سیاست میں ایک عمومی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حزب اختلاف مستقبل کی حکومت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سیاست میں ایک متبادل حکومت کے طو رپر دیکھاجاتا ہے۔ لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ ایک طرف حکومتی طبقہ کی جانب سے حکمرانی کا بحران اور دوسری طرف کمزور اور بغیر تیاری یا ہوم ورک کے طو رپر حزب اختلاف کا مجموعی کردار۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں سیاسی و حکومتی تبدیلی کے بعد آنے والی نئی سیاسی مخلوط حکومت کو ابتدا ہی میں سنگین سیا سی و معاشی بحران کا سامنا ہے۔ حالانکہ نئی حکومت میں شامل جماعتیں جب حزب اختلاف کی سیاست کا حصہ تھیں تو ان کا سیاسی دعویٰ یہی تھا کہ وہ ہی اس بحران کا خاتمہ کرسکتے ہیں او راس بحران کے خاتمہ کے لیے ان کے پاس ایک مضبوط اور مربوط نوعیت کا روڈ میپ موجود ہے۔ اس حکومت کے سابقہ عمران خان حکومت پر دو ہی سنگین نوعیت کے الزامات تھے۔اول ان کو بطور سلیکٹیڈ حکمران کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ دوئم یہ نااہل، نکمے اور نالائق لوگ ہیں او ران کے پاس ملک کو بہتر طور پر چلانے کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔
لیکن اب نئی شہباز شریف حکومت کو حکومتی امو رکو چلانے میں سنگین نوعیت کے سیاسی، انتظامی او رمعاشی چیلنج درکار ہیں۔ وہ ان مسائل کو سابقہ عمران خان کی حکومت پر ڈال کر خود کو سیاسی طو رپر بچانا چاہتے ہیں۔ان کے بقول حالیہ معاشی مسائل اس حد تک سنگین ہیں کہ ہم فوری طور پر نہ تو ان کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں او رنہ ہی سخت معاشی فیصلے کرکے ہم لوگوں پر ایک بڑا معاشی بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں۔حکومتی طبقہ کا الزام ہے کہ سابقہ حکومت موجودہ حکومت کے لیے معاشی سرنگیں ڈال کر گئی ہے تاکہ ہم معاشی طور پر نہ تو حالات کا مقابلہ کرسکیں او ر نہ ہی ہم حکومت کو بہتر طور پر چلاسکیں۔سیاست میں یہ ایک ایسی دلیل ہے جو ہر نئی آنے والی حکومت بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے اور اپنی ناکامی کو سابقہ حکومت پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔حالانکہ جب آج کی حکومت نے عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش او ر خود کو متبادل حکومت کے طو رپر پیش کیا تو ان کو یقینی طور پر احسا س ہوگا کہ ملکی معیشت کہاں کھڑی ہے اور اگر ہمیں یہ اقتدار ملتا ہے توہماری سیاسی و معاشی حکمت عملی کیا ہوگی۔لیکن لگتا ایسا ہے کہ آج کی حکومت میں شامل تمام جماعتوں پر مستقبل کی منصوبہ بندی کے بجائے زیادہ عمران خان دشمنی کا عنصر غالب تھا۔ان کا بنیادی نقطہ عمران خان حکومت کا خاتمہ تھا او راس کے بعد کیا ہوگا او رکیسے حکمرانی کے نظام کو چلایا جائے گا، اس پر غوروفکر نہیں کیا گیا۔
بنیادی طو رپر ہماری سیاست او رحکمرانی کا نظام جذباتیت کی سیاست سے جڑا ہوا ہے اور یہاں حقایق سے زیادہ جذباتیت کی بنیاد پر سیاسی فیصلوں کے ساتھ معاملات کو درست کرنے کے بجائے اور زیادہ خراب کیا جاتا ہے۔شہباز شریف او رمسلم لیگ ن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ لوگ زیادہ تجربہ کار اور صلاحیت والے ہیں اور کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت بھی ان میں موجود ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر شہباز شریف کو سپیڈی حکمران کے طو رپر پیش کیا جاتا تھا۔لیکن اس ابتدائی ایک ماہ کے اقتدار میں ہمیں شہباز شریف بطور وزیر اعظم اور حمزہ شہباز بطور وزیراعلی کی سپیڈ پر مبنی حکمرانی کا نظام دیکھنے کو نہیں مل سکا۔ممکن ہے کہ حکومتی کارکردگی پر نتیجہ قبل از وقت ہوگا اور فوری طو رپر نتائج کی توقع رکھنا بھی درست نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی روڈ میپ نہیں جو حالات کے بارے میں مایوسی او رغیر یقینی کی صورتحا ل کو اجاگر کرتی ہے جو زیادہ تشویشناک ہے۔خود مسلم لیگ (ن) او ران کی حکومتی اتحادی جماعتوں کے بہت سے اہم اراکین نجی مجالس میں اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں عملا اقتدار دے کر کسی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اسی بنیاد پر حالات کا مقابلہ کرنے او ر معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے بجائے اس وقت کی سیاست کا بنیادی نقطہ ’’ نئے اور فوری انتخابات کا مطالبہ ‘‘ہے جس سے کئی حکومتی لوگ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حالات اسی نہج کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ہمیں نئے انتخابات پر مجبور کرسکتے ہیں۔
