نجات کا ایک ہی راستہ

ملک میں سیاسی ،سماجی اور معاشی بحران ہے۔ریاست آئی ایم ایف کی غلام بنی ہوئی ہے،قانون اور انصاف طاقتور اشرافیہ ،نودولتیوں، اور حکمراں کے آگے بکتااور بازاری طوائف بن کرننگا ناچ رہا ہے۔یہ ایک انتہائی خوفناک صورتحال ہے پاکستان کی عوام بدحال ہیں ،زندگی گزارنا ایک چیلنج بن چکا ہے اور انہیں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے.مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، پٹرول کی قیمت میں 30 روپے اضافہ ہوچکا ہے اور یہ اضافہ ابھی بار بار ہونا ہے،وفاقی وزیر خزانہ نے خبردار کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، آئی ایم ایف کو حکومت نے بجلی ٹیرف میں 7 روپے فی یونٹ اضافے کی پہلے ہی یقین دہانی کرادی ہے،ایسے میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی حکومت بھی ایک ہی بات بار بار کہہ رہی ہے کہ ’’ہم نے حکومت سنبھالی تو ہر شعبہ تباہی کی داستان سنا رہا تھا، تین دہائیوں کی عوامی خدمت کے دوران ایسی تباہی میں نے کبھی نہیں دیکھی جو سابق حکومت اپنے پونے چار سال کی بدترین حکمرانی کے بعد پیچھے چھوڑگئی، یہی وجہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو بچانے کا چیلنج قبول کیا۔‘‘
بد قسمتی سے وطن عزیز کے حکمرانوںکی تاریخ یہی رہی ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے پچھلے حکمران سے زیادہ ملک کو بدحال کیا ہے۔یہ کام عمران خان نے اپنی پونے چار سالہ حکومت میںکیا، اور یہی کام اب ن لیگ کی حکومت کررہی ہے اور وزیراعظم شہبازشریف کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم نے حکومت سنبھالی تو ہر شعبہ تباہی کی داستان سنا رہا تھا۔
وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی حکومت قوم کو یہ بتانے کی کوشش اور تاثر دے رہی ہے کہ جیسے نون لیگ کی پچھلی حکومت میں ملک کے عوام سُکھ، چین کے ساتھ زندگی بسر کررہے تھے، نہ انہیں مہنگائی کا مسئلہ تھا، نہ لوگ بے روزگار تھے، اور نہ ہی ملک میں گیس، بجلی اور پانی کا کوئی مسئلہ تھا۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2013ء میں پاکستان پر کُل بیرونی قرضہ48.1 ارب ڈالر تھا جس کو موجودہ وزیراعظم کے بھائی نوازشریف نے اپنے چار سالہ دورِ حکومت میں 62 فیصد بڑھا کر 78.1ارب ڈالر تک پہنچا دیا تھا، اور صرف چار سال میں 30 ارب ڈالر کا ریکارڈ قرضہ لیا تھا۔ اسی طرح 2013ء میں پاکستان کا کُل تجارتی خسارہ 15 ارب ڈالر تھا، جو 2016-17ء میں بڑھ کر 24 ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ 2013ء میں پاکستان کی کُل برآمدات 21 ارب ڈالر تھی، نواز حکومت اس کو بھی برقرار رکھنے میں ناکام رہی تھی۔ آج ڈالر کی قیمت میں اضافے پر شہبازشریف اور اُن کے ماہرینِ معیشت تنقید کررہے ہیں، جبکہ اُن کی ماضی کی حکومت میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال تھی اور روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوکر 92 سے 107روپے پر پہنچ چکی تھی، اور اُس وقت بھی ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ 107روپے پر مصنوعی طور پر روکی گئی ہے، درحقیقت یہ 120روپے تک کم ہوچکی تھی، اور پھر ان کے جاتے جاتے 115روپے تک پہنچ چکی تھی۔
یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ نوازشریف نے جب حکومت سنبھالی تھی تو آئی ایم ایف سے7 ارب ڈالر کا قرضہ لیاتھا، اور اس کے علاوہ اُس وقت بھی روپے کی قدر کو سہارا دینے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی سعودی امداد لی تھی۔
اسی طرح وزیراعظم نے کہا کہ ’’اس نہج پر پاکستان کو گزشتہ حکومت نے پہنچایا۔ پاکستان اور عوام کو معاشی بحران میں سابق حکومت نے پھنسایا۔ گزشتہ حکومت نے سیاسی فائدے کے لیے پیٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھائیں جبکہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں، اس سبسڈی کی قومی خزانے میں کوئی گنجائش موجود نہیں تھی۔ قیمت بڑھانے کا یہ فیصلہ پاکستان کو معاشی دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے ناگزیر تھا۔‘‘
آج جن باتوں پر وزیراعظم شہبازشریف عمران خان کی حکومت کو مجرم قرار دے رہے ہیں ماضی کی نواز حکومت کے دور میں ان کی خوش نصیبی تھی کہ اُس وقت عالمی منڈی میں تیل کم ترین قیمت پر مل رہا تھا، لیکن اس کا فائدہ نون لیگ کی حکومت نے عوام تک نہیںپہنچنے دیا، اور عوام اُس وقت کی قیمتوں کے لحاظ سے مہنگا پیٹرول ہی خرید رہے تھے۔ ہمارا بحیثیت قوم حافظہ کمزور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے ماضی کے دور میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں جس طرح بڑھی تھیں اس کی اُس سے قبل تاریخ میں مثال نہیںملتی تھی۔ یہ وہی دور تھا جب زرعی پیداوار حکومتی پالیسی کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی تھی، کسان سڑکوں پر آگئے تھے، انہوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے احتجاج اور مظاہرہ کیا تو نواز حکومت نے ڈنڈے برسائے تھے۔ آج یہ بجلی میںکمی کا ذمے دار عمران خان کی حکومت کو ٹھیراتے ہیں،اس حقیقت سے انکار نہیںکہ عمران خان نے بھی باتوں کے سوا کچھ نہیںکیا، لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ نواز حکومت میں بھی عروج پر تھی، لوگ سسک اور بلک رہے تھے۔ یہ بھِی تاریخ کا حصہ ہے کہ پہلی بار نواز حکومت کے دور میں ہی گرمیوں میں لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت کی وجہ سے صرف کراچی میں 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے، اجتماعی قبریں بن گئی تھیں، شہر کے مُردہ خانوں میں لاشیں رکھنے کی گنجائش بھی ختم ہوگئی تھی، جبکہ تھرپاکر میں بھی غذائی قلت سے سالانہ سیکڑوں بچے مررہے تھے۔ اُس وقت قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے کہا تھا کہ ’’اگر لوڈشیڈنگ نہ ہوتی تو اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں سے بچا جا سکتا تھا‘‘۔ واضح رہے یہ وہی خورشید شاہ ہیں جو آج نواز لیگ کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان حقائق سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کے مسائل جوں کے توں رہنے کی وجہ صرف ایک ہے کہ ان میں سے کوئی بھی پاکستانی عوام کا نمائندہ نہیںہے، اور یہ سب ایک جیسے ہی ہیں۔
اس صورتِ حال میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس تیزی سے غریب اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے ملک میں کوئی بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے ،ایسے میں نجات کا ایک ہی راستہ ہے پاکستان کے غریب اور متوسط عوام کی ضرورت کے مطابق حکمت عملی اور پالیسی بنائی جائے اور آئی ایم ایف اور عالمی اداروں کے چنگل سے نکلنے کے لیے دوررس اقدمات کیے جائیں۔
( اے اے سید )