دہشت گردی اور مسلمان

جناب ثروت جمال اصمعی پاکستان کے سینئر صحافی ہیں، انہوں نے 1970ء میں اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ فروری 2000ء سے روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔ عالم اسلام ان کا خصوصی موضوع ہے۔ اس حوالے سے ان کے کالم جنگ کے ادارتی صفحے پر باقاعدگی سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ 1970ء سے 1983ء تک انہوں نے روزنامہ جسارت کراچی میں سب ایڈیٹر، اسسٹنٹ ایڈیٹر اور میگزین ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1984ء سے 1999ء تک ہفت روزہ تکبیر کراچی میں ڈپٹی ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیں۔ جناب اصمعی 2007ء سے عالمِ اسلام اور مسلمانوں کے مسائل پر آئی پی ایس کے مختلف تحقیقی پراجیکٹس میں معاونت کررہے ہیں، جبکہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ایک علمی ادارہ ہے جس کے پیش نظر پاکستان اور مسلم دنیا کے مسائل پر تحقیق اور بحث و مباحثے کے ذریعے مختلف حل پیش کرنا ہے۔ ادارے میں جن موضوعات کو خصوصی مطالعے کا محور بنایا گیا ہے ان میں سماجیات، معاشیات، سیاسیات، بین الاقوامی تعلقات، تعلیم اور عوامی سطح کے پالیسی امور شامل ہیں۔ ادارے نے اس ضمن میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر دانش وروں اور تحقیق کاروں کو باہم مل جل کر تحقیق و رہنمائی کے لیے پلیٹ فارم پیش کیا ہے۔ ادارے کی کتب اور رپورٹیں اہلِ علم کی نظر میں قابلِ لحاظ مآخذ کے طور پر قبول کی جاتی ہیں۔
جناب ثروت جمال اصمعی نے بڑی محنت اور تحقیق سے زیر نظر کتاب مرتب کی ہے۔ یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ کتاب 13 ابواب پر مشتمل ہے۔ پروفیسر خورشید احمد تحریر فرماتے ہیں:
’’نائن الیوں کے واقعے نے ’’ٹوئن ٹاورز‘‘ کے انہدام کے ساتھ ہی عالمی حالات میں جو جوہری تبدیلی پیدا کی ہے، وہ ایک عالمی طاقت کی طرف سے بین الاقوامی قوانین، عدل و انصاف، انسانی حقوق اور ہر ملک کی سرحدوں اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کے احترام کا انہدام ہے۔ ایک انفرادی یا گروہی دہشت گردی کے ردعمل میں (جسے خود ابھی تک کسی عدالتی کارروائی میں ثابت نہیں کیا گیا) اس سے کہیں بڑے پیمانے کی ریاستی اور عالمی دہشت گردی کا آج پوری دنیا کو سامنا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ایک واقعے کی آڑ میں پرانے سامراجی منصوبوں پر تیز رفتاری سے عمل درآمد ہورہا ہے۔ ان منصوبوں کی تخلیق میں تاریخی صلیبی جنگوں کی نفسیات اور تیل کے ذخائر پر تسلط کے خواب پسِ پردہ عوامل کی حیثیت سے موجود ہیں۔
سوویت یونین کے اختتام کے بعد امریکہ اور ناٹو کی سامراجی جنگی مشین کو ایک نئے دشمن کی تلاش تھی اور وہ دشمن …اسلام اور مسلمان… کی شکل میں نامزد کرلیا گیا ہے، اور اس دشمن کے خلاف زبردست پروپیگنڈے کے ساتھ حربی محاذ بھی بہت گرم ہوگیا ہے۔
لیکن… جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو بہت دیر تک اور سب لوگوں کو کچھ دیر کے لیے بے وقوف تو ضرور بنا سکتے ہیں مگر تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بناسکتے۔ جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے۔ یہ ایک دن بلبلے کی طرح پھٹ جاتا ہے اور اندر کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
اب امریکی اور مغربی تحقیق کار اور تجزیہ کار ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ:
٭نائن الیون کے واقعات کا خود امریکی ایجنسیوں کی شرکت کے بغیر وقوع پذیر ہونا محال تھا۔
٭افغانستان کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ امریکہ اور برطانیہ نائن الیون سے برسوں پہلے کرچکے تھے۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد افغانستان کے راستے سوویت یونین کی نوآزاد ریاستوں میں واقع تیل اور گیس کے وسیع ذخائر تک رسائی حاصل کرنا تھا۔