یہ جو آج حکومت چل رہی ہے اس میں ظاہر ہے کہ حکومت نے عمران خان سے ان کی حکومت لے لی ہے، مگر اب اس حکومت کو کیسے چلایاجائے تو اس کی کیا حکمت عملی یا پالیسیاں ہونی چاہیے اس کا ادراک ہمیں کم نظر آتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ حکمران طبقہ کے بعد ہاتھ پائوں پھول چکے ہیں۔ ان پر واقعی سیاسی او ر معاشی گھبراہٹ طاری ہے یا جن لوگوں نے ہمیں جبر کی بنیاد پر زبردستی اقتدار کی سیاست کی طرف دھکیلا ہے وہ ہمارے دوست کم اور دشمن زیاہ ہیں۔
اس وقت شہباز شریف حکومت کو تین محاذوں پر اسٹیبلشمنٹ کی یا فیصلہ کن قوتوں کی مدد درکار ہے۔ اول وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں جو سخت گیر بڑے معاشی فیصلے کرنے ہیں ان میں اول ہماری اتحادی جماعتیں اور بشمول اسٹیبلشمنٹ ہماری مد د کرے او رجو بھی فیصلہ ہوں گے اس میں سب کو اس کی ملکیت لینی ہوگی۔ دوئم وہ اسٹیبلشمنٹ سے مدد مانگ رہے ہیں کہ اگر واقعی اس نظام کو 2023کے انتخابات تک محدود کرنا ہے اور فوری انتخابات سے بچنا ہے تو پھر ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے حلقہ ضمانت دیں کہ وہ اس نظام کو تسلسل کے ساتھ چلنے دیں گے او رجو بھی سیاسی، انتظامی اور قانونی رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔ سوئم وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنا خاصہ مشکل کام ہے او راس سلسلے میںاسٹیبلشمنٹ کھل کر ان کی حمایت کرے یا ان کی پشت پر کھڑی ہو اور فوری انتخابات کا مقابلہ یا عمران خان کی مزاحمتی سطح کی تحریک سے انتظامی بنیادوں پر نمٹے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف حکومت چلانے کے لیے ایک طرف نواز شریف کے فیصلوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں تو دوسری طرف ان کی نظریں اسٹیبلشمنٹ پر ہیں جو داخلی محاذ پر ان کو ریلیف دے۔نواز شریف او رشہباز شریف کو اس بات کا یقینی طو رپر احساس ہے کہ اتحادی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی سے زیادہ توقعات نہ رکھی جائیں او رنہ ہی وہ اس مشکل صورتحال میں حکومت کو بچا کر خود کو کسی بڑی مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت یاتو سیاسی طور پر ٹریپ ہوئی ہے یا ان کی عقل و فہم عمران خان دشمنی تک ہی محدود تھی اور کسی سطح پر یہ اندازہ ہی نہیں کیا جاسکا کہ حالات کی نہج کیا ہے اور اگر ہم اس بحران سے نمٹنے میں ناکام ہوتے ہیں تو اس کے سنگین سیاسی نتائج ہمارے خلاف کیا ہوسکتے ہیں۔شہباز شریف کی طاقت پنجاب کی سیاست ہے یہاں ان کے بیٹے حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ توبن گئے مگر عملا صوبہ میں سیاسی، انتظامی او رقانونی یا آئینی بحران کا سامنا ہے۔آج کی حکومت میں شامل تمام جماعتیں عمران خان کے اقتدار کے بعد کی سیاست کے معاملات کو سمجھنے یا ان کی مزاحمت کو جانچنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے حکمران طبقات نے جو سیاسی مہم جوئی کی وہ ان کو سیاسی فائدہ دینے کے بجائے ان کے لیے اور زیادہ مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنی ہے۔ سب جانتے ہیں عمران خان کی حکومت کے خاتمہ میں اس وقت کی حزب اختلاف او رآج کی حکومت کا معاملہ بھی محض جذباتیت کی سیاست ہی سے جڑا ہوا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی پنڈت آج کی حکومت کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ جب حالات کو کنٹرول نہیں کرنا تھا یا اقتدار سنبھالنے کے باوجود حالات ان کے قابو میں نہیں آنے تھے تو پھر اس ساری مہم جوئی یا سیاسی پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ کون سے محرکات یا عوامل یا افراد یا ادارے تھے جو آپ کو مجبور کررہے تھے کہ اس مہم جوئی کا حصہ بن کر اقتدار میں شامل عمران خان کو باہر نکالا جائے۔