اس کی روحانی و مادی برکات اور آخرت کی زندگی کے لیے زادِ راہ، تقویٰ، طہارت اور رضائے الٰہی کے حصول کے ذریعہ ہونے کی حیثیت کسی بھی طور نہ اہلِ ایمان سے مخفی ہے اور نہ عالمِ انسانی اس کے مثبت اثرات سے کبھی محروم رہا ہے۔
سفرِ حجِ بیت اللہ سفرِ فلاح بھی ہے اور وسیلۂ عرفان بھی۔ بندۂ مومن اگر نصیحت کے جذبے، عبرت کی آنکھوں اور بصیرت کے پیمانوں کے ساتھ اس سفرِ حج کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا عزم و ارادہ کرے تو علوم و معارف کے بے شمار پہلو اور اسرار و رموزِ حیات اس کے سامنے آشکار ہوں گے، اور اگر وہ اجر و ثواب کے شمار میں مصروف رہے تو شاید اسے اس کا وسیع ذخیرہ کرلینے کی سعادت تو حاصل ہوجائے، جو یقیناً اس کی اُخروی زندگی کے لیے زادِ راہ بن جائے گا، مگر اسے اپنی دنیا کو بابرکت، باوقار اور محترم بنانے کے لیے کچھ لائحہ عمل ممکن ہے نہ مل سکے۔ اللہ کا تو بندۂ مومن کے لیے کلیدی راہنما نکتۂ حیات یہی ہے کہ اس کی دنیا بھی بہتر رہے اور آخرت بھی۔ ’’فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ‘‘۔
اہلِ ایمان کو سفر حج میں چار ہستیوں سے خوب متعارف ہونا چاہیے۔ اُن کے مقام و مرتبے، اُن کے اختیار و اقتدار اور بندۂ مومن کی زندگی میں اُن کے غالب و حاوی اثرات کا عرفان و شعور اور آگاہی سفرِ حج کا بنیادی مقصد قرار دیا جاسکتا ہے۔
ان میں سے پہلی مقتدر ہستی اللہ عزوجل کی ہے جو یقینی طور پر ساری کائنات کا مالک، خالق، متصرف اور مدبر و منتظم ہے۔ کائنات کی کوئی بھی مخلوق اس سے بے نیاز اور مستغنی نہیں ہوسکتی۔ جس اللہ پر ایمان والے غائبانہ ایمان رکھتے ہوں، اسے محض ایمانی تقاضے کے مطابق اپنا خدا اور معبود تسلیم کرتے ہوں، سفرِ حج میں قدم قدم پر اُس کے ساتھ براہِ راست مربوط ہوتے ہیں۔ اُس کے جلال و جمال اور شان و شوکت کا اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ اُس کی کارفرمائی کا قریب سے مطالعہ کرتے ہیں۔ اُس کی توحید اور لاشریک ذات کا بچشمِ خود معائنہ کرتے ہیں۔ لاکھوں انسانوں کی زبانوں سے ادا ہونے والا نغمۂ توحید ’’لبیک اللھم لبیک، لبیک، لاشریک لک لبیک‘‘ نہ صرف بندگانِ خدا کے قلب و روح پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ انہیں اللہ کی عظمت و جلالت کے سامنے جھکنے اور اس کا اقرار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں ’’ان الحمد والنعمۃ لک و الملک‘‘ تمام تر حمد و ثنا اے باریِ الٰہ صرف اور صرف تیرے ہی لیے ہے۔ سب بخشش و عطا تیری ہے۔ تیرا ہی ملک ہے، تیری ہی کائنات ہے، تیرا ہی اختیار و اقتدار ہے۔ ’’لاشریک لک‘‘ بلاشبہ تُو واحد و یکتا، بے مثل و بے مثال ہے۔ تیرا کوئی شریک نہ ہوسکتا ہے نہ ہے۔ اللہ کی قوت و عظمت، توحید و سطوت، بندگانِ خدا کو اُس کے سامنے ہی سر ِتسلیم خم کرنے اور اُسی سے خوف کھانے اور اُسی کے تابع فرمان رہنے کے راستے کا شعور دیتے ہیں۔ ’’فالھکم الہ واحد فلہ اسلموا‘‘ اسی ایک خدا، معبود اور رب کے سامنے جھک جائو۔ اسی کا خوف دلوں میں جاگزیں کرلو۔ ’’اتقوا اللہ واسلموا‘‘ اس کی تابع داری اس لیے بھی کہ ’’الیہ تحشرون‘‘ تم سب کو بالآخر جواب دہی کے لیے اور اپنے دنیوی عقائد، افکار و اعمال کے اجر و ثواب اور سزا کے لیے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔
بندۂ مومن اس رب کی ذاتِ عالی کا شعور و عرفان حاصل کرکے، خود کو اس کے سامنے سجدہ ریز کرکے، اس کے حکم، مشیت اور قدرت کا تابع قرار دے کر اس کے ساتھ سفرِ حج کے دوران والہانہ تعلق قائم کرتا ہے۔ اپنے وجود، آرام، خوراک، کپڑے، ناخن، بال، صفائی اور دیگر ضروریات سے بے نیاز ہوکر پوری یکسوئی، دلجمعی، مضبوطی اور اخلاص کے ساتھ اس کے عشق میں تڑپتا اور تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا ہے۔ وہ اس کی حمد کا ترانہ الاپتا رہتا ہے، اس کے گھر کا طواف کرتا ہے، اس کے خلیل ابراہیمؑ کی سنتوں اور وفاداریوں کی یاد تازہ کرتا ہے، اس کی بارگاہ میں دعا، مناجات کرتا، الحاح و زاری کرتا، عجز و نیاز کا اظہار کرتا، اپنے گناہوں، خطائوں پر آنسو بہاتا، معافی مانگتا اور مغفرت طلب کرتا ہے۔ اللہ کے مقام و مرتبے کا شعور و ادراک کرکے اپنی گزشتہ زندگی کی بے عملیوں سے توبہ کرکے صراطِ مستقیم پر چلنے کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا عزم دہراتا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل، سجدے، دعا، تسبیح، مناجات، طواف، تلبیہ، قربانی وسعی سے اپنے مالک، محسن و منعم کو منانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔
عرفانِ الٰہی بندۂ خدا میں ذکرِ الٰہی کا درد جگاتا ہے۔ وہ مناسکِ حج کے دوران اور بعد میں اپنے ماں باپ اور اولاد کی یاد سے بڑھ کر یاد کرنے لگتا ہے۔ ’’فاذا قضیتم منا سککم فاذ کرو اللہ کذکر کم اباء کم اواشد ذکرا‘‘ ذکرِ الٰہی کی یہ کیفیات اس کی زبان اور دل سے بڑھ کر اس کی روح اور جسم پر حاوی اور طاری ہوتی ہیں۔ وہ اپنا وجود، گھربار، کاروبار، اولاد، عزیز و اقارب، دنیاوی جاہ و حشم، مفادات سب ترک کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور کامل یکسوئی کے ساتھ اس کی عبادت و بندگی کرنا چاہتا ہے۔ اسے دنیا کی الجھنوں، خوف، مسائل و مشکلات سے چھٹکارے کا احساس، اور اس کے دل کو عجیب طرح کی سکینت و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس کا دل بار بار تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ خود کو اُن لوگوں میں شامل اور اُن کا مصداق سمجھنے لگتا ہے، جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے: (ترجمہ) ’’جب اللہ کی یاد آتی ہے تو ان کے دل بے قرار ہوجاتے ہیں۔ جب قرآن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان دو چند ہوجاتا ہے اور انہیں سب دنیاوی سہاروں کو ترک کرکے اللہ پر اپنے توکل، یقین اور دین و دنیا کے ہر معاملے میں بے پناہ اعتماد کی روشنی ملتی ہے‘‘۔ اللہ کی حمد و ثنا، اس کے ذکر، اس کے ساتھ دعا و مناجات، اس کے حضور سجود و رکوع میں مشغول رہنے والا یہ مسافرِ حرم اب امامِ حرم کی تلاوت کو خوب سمجھنے لگتا اور پھوٹ پھوٹ کر روتا جاتا ہے۔ یہ سارا ماحول اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ قول و عمل کے ہر انداز میں اللہ کے ساتھ مضبوط رابطہ استوار کرے اور کسی دکھلاوے کے بغیر پورے اخلاص و یقین کے ساتھ ’’آمَنوا آمِنوا‘‘ اور ’’اتقوا اللہ حق تقتہٖ‘‘ اور ’’ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ کی قرآنی تعلیمات کو کماحقہٗ اپنی عملی زندگی کے نشانِ منزل کے طور پر اپنالے۔
