یہ ایک تلخ حقیقت اور بہت بڑا المیہ ہےکہ ہمارے ہاں کا تعلیمی نظام ازکارِ رفتہ، فرسودہ اور دیمک زدہ ہوچکا ہے، خصوصاً صوبہ سندھ میں نقل یا ’’کاپی کلچر‘‘ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے صورتِ حال اب اس نہج پر آن پہنچی ہے کہ بظاہر اچھے خاصے اور تعلیم یافتہ کہلانے والے افراد بھی روانی اور خوبی کے ساتھ انگریزی توکجا اردو یا سندھی زبان میں بھی ٹھیک سے کوئی تحریر لکھنے پر قادر نہیں ہیں۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم پڑھے لکھے ’’جہلا‘‘ کا ایک ایسا لشکر تیار کرنے میں مصروف ہے جو آگے چل کر معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ ثابت ہوگا۔ جس طرح ’’جعلی نوٹ‘‘ مارکیٹ یا بازار میں نہیں چل سکتا، بعینہٖ دورانِ تعلیم نقل کے بل بوتے پر امتحانات پاس کرکے میدانِ عمل میں قدم رکھنے والے افراد بھی عملی طور پر کسی شعبے میں صحیح معنوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے، کیونکہ ’’جعلی نوٹ‘‘ کی طرح نقل کرکے حاصل کی جانے والی ان کی ’’اسناد‘‘ بھی انہیں کامیابی دلانے میں معاون ثابت نہیں ہوسکتیں۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بذریعہ نقل امتحان پاس کرنے والوں کو اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ صوبہ سندھ میں طلبہ و طالبات جو نصابی کتب پڑھتے ہیں اُن میں اغلاط کی کتنی بھرمار ہے؟ وہ جدید دور کے تقاضوں سے کتنی ہم آہنگ ہیں؟ اس بحث سے قطع نظر ہم آج صرف سندھ میں ’’نقل کی وبا‘‘ کا ہی ذکر کریں گے۔
نقل کی بیماری نے ہمارے طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا ہے اور شدید نقصان سے دوچار کیا ہے، جس کا ادراک حکومتِ سندھ کے متعلقہ ذمہ داران، طلبہ و طالبات، والدین اور اساتذہ میں سے کسی کو بھی نہیں ہے، اور یہ بھی ایک امرِ واقع اور تلخ حقیقت ہے کہ سندھ میں ’’کاپی کلچر‘‘ کو بڑھاوا دینے میں مذکورہ سارے عناصر پوری طرح سے ملوث اور ذمہ دار ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی ایک خوش گوار اور خوش آئند حقیقت ہے کہ سندھ میں دورانِ امتحانات جہاں ایک طرف کھلے عام دھڑلے کے ساتھ نقل کی جاتی ہے، وہیں دوسری جانب سندھ کے نوجوانوں میں شعور اور آگہی نے بھی جنم لیا ہے اور وہ صوبائی یا وفاقی مقابلے کے امتحانات میں حصولِ کامیابی کے لیے شبانہ روز محنت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس کا اندازہ لاڑکانہ کی شاہنواز بھٹو لائبریری سمیت سندھ کے دیگر بڑے شہروں میں قائم لائبریریوں کے باہر صبح سویرے ہی ان کی بڑی تعداد میں موجودگی سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ ہر سال مناسب تعداد میں سندھ کے پسماندہ علاقوں سے نوجوان مقابلے کے امتحانات میں کامیاب ہوکر اعلیٰ عہدوں کے لیے منتخب بھی ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوصف صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ ابھی اس میں بہت زیادہ بہتری اور اصلاح کی ضرورت ہے۔
سندھ میں ہر سال بڑی تعداد میں طبع زاد غیر ملکی اور ملکی زبانوں کے تراجم پر مبنی کتب بھی چھپتی ہیں جو سندھ کی نژادِ نو میں مطالعے سے رغبت کی عکاس ہیں، تاہم صوبہ سندھ میں اسکول تا یونیورسٹی سطح پر جس بڑے پیمانے پر نقل ہوتی ہے اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ’’کاپی کلچر‘‘ کی ایک بدنما اور مذموم اصطلاح کو بھی جنم دے ڈالا ہے۔
آج کل سندھ میں درجہ نہم اور دہم کے امتحانات ہورہے ہیں۔ ان امتحانات میں حسبِ سابق جس طریقے سے سرِعام بے خوف و خطر نقل کرنے اور کرانے کا سلسلہ جاری ہے اس نے سندھ بھر میں ’’تعلیم‘‘ اور ’’امتحان‘‘ کو ایک ظالمانہ مذاق بنا ڈالا ہے۔ حکومتِ سندھ نے قبل از امتحان بظاہر نقل کی روک تھام کے لیے امتحانات کے لیے مختص اسکولوں کی حدود میں دفعہ 144 کا نفاذ بھی کرنے کا اعلان کیا تھا اور درجنوں کی تعداد میں ویجیلنس کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی تھیں، لیکن نیم دلی کے ساتھ اٹھائے گئے یہ سارے اقدامات شدید ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں۔ سندھ بھر کے تمام بورڈز کے زیر اہتمام منعقدہ نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات میں حسبِ روایت امسال بھی ہر مضمون کا امتحانی پرچہ ہر روز ہی قبل ازوقت آئوٹ ہونے کی اطلاع سامنے آتی ہے، لیکن اس گھنائونے عمل میں ملوث ذمہ داران کے خلاف تادمِ تحریر کہیں بھی کوئی تادیبی کارروائی کیے جانے کی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔ طلبہ و طالبات، اساتذہ اور والدین نے باہم مل کر ’’واٹس ایپ گروپ برائے نقل‘‘ امتحانات سے قبل ہی تشکیل دے دیئے تھے۔ ماضی میں بذریعہ ’’گائیڈ‘‘ یا ’’فوٹو اسٹیٹ کاپی‘‘ طلبہ اور طالبات کو نقل کروائی جاتی تھی، لیکن اب اس مکروہ اور گھنائونے عمل میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدت آگئی اور شاگرد اپنے اپنے موبائل فون پر کامل اطمینان اور یک سوئی کے ساتھ بذریعہ واٹس ایپ نقل کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ جو شاگرد اثررسوخ کے حامل ہیں یا صاحبِ حیثیت ہیں انہیں تو ’’امتحان ہال‘‘ میں آنے یا امتحان دینے کی ’’کوفت‘‘ بھی اٹھانی نہیں پڑتی، اور وہ امتحانی عملہ کی ملی بھگت سے اپنی جگہ پر کسی اور سے امتحانی پرچہ حل کروا لیتے ہیں، یا پھر دل جمعی کے ساتھ اپنے گھر میں بیٹھ کر پرچہ حل کرنے کے بعد اپنی امتحانی جوابات کی کاپی متعلقہ سینٹر پر اپنے ملازم کے ہاتھوں بھجوا دیتے ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی ہے اور نہ ہی افسانہ طرازی، بلکہ صد فیصد چشم دید تلخ حقائق ہیں۔ ’’کاپی کلچر‘‘ کی اس فضا اور نقل کے ایسے ماحول میں اگر کوئی ’’بے چارہ استاد‘‘ غلطی سے شاگردوں، والدین یا پھر اپنے ہم پیشہ اساتذہ کو اپنے تئیں فرض شناسی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ’’نقل کے نقصانات‘‘ سے آگاہ کرکے اس مکروہ عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ سب کے لیے ’’نکو‘‘ اور ’’مذاق‘‘ بن کر رہ جاتا ہے۔ الٹا اسے ’’شاگرد دشمن‘‘ قرار دے کر اپنی مدافعت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، اور طلبہ سمیت دیگر اساتذہ اور والدین مل کر اس کی شدید مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ نقل روکنے کے لیے قائم کردہ متعلقہ امتحانی بورڈز یا حکومتِ سندھ کی مقرر کردہ خاص ٹیمیں امتحانی سینٹرز میں جانے کے بجائے ان مراکز کے ذمہ داران کے ہاں دفاتر میں کچھ دیر بیٹھ کر کھانا وغیرہ کھا کر اپنے ٹی اے ڈی اے کا ڈائری میں اندراج کراکے رخصت ہوجاتی ہیں۔
سندھ میں نقل کے اس سلسلے کی ابتدا کب سے ہوئی؟ واقفانِ حال اور سینئر ماہرینِ تعلیم کے مطابق اس گھنائونے اور بدنما عمل کا باقاعدہ آغاز سابق صدر ایوب خان ’’سندھ میں ’’کاپی کلچر‘‘ کی دیمک/اسامہ تنولی
کے دورِ اقتدار میں مخصوص مفادات کے حصول کی غرض سے ہوا، اور پھر ہر آنے والی حکومت میں اسے فروغ ملتا گیا۔ صرف ایک برس کے لیے سابق وزیراعلیٰ سندھ اختر علی جی قاضی اور سابق صدر پرویز مشرف کے عہدِ حکومت کے پہلے سال اس پر کامل پابندی دیکھنے میں آئی۔ اس مکروہ عمل کو بڑھاوا دینے میں اوپر لکھے گئے عناصر کے علاوہ سندھ کے حقوق کے حصول کے نام نہاد علَم برداروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بلکہ سندھ میں تعلیم کی تباہی میں ان کے کردار کو مستقبل کا مؤرخ کبھی نظرانداز نہیں کرسکے گا۔
سندھ میں بڑے پیمانے پر نقل ہوتی ہے۔ ہر سال ہوتی ہے اور ہر امتحان میں ہوتی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس مکروہ عمل پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوتی ہے اور نوجوانوں کے لیے زہر قاتل اس گھنائونے فعل کو روکنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ’’کاپی کلچر‘‘ کا تاحال مؤثر خاتمہ کیوں عمل میں نہیں لایا جاسکا ہے؟ راز ہائے درونِ خانہ سے واقف حضرات اس کے پسِ پردہ بہت سارے حکومتی وقتی ادنیٰ مفادات، عوامل اور مصلحتوں کو بیان کرتے ہیں۔ حکومت اگر نقل کرنے پر سختی سے پابندی عائد کردے تو بڑی تعداد میں شاگرد فیل ہوں گے جس کی وجہ سے حکومت کی شعبہ تعلیم میں نااہلی پر مہرِ تصدیق ثبت ہوجائے گی۔ حکومت کی عوامی حمایت میں کمی واقع ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ… یعنی محض معمولی، ادنیٰ مفادات اور عارضی فوائد کے حصول کے لیے سندھ کی تعلیم اور نسلِ نو کو تباہی سے دوچار کیا جارہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