کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر معروف کالم نگار دستگیر بھٹی نے اپنے زیر نظر کالم میں سندھ اور پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں بروز اتوار 15 مئی 2022ء کو جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیشِ خدمت ہے:
’’ہم اس ملک پاکستان کے کروڑوں مسکین اور غریب افراد برس ہا برس سے تواتر کے ساتھ یہ دل دہلانے اور جگر کو سوختہ کرنے والی خبریں سن سن کر اور ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھ دیکھ کر جیتے جی مر گئے ہیں۔ جب بھی کوئی نئی خبر آتی ہے تو اس کی صرف بوتل ہی نئی ہوتی ہے البتہ اس بوتل میں موجود دوا کا نسخہ وہی پرانا ہوتا ہے۔ ہزاروں بار دہرایا ہوا روح کو رنجیدہ اور افسردہ کردینے والا یہی ایک جملہ سننے میں آتا ہے کہ ’’پاکستان انتہائی نازک صورت حال سے دوچار ہے۔‘‘
ہمارے ملک کی یہ نازک صورتِ حال نسل در نسل محنت کش عوام اور کسان، مرد و خواتین تو سنتے اور دیکھتے رہے لیکن حالات شاید اس قدر نازک اور ناگفتہ بہ ہیں کہ ان میں بھی ہمارے کنگال حکمران اسٹیل بنانے والے کارخانوں‘ شوگر ملوں‘ پیٹرول پمپوں ہی نہیں بلکہ ان کے ذخائر‘ اناج کے شاہی گوداموں‘ چاول چھڑنے کے کارخانوں‘ لاکھوں ایکڑ پر محیط سرکاری زمینوں‘ ستر ستر منزلہ محلات‘ دبئی سے لے کر یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں چھپائے گئے چوری کے خزانوں اور سری لنکا کی طرح بد سے بدترین ہوجانے والی معیشت پر بھی راج اور حکومت کرنے کے لیے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو اقتدار دلانے کی خاطر پنڈی کی خاک چھانتے رہے ہیں۔
سری لنکا بھی ہمارے ملک کی طرح تھرڈ ورلڈ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے، جہاں پر ایک شخص کی قائم کردہ خاندانی حکومت میں ہونے والی لوٹ مار کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ستائے گئے غریب مسکین افراد نے گزشتہ ہفتے وزیراعظم ہائوس اور دیگر کئی سرکاری عمارات کو آگ لگا دی ہے اور بہت ساری سرکاری املاک کو جلا کر بھسم کر ڈالا ہے۔ عوامی نفرت اور غم و غصے کا ایک منظر میں نے آج تھرپارکر جیسے امن پسند علاقے کے تعلیمی زیور سے آراستہ شہر میں دیکھا جس سے میرا دل باغ و بہار ہوکر رہ گیا۔ یہ ڈیپلو شہر ہے۔ ڈیپلو کی تاریخ میں شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ پڑھے لکھے نوجوانوں نے ٹائروں کو جلا کر خود ملنے والے میرٹ کے مطابق گزشتہ سال سے پرائمری اسکول ٹیچرز کے تقررنامے نہ ملنے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ہم زیادہ تر دیکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہر ضلع میں امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو محکمہ تعلیم کے متعلقہ افسران کے بجائے اس ضلعی ہیڈ کوارٹر کے شہر میں پی پی کے بداطوار اور بدعنوانِ زمانہ رہنمائوں کے ہاتھوں سے اس طرح کے لیٹر (تقرر نامہ) دلا رہی ہے تاکہ کامیاب ہونے والے متعلقہ امیدوار تادمِ حیات ان کے شکر گزار اور احسان مند بن کر رہیں اور آئندہ انتخابات میں انہیں ووٹ سے بھی نوازیں۔ ڈھٹائی اور بے شرمی کی حدود پامال کرنے کے لیے ایک تقرر نامہ دیتے وقت پی پی کے پندرہ سولہ کے قریب رہنما اور افسران میڈیا والوں سے اس انداز میں اپنی تصویریں کھنچوا رہے ہیں گویا یہ تقررنامے حاصل کرنے والے اساتذہ کو ہر ماہ وہ اپنے گھروں سے تنخواہ کی ادائیگی کریں گے۔ شرم نہیں، باقی سب کچھ ہے۔ اساتذہ کی تقرری میں جس طرح سے حکمرانوں نے میرٹ کو پامال کیا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ حیرت ہے جن امیدواروں نے تحریری ٹیسٹ میں پچاسی سے بھی زیادہ مارکس حاصل کیے ہیں انہیں ان کے میرٹ کے مطابق حق دینے کے بجائے ’’ہارڈ ایریاز‘‘ کے بہانے وزرائے کرام نے اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں اپائنمنٹ لیٹرز جاری کرکے اپنی انتخابی مہم چلائی جو نہ صرف غیر قانونی اور ناجائز ہے بلکہ سراسر غیر اخلاقی بھی ہے، بلکہ حکمرانوں نے تعلیمی اداروں میں اخلاقی اصولوں کی جتنے دھڑلے کے ساتھ خلاف ورزی کی ہے وہ بھی چالاکی، عیاری اور مکاری سے بھرپور ہے۔ مثلاً آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے قریب سندھیوں اور بلوچوں کی قدیم آبادی کے حامل علاقے میں یعنی بیچ شہر شانتی نگر میں ایک سو سال پرانے اسکول کو ایک بلڈر کے ہاتھوں بڑی خاموشی کے ساتھ خفیہ انداز میں فروخت کر ڈالا ہے جس کی زمین کی قیمت سوشل میڈیا پر اربوں روپے بتائی جارہی ہے۔ اس غیر قانونی کام کی تکمیل کے لیے ڈیڑھ ماہ قبل ایک بلڈر کو چھٹی کے روز یعنی اتوار کے دن اسکول اور اس کا بڑا میدان دکھانے کی خاطر شانتی نگر لایا گیا۔ وہ اپنے تئیں یہ سمجھے ہوں گے کہ تعطیل کا دن ہے اس لیے اسکول آنے والے طلبہ بھی آج موجود نہیں ہوں گے، اور نہ ہی اسکول کے اساتذہ اور دوسرے اسٹاف سے سابقہ پڑے گا، اس لیے یہ پلاٹ فروخت کرکے سندھ کے اصل حاکم کو اربوں روپے بلڈر سے دلا دیں گے اور اس طرح سے ہماری نوکری بھی پکی ہوجائے گی اور پھر محکمہ تعلیم کو مزید لوٹنے کے لیے ہمارے لیے بھی سارے دروازے وا ہوجائیں گے۔ اگرچہ اس واقعے کی وڈیو بناکر کچھ پڑوسیوں نے وائرل کردی تھی، لیکن سندھ کے ہمارے حکمران اس طرح کی کسی بھی احتجاجی وڈیو کی مطلق پروا نہیں کرتے، کیوں کہ وہ سندھیوں کے قومی اداروں اور املاک کو اپنے آبا و اجداد کا مال سمجھ کر بیچ ڈالنے کی دیرینہ عادت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ آج بھی سوشل میڈیا پر میں نے ایک نیا تعمیر کردہ اسکول دیکھا جو گزشتہ دس برس سے صرف اس لیے بند پڑا ہوا ہے کہ محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتا یہاں پر اساتذہ تعینات کرنے سے احتراز برت رہے ہیں۔ غضب ملاحظہ کیجیے کہ جہاں پر اسکول قائم کیے گئے ہیں وہاں اساتذہ نہیں ہیں، اور جہاں اساتذہ موجود ہیں وہاں پر اسکولوں کے بجائے درختوں کے نیچے یا پھر جھونپڑیوں میں ہم معصوم بچوںکو پڑھتے دیکھتے ہیں۔ اتنی بڑی بدانتظامی پہلے تو کبھی نہیں تھی جو ہم پی پی کی بدترین حکمرانی کے موجودہ دور میں دیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ دس برس سے بند پڑے ہوئے اس شاندار اسکول کو امن آباد نامی ایک چھوٹے سے شہر کے باشندوں نے سید قائم علی شاہ کی منت سماجت کرکے بنوایا تھا جو آج تک سندھ کے سیکڑوں اسکولوں کی طرح ویران پڑا ہے، کیوں کہ سندھ سرکار یہاں بچوں کو پڑھانے کے لیے اساتذہ کو بھرتی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
مبتلائے حیرت کردینے والی حقیقت یہ ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے زیادہ سے زیادہ احتجاج ضلع تھرپارکر میں ہورہے ہیں۔ حال ہی میں سندھ سرکار کی طرف سے ہائر سیکنڈری اسکولوں میں طلبہ سے گردن توڑ فیسیں بٹورنے کے فیصلے کے خلاف بھی صادق فقیر بوائز ڈگری کالج کے طلبہ کی جانب سے کالج گیٹ تا مٹھی پریس کلب ایک احتجاجی ریلی نکال کر فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔ شاگرد رہنمائوں کشور جگ پال لولکانی، دسرت جئے پال، اجیم داس، فہیم جھنجھی اور دیگر کا کہنا تھا کہ مفت میں تعلیم دینے کی دعوے دار حکومتِ سندھ کی جانب سے ہائر سیکنڈری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات سے بھاری فیسیں بٹورنے کا عمل غیر قانونی اور شاگرد دشمنی پر مبنی ہے۔