جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں ابھی کورونا ختم نہیں ہوا کہ ایک اور بیماری تیزی کے ساتھ سر اٹھارہی ہے، جس کا نام مونکی پاکس ہے۔ ”مونکی پاکس“ وائرس کے پاکس وائری ڈائے (Poxviridae) خاندان سے تعلق رکھتا ہے، اس کو مزید 2 ذیلی خاندانوں میں ماہرین نے تقسیم کیا ہے۔ مجموعی طور پر اس خاندان میں وائرس کی 83 اقسام ہیں۔ یہ چکن پاکس کی طرح کی بیماری ہے جو یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ جن ممالک میں انفیکشن کے کیس رپورٹ ہوئے ان میں فرانس، بیلجیم، جرمنی، آسٹریلیا، اسپین، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔
دنیا کے16ممالک میں اس کم یاب وائرس کے تیزی سے پھیلنے سے ماہرینِ صحت تشویش میں مبتلا ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے یہ وائرس صرف افریقی ممالک میں نظر آتا تھا۔ پہلی بار یہ وائرس افریقی ممالک سے نکل کر باقی دنیا میں بھی پھیل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے زیادہ اہم اور تشویش کی بات ماہرین کی نظر میں یہ ہے کہ مونکی پاکس کی تشخیص ایسے افراد میں بھی ہورہی ہے جو کبھی افریقہ گئے ہی نہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس یورپ اور امریکہ کے اندر بھی پھیل چکا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے کسی بڑی آبادی کو نقصان پہنچنے کا فی الحال خطرہ موجود نہیں۔
مونکی پاکس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والا وائرس ہے۔ یہ بندروں، چوہوں اور گلہریوں جیسے متاثرہ جانوروں کے رابطے میں آنے سے بھی پھیل سکتا ہے۔ کہتے ہیں چوہے اس کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس کے علاوہ وائرس سے آلودہ اشیاء جیسے بستر اور کپڑوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس زخموں، جسمانی رطوبتوں اور سانس کے ذریعے بھی پھیلتا ہے اور ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔ مونکی پاکس ایک وائرل انفیکشن بیماری ہے جو بنیادی طور پر وسطی اور مغربی افریقہ کے استوائی بارشی جنگلات میں ہوتی ہے اور یہ اکثر اوقات دوسرے خطوں میں بھی کسی ذریعے سے پھیل جاتی ہے۔ یہ شہروں میں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔
پہلی مرتبہ اس بیماری کی شناخت 1958ء میں ہوئی تھی، ایک تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے بندروں کے جسم پر کچھ پاکس یعنی دانے دیکھے تھے جنہیں مونکی پاکس کا نام دیا گیا تھا۔کیونکہ یہ بیماری دو بندروں کو ہوگئی تھی اسی لیے اس کا نام مونکی پاکس ہوگیا تھا۔
جب کہ انسانوں میں مونکی وائرس کے پہلے کیس کی تشخیص افریقی ملک کانگو میں 1970ء میں ایک نو سالہ بچے میں ہوئی تھی۔ 2017ء میں نائجیریا میں 500سے زائد کیس رپورٹ ہوئے تھے اور تین فیصد اموات کی شرح تھی۔ ستمبر 2018ء میں نائجیریا سے اسرائیل، ستمبر 2018ء میں برطانیہ، دسمبر 2019ء، مئی 2021ء اور مئی 2019ء میں سنگاپور جانے والے مسافروں میں، اور جولائی اور نومبر 2021ء میں امریکہ میں، اور اب مئی 2022ء یہ وائرس ایک بار پھر تیزی سے پھیل رہا ہے ۔
مونکی پاکس کا شکار ہونے والے افراد میں بخار، سردی لگنا، تھکن اور جسم میں درد کی شکایات نمایاں ہوتی ہیں۔ وائرس سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد کو شدید خارش اور جسم کے مختلف حصوں پر دانے نکلنے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک بار جب بخار جاتا رہتا ہے تو جسم پر دانے آ سکتے ہیں جو اکثر چہرے سے شروع ہوتے ہیں، پھر جسم کے دوسرے حصوں، عام طور پر ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوے تک پھیل جاتے ہیں۔ یہ دانے انتہائی خارش والے یا تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔ دانے میں بدلنے سے قبل یہ مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور بعد میں یہ دانے سوکھ کر گر جاتے ہیں، لیکن بعد میں زخموں سے داغ پڑ سکتے ہیں۔ شدید کیسز عام طور پر بچوں میں پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں اس کے اثرات تین سے پانچ ہفتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور عام طور پر اس سے متاثرہ افراد دو سے چار ہفتوں کے درمیان صحت یاب ہوجاتے ہیں، جن میں سے اکثر کو اسپتال جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ عام طور پر متاثرہ شخص کو زیادہ سے زیادہ 21 روز تک دوسرے لوگوں سے میل جول نہیں رکھنا چاہیے ورنہ وائرس منتقل ہونے کے خطرات موجود رہیں گے۔ یہ وائرس 10 میں سے ایک فرد کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے اور بچوں پر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔
ماہرین کو تشویش ہے کہ اس کے متاثرین کی تعداد بڑھ سکتی ہے لیکن وسیع پیمانے پر آبادی کو درپیش خطرہ کم بتایا گیا ہے۔ یورپین سینٹر فار ڈیزیز پریوینشن اینڈ کنٹرول نے دنیا بھر کے ماہرین کو یہ مشورہ دیا کہ مونکی پاکس سے متاثرہ افراد کو آئسولیشن میں رکھا جائے۔ مونکی پاکس کے لیے کوئی مخصوص ویکسین موجود نہیں ہے، لیکن ڈبلیو ایچ او کے مطابق چیچک کا ٹیکہ 85 فیصد تحفظ فراہم کرتا ہے، کیونکہ دونوں وائرس ایک جیسے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ویکسین MVA-BN بھی مونکی پاکس سے بچاؤ میں معاون ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق تقریباً ایک درجن افریقی ممالک میں اس وائرس کے ہزاروں کیسز ہر سال رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے تقریباً 6000 کا کانگو اور 3000 کا تعلق نائجیریا سے ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ہی کے مطابق کسی بھی شخص میں مونکی پاکس وائرس ہے یا نہیں اسے جانچنے کے لیے مؤثر ترین طریقہ پولی میریس چین ری ایکشن (پی سی آر) ٹیسٹ ہے۔ اس مقصد کے لیے متاثرہ شخص کے جسم میں ابھرے دانوں میں بھرے مواد کو بطور نمونہ استعمال کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق Tecovirimat نامی دوا بھی مونکی پاکس کو روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہ چیچک اور مونکی پاکس جیسی بیماریوں کے لیے منظور شدہ دوا ہے۔ البتہ ویکسین اور دوا بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں ہیں اور اگر مونکی پاکس کا پھیلاؤ جاری رہا تو ان دواؤں کی قلت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
بچے، بوڑھے اور حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے والے افراد کو اس وائرس سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ ایک اور اہم بات جو سامنے آئی ہے جو تشویش کو کم کرتی ہے وہ یہ کہ بی بی سی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ”ہم قومی وبا کے دہانے پر نہیں ہیں اور یو کے ہیلتھ سیکورٹی ایجنسی (UKHSA) کے مطابق اس کے پھیلنے کا خطرہ کم ہے۔ ناٹنگھم یونیورسٹی کے مالیکیولر وائرولوجی کے پروفیسر جوناتھن بال نے کہا کہ ”حقیقت یہ ہے کہ مونکی پاکس سے متاثرہ مریض کے 50 رابطوں میں سے صرف ایک ہی متاثر ہوتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وائرس کتنا کم متعدی ہے۔“
عالمی ادارہ صحت کا بھی اس کے پھیلاؤ پر ایک ہنگامی اجلاس میں کہنا ہے کہ اس انفیکشن کے پھیلاؤ کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ اس وبا کو عالمی وبا قرار دے کر ایمرجنسی نافذ کی جائے، جیسے کہ اس سے پہلے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کے لیے لاگو کی گئی ہے۔
پاکستان میں اب تک مونکی پاکس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، البتہ حکومت نے اس حوالے سے الرٹ جاری کردیا ہے۔ پاکستان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے ہدایت دی ہے کہ صحت عامہ سے منسلک تمام قومی و صوبائی حکام مونکی پاکس کے مشتبہ متاثرین کی جانچ کے لیے ہائی الرٹ پر رہیں۔ جبکہ ایئرپورٹس سمیت داخلی راستوں پر مسافروں کی نگرانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