٭ عراق پر قبضے کا منصوبہ امریکی حکمراں 1990ء کی دہائی سے بنارہے تھے جس کا بڑا محرک عراق کے تیل کے ذخائر پر تسلط حاصل کرنا تھا۔
٭پورے مشرق وسطیٰ اور عالمِ اسلام میں قومیتوں اور فرقہ واریت کی بنیاد پر خانہ جنگی کراکے عرب اور مسلم ملکوں کو بلقان کی طرح چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی امریکی اور اسرائیلی سازش اور منصوبے بہت پہلے سے تیار تھے۔
مغربی اور امریکی مآخذ سے آنے والی ان چشم کشا دستاویزات کو بنیاد بناکر ہمارے دیرینہ دوست اور تحقیق کار جناب ثروت جمال اصمعی نے اس کتاب میں عالمِ اسلام کا مؤقف اور مقدمہ عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کیا ہے۔ ان کا اسلوب سادہ، منطقی، غیر جذباتی اور ہر انصاف پسند کو اپیل کرنے والا ہے۔ انہوں نے نہ صرف مغربی رائے عامہ کو مخاطب کیا ہے بلکہ دردِ دل کے ساتھ امتِ مسلمہ کو بھی اپنی کمزوریوں پر متوجہ کیا ہے۔
میری نظر میں یہ بہت مفید مطالعہ تیار ہوگیا ہے۔ انگریزی زبان میں انصاف پسند مغربی اسکالرز نے بہت سے کام کیے ہیں جو نہایت قابلِ قدر ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر ان کاموں سے استفادہ کرتے ہوئے دیگر مطالعات بھی تیار ہوں۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ آئندہ پیش آنے والے نئے واقعات، نئے حوادث اور نئے انکشافات مسلمانوں کے اس مقدمے کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے نئے دلائل فراہم کرتے رہیں گے اور بالآخر دنیا میں انصاف اور عدل ہی کی بالادستی ہوگی‘‘۔
جناب ثروت جمال اصمعی اس نظرثانی شدہ ایڈیشن کے ابتدائیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اس کتاب کا پہلا ایڈیشن مقبول ہوا اور جلد ہی فروخت ہوگیا۔ دوسرا نظرثانی شدہ ایڈیشن اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ پہلے ایڈیشن کی طباعت کے بعد موضوع کے حوالے سے پیش آنے والے چند اہم واقعات و حالات مثلاً امریکہ میں قیادت کی تبدیلی، پاکستان میں پرویزمشرف حکومت کا خاتمہ اور بغیر پائلٹ جہازوں کے ذریعے حملے وغیرہ کا نئے ایڈیشن میں احاطہ کیا گیا ہے، کچھ امور پر نئے تبصروں اور تجزیوں کا اضافہ کیا گیا ہے، کچھ ابواب کی ترتیبِ نو کی گئی ہے، نیز کچھ نئے حوالہ جات سے مزین کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے ذریعے کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کے پروپیگنڈے کی حقیقت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلامی دنیا میں مغرب کی استعماری قوتوں کی جانب سے اپنے مفادات کے حصول کی عیارانہ مہم کے حوالے سے اہم دستاویزی اور واقعاتی حقائق کو ایک جگہ جمع کردیا جائے۔ بلاشبہ یہ کوئی حتمی کاوش نہیں ہے۔ اس سمت میں کام کرنے کی بے پناہ گنجائش ہے۔ اس جائزے میں واقعاتی ثبوت و شواہد کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام عالمی استعماری طاقتوں نے مسلم دنیا میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے لگایا ہے۔ وہ اس کی آڑ میں مسلم ممالک کے وسائل پر غاصبانہ قبضے کے لیے کوشاں ہیں اور اس کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر مختلف اسلامی ملکوں میں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہی ہیں۔ یہ کھیل خود اہلِ مغرب کے لیے بھی انتہائی تباہ کن ہے۔ ظلم اور بے انصافی سے دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انسانیت کی پائیدار ترقی اور خوش حالی کے لیے اس ظلم اور بے انصافی کا بند کیا جانا اور معاملات کا عدل و انصاف اور سچائی کی بنیاد پر طے کیا جانا ضروری ہے۔ لہٰذا مغرب کے لوگوں کو اپنے حکمرانوں کی جانب سے عالمِ اسلام میں جاری استحصالی اور غیر منصفانہ پالیسیوں کو بدلوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اس کتاب کے ذریعے عالم اسلام کا مقدمہ عالمی ضمیر کی عدالت میں اس توقع کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ عالمی برادری دہرے معیارات سے بالاتر ہوکر اسے سچائی اور انصاف کی کسوٹی پر جانچے گی، اور اس کا فیصلہ ظلم کے حق میں نہیں ہوگا۔،بلکہ مغرب کے لوگ رائے عامہ کی طاقت سے اپنے حکمرانوں کو دنیا بھر میں منصفانہ پالیسیاں اپنانے پر آمادہ کریں گے‘‘۔