سفرِ عرفان کی دوسری ہستی، راہبر و رہنما، آقا و مولا، رحمت عالم، سرورِ دو جہاں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہے۔ سفرِ حج کی اصل رہنما ہستی بھی یہی ہے۔ نہ صرف سفرِ حج، بلکہ سارے سفرِ حیات کا قائد و راہبر بھی یہی نام ہے۔ محبت و اطاعت کرنے والوں کی ساری کائنات یہی ہستی ہے۔ ان کی ساری آبرو اور دین و دنیا کی بھلائی، کامیابی اور فوز و فلاح کا نشان اسی ہستی کے نقوشِ حیات اور اسوۂ عمل ہیں۔ حج کی ساری فضیلتیں، برکتیں، رحمتیں، سارے مناسک، سارے مقامات، سارے اعمال و افعال اسی ذات پاک کے بتائے ہوئے، سمجھائے ہوئے اور کرکے دکھائے ہوئے ہیں۔ یہی اللہ کے فرستادے ہیں۔ اللہ کی ہستی سے متعارف کرانے، اس پر ایمان کے تقاضے سمجھانے اور اس کی بشارتوں سے آگاہ کرنے والے بھی یہی ہیں۔ ان پر ایمان، ان سے محبت، ان کی اطاعت کے بغیر نہ تو اللہ پر ایمان مکمل ہوسکتا ہے اور نہ دنیا و عقبیٰ محفوظ رہ سکتی ہے، نہ زندگی کے راستے واضح ہوسکتے ہیں، نہ آخرت کا زادِ راہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔
سفرِ حج اس عظیم، مہربان اور بابرکت ہستیؐ کے دامانِ رحمت سے وابستہ ہونے، اُنؐ کی رسالت پر کامل ایمان لانے، اُنؐ کی ہر تعلیم اور حکم کی بلاچوں و چرا، حیل و حجت، لیت و لعل اطاعت کا داعیہ پیدا کرتا ہے۔ اُنؐ کی ہر سنت کی پاسداری کا شعور بھی اسی سفرِ حج میں بدرجۂ اُتم پیدا ہوتا ہے۔ اُنؐ کے اسوۂ حسنہ کا اتباع بھی نتیجہ خیز ہوتا ہے، اس ذات والاتبارؐ کی ہستی، مقام، مرتبت کا شعور جہاں اُنؐ کی اتباع پر مجبور کرتا ہے وہیں اُنؐ کی ذاتِ عالی شان کے بے پناہ ادب واحترام کے تقاضوں کو بھی قلب و ذہن میں واضح کرتا ہے، اور پھر اُنؐ کی حرمت کی پاسداری کا درس بھی دیتا ہے۔ اُنؐ کی بارگاہ میں حاضری، اُنؐ کے حضور درود و سلام کے نذرانے دل، جسم، عقل، روح کو اُنؐ کا شیدا بنادیتے ہیں اور بندۂ مومن کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اُنؐ کی شفاعت کی تمنا کرے اور اُنؐ کی بارگاہ میں درخواست گزارے اور خود کو اُنؐ کی شفاعت کے لائق بنانے کا عزم کرے۔
ایک اور نہایت محترم ہستی جس سے تعارف، شخصیت سے آگاہی اور اس کے خلوص و للہیت سے آشنائی اس سفرِ حج کے دوران حاصل ہوتے ہیں، وہ سیکڑوں انبیا کے باپ، جدِّامجد رسولِ ہاشمیؐ، توحید و وفاداری، اخلاص و یکسوئی اور خدا شناسی کی لازوال شخصی مثال جناب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذاتِ مبارک ہے۔ دنیا کے قدیم و جدید متعدد ادیان کے سرخیل، بتوں کی گردنوں پر حق کی کاری ضرب لگانے والے، مظاہرِ کائنات پر غور و فکر کے ذریعے معبودِ حقیقی اور ربِ واحد کی پہچان کرانے والے، دنیا کے ہر رشتے، ہر تعلق، ہر مفاد و مصلحت سے بے نیاز ہوکر بندۂ مومن کے لیے کامل یکسوئی، اخلاصِ عقیدہ و عمل کا راستہ دکھانے والے، بندوں کو زمین و آسمان کے خالق اور مدبر و منتظم کے حضور لاکھڑا کرنے والے سیدنا ابراہیمؑ، اللہ کے دوست، خلیل اللہ، دینِ حنیف کے بانی، حنفاء کے سالارِ کارواں، نوجوانوں کے لیے نشانِ عمل، جو انتشارِ فکری اور افتراقِ عملی کا شکار ہوں، اپنے رب کی پہچان کرکے، اس پر ایمان لاکر اپنی ساری زندگی، اپنے فکر و عمل کے ہر زاویے کو اس کے سپرد کردینے کی مثال و نمونہ بننے والے… انہیں زندگی کا مقصد، شعور اور بہترین استعمال سمجھانے والے۔ ’’ان صلاتی ونسکی و محیای و مماتی للہ رب العٰلمین‘‘ یہ سجدے و رکوع، تسبیح و تہلیل، حمد و ثنا، یہ مناسکِ حج اور مراسمِ عبودیت، حتیٰ کہ زندگی پوری کی پوری اور موت کی منزل… سب اللہ ہی کے لیے، اُس کی بندگی کے مظاہر، اُس سے وفاداری، محبت، اُس کے ساتھ اخلاص و وفا کے ذرائع، ابراہیم علیہ السلام، خلیلِ الٰہی، اللہ سے محبت، اخلاص اور وفا کی راہ میں بے شمار قربانیاں دے کر تاقیامت انسانیت کے لیے واجب الاتباع، سنتوں، واجب الاختیار راستوں کے راہ نما، سفرِ حج کے قدم قدم پر انہی کے نقوشِ پا کی پیروی حج کی مقبولیت کی ضامن ہے۔ یہ کعبہ جو انہی کے ہاتھوں تعمیر ہوا۔ یہ مقامِ ابراہیم جہاں طواف کی تکمیل کے بعد دو رکعت نوافل ادا کیے بغیر طواف نامکمل۔ یہ صفا و مروہ جہاں ان کی وفا شعار اہلیہ کی اطاعتِ الٰہی اور ممتا کی بے قراری کی یاد میں ہر مرد و زن مسلمان، زائر حرم اور عازم حج کو اسی جذبے اور کیفیت کے ساتھ مسعٰی کے چکر لگانا لازم ہے، اور یہ جانور کی قربانی، سنتِ ابراہیمی کی لازوال پاس داری کا مظہر، اتنی بڑی، اتنی جاندار اور شاندار قربانی یقیناً تاریخ انسانی میں ان سے پہلے اور بعد کسی نے نہ دی ہوگی۔ اپنے آقا و مولا کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم ختم کردینے کا ایسا بے مثال مظاہرہ انبیا و رسل کے عظیم مرتبوں پر فائز باپ بیٹے کے سوا کر بھی کون سکتا ہے!
آزمائشوں میں ثابت قدمی بھی ابرابیم علیہ السلام کی شخصیت کا ایمان افروز پہلو ہے۔ اپنے ہی سربراہِ خاندان آذر کے سائے اور بتوں کے درمیان پلنے بڑھنے والے کی پوری طاقت اور بے خوفی سے اور مدلل مخالفت، آباو اجداد کی رسمِ بت پرستی سے بغاوت، ہوائوں کے مخالف چلنے کی عادت، بت شکنی کی پہلی جرأت، اپنے ہی چچا کی گھر سے نکالے جانے اور شدید سزائوں کی دھمکیاں، حاکمِ وقت سے دلیل و حجت میں جرأت مندانہ کردار اور اعلانِ توحیدِ الٰہی کی پاداش میں آتشِ نمرود کی بسر و چشم قبولیت۔ اللہ کے حکم پر اہلیہ اور دودھ پیتے بچے کو وادیِ غیر ذی زرع میں لا بسانے کی بے مثل اطاعت اور اسی بچے کو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اللہ کے حکم پر قربان کرنے کے محض خواب کی عملی تعبیر… یہ سب وہ فخر ہیں جو اس عظیم ہستی کو ہی حاصل ہوئے، اور اس لازوال کردار نے انہیں اپنے خدا کا دوست اور اس کے بندوں کا محبوب بنادیا۔ اسے محض ایک انسان نہیں ’’ان ابراہیم کان امۃ قانتا للہ حنیفاً‘‘ ایک پوری امت کے مصداق قرار دیا۔ مسافرانِ حرم کے لیے اللہ کے ساتھ مخلصانہ، حنیفانہ اور مجاہدانہ تعلق، شرک سے پاک اور توحید کے تقاضوں اور عملی راہوں سے آگاہی کی پہچان و شعور… انہی ابراہیم حنیف کی ذاتِ بابرکات کے تعارف و پیروی سے مشروط ہے۔ اس عرفان سے بندۂ مومن کو یہ فخر بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملتِ ابراہیمی کا قابلِ قدر فرد ہے اور اِسی راستے کا مسافر ہے جو اسے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی منزلوں کی طرف لے کر جاتے ہیں۔
(جاری ہے)