جناب ثروت جمال اصمعی کا یہ تجزیہ درست ہے کہ اسی خیال کو مرکز بناکر انہوں نے یہ بہترین کتاب مرتب کی ہے:
’’مغربی پالیسی سازوں نے ایک مدت سے مسلمانوں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے۔ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی جیسے الزامات کے بعد گزشتہ کئی برس سے دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر انہیں عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی الزام میں مسلم ملکوں کو تاخت و تاراج کیا جارہا ہے اور ان کی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ الزامات وہ طاقتیں لگارہی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے سو فیصد جائز حقوق علی الاعلان غصب کر رکھے ہیں۔ یہ طاقتیں اپنی ظالمانہ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج اور مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اپنی غاصبانہ کارروائیوں کے لیے جواز مہیا کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔ تاہم وقت نے ان کے الزامات کا سراسر کھوکھلا ہونا پوری طرح ثابت کردیا ہے۔ یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوچکی ہے کہ عالم اسلام کے خلاف مغربی پالیسی سازوں کی جارحانہ کارروائیاں کسی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے نہیں بلکہ اس کے وسائل پر قبضے کے لیے ہیں۔ یہ عالمی سرمایہ داری کی جنگِ زرگری ہے، جسے دہشت گردی کے جعلی نعرے کی آڑ میں مسلمانوں پر مسلط کیا گیا ہے۔ تاہم انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ بیشتر مسلم ملکوں کے حکمراں مسلمانوں کے خلاف جاری اس عیارانہ مہم کی حقیقت دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے بجائے مغربی پالیسی سازوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور ان ہی کی بولی بول رہے ہیں‘‘۔
13 ابواب کا مختصر تذکرہ ذیل میں ہے:
پہلا باب: مسلمان ظالم نہیں، مظلوم ہیں، ان کی مزاحمت اپنے جائز حقوق کے لیے ہے
دوسرا باب: مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام، سفید جھوٹ کیسے گھڑے جاتے ہیں، چند مثالیں
تیسرا باب: پنٹاگون کا اعترافِ حقیقت: ’’مسلمان ہماری جمہوری آزادیوں سے نہیں، استعماری پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں‘‘
چوتھا باب: ریاستی دہشت گردی اور مسلمان۔ غاصب قوتوں سے آزادی مانگنے پر وہ ریاستی ظلم و ستم کا شکار ہیں
پانچواں باب: مسلم ملکوں کی توڑ پھوڑ کے منصوبے۔ دہشت گردی کا حیلہ ان کی تکمیل کے لیے تراشا گیا
چھٹا باب:نائن الیون حملے امریکی سازش تھے، محققین اور سائنس دانوں کی گواہی
ساتواں باب: طالبان سے امریکہ کی ناراضی کا اصل سبب، امریکہ کو کیسپین کے تیل تک پہنچنے کا موقع نہ دینا تھا
آٹھواں باب: عراق پر تسلط کا منصوبہ برسوں پہلے بنایا گیا۔ تیل کے ذخائر ہتھیانا اور صہیونی منصوبے کی تکمیل اصل مقصد ہے
نواں باب: مسلم دنیا میں مغرب آمروں کا سرپرست کیوں؟ مسلم ممالک کی حقیقی قیادتوں سے مغرب کی مفاہمت ناگزیر ہے
دسواں باب: قرآن اور دہشت گردی۔ قرآنی آیات پر مغرب کے عمومی اعتراضات کا جواب
گیارہواں باب: اسلام اور مغرب کے تعلقات کی درست بنیاد۔ مغربی عوام دنیا میں قیامِ انصاف کو اپنا مشن بنائیں۔
بارہواں باب: حماقت کی قیمت۔ ناجائز جارحیت کے نقصانات جو امریکی قوم کو اٹھانے پڑ رہے ہیں
تیرہواں باب: امتِ مسلمہ کا مقدمہ اور مسلمان۔ مسلمان حکومتوں، اسلامی تنظیموں اور اہلِ فکر و دانش کی ذمہ داریاں
یہ کتاب اس قابل ہے کہ ہر پڑھے لکھے مسلمان کی نظر سے گزرے۔ آئی پی ایس کی کتابیں لاہور میں اسلامک پبلی کیشنز منصورہ اور کراچی میں فضلی سنز اردو بازار سے مل جائیں گی یا آئی پی ایس پر فون کرکے معلوم کرلیں۔