پاکستان کے آئین کے مطابق ہر طالب علم کو مفت تعلیم ہائر سیکنڈری تک مہیا کرنا حکومت کا فرض ہے، اس کے برعکس سندھ کے تمام ہائر سیکنڈری اسکولوں میں 2,500 تا 3,000 روپے فیس وصول کی جارہی ہے۔ طلبہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عمل محنتی، غریب اور مسکین طلبہ کو پیچھے دھکیلنے کی سازش ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ اگر ہم سے لی گئی فیسیں فوراً واپس نہ کی گئیں تو بطور احتجاج ہم مٹھی کے مین روڈ کو بند کردیں گے۔
اسی طرح سے سندھ کی یونیورسٹیوں میں بھی جس ظالمانہ طریقے سے فیسیں بڑھاکر غریب افراد کی اولاد کو مجبور کرکے ناجائز فیسیں بٹوری جا رہی ہیں یہ بھی ایک قابلِ مذمت فعل ہے۔ سندھ یونیورسٹی نے مختلف شہروں میں اپنے جو کیمپس قائم کیے ہیں ان میں بھی اقربا پروری کی بہت زیاد شکایات سامنے آرہی ہیں۔ قابلِ احترام اساتذہ کے بجائے مجرمانہ ذہنیت کے منتظم اور پرووائس چانسلر مقرر کرکے اداروں کو بنانے سے پہلے ہی سیاسی سفارشوں کی بنیاد پر گرانے کا کام شروع کیا جا چکا ہے۔ مثلاً نامور استاد اظہر علی شاہ پرووائس چانسلر ہیں جنہوں نے دادو سے منتخب رکن قومی اسمبلی رفیق جمالی سے عرض کیا کہ سندھ سرکار سے کیمپس میں مطلوبہ کلاسوں اور دفاتر کی تعمیر کے لیے رقم دلائیں، لیکن جمالی تو گورکھ ہل اسٹیشن کے راستوں کے پیسے ہی ہر سال ہڑپ کرلیتے ہیں اس لیے انہوں نے کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔ بالآخر دوسرے منتخب نمائندوں نے سید مراد علی شاہ پر زور دیا کہ دادو میں سندھ یونیورسٹی کا کیمپس منظور کرنے کے لیے بجٹ منظور کیا جائے۔ محض 15 کروڑ روپے منظور کیے گئے ہیں جنہیں ہضم کرنے کی خاطر ایم این اے جمالی اب اپنے ایک قریبی ساتھی کو پرووائس چانسلر مقرر کروانے اور دیانت دار شخص اظہر علی شاہ کو ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں سے یہ مذاق بند ہونا چاہیے۔ رفیق جمالی جو زرداری صاحب کے حکم پر گورکھ ہل اتھارٹی کے چیئرمین مقرر ہوئے، انہیں سندھ یونیورسٹی کے دادو کیمپس سے چیرہ دستی کرنے کے بجائے سب سے پہلے تو گزشتہ دس برس سے ملنے والے گورکھ جبل (پہاڑ) منصوبے کے چالیس ارب روپے کا حساب دینا چاہیے، کیوں کہ دس برس میں یہاں پر وہ ایک راستہ بھی نہیں بنوا سکے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بدانتظامی اور کرپشن کے مرض نے سندھ یونیورسٹی کو بھی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح مالی مشکلات میں مبتلا کرکے بینکوں کا مقروض بنا ڈالا ہے۔ اگر دادو کیمپس کے 15 کروڑ روپے میں بھی پی پی کے بدنام رہنمائوں نے گھپلا کر ڈالا تو دادو کیمپس کا حال بھی ویسا ہی ہوگا جیسا گورکھ ہل اسٹیشن منصوبے کا چودہ سال سے ہوتا چلا آرہا ہے۔
پس نوشت: ہم جب ملکی معیشت کی بدحالی اور سیاسی لڑائی جھگڑوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے اندر گڑبڑ اور ابتری کا ہونا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ہفتے کو سیالکوٹ میں پنجاب حکومت نے جس طرح سے تحریک انصاف کے جلسۂ عام کا انتظام درہم برہم کرکے اُس کے کارکنان کو پولیس سے گرفتار کروایا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کے عوامی اجتماعات سے ڈر چکی ہے۔ اس طرح کی حرکتوں سے فساد برپا ہوگا جس سے خانہ جنگی کے آثار دیکھنے میں آتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بھی سری لنکا کی مانند بدبختی یہ ہے کہ کروڑوں افراد کے ہاں دو وقت کا کھانا کھانے کی سکت بھی نہیں ہے، اور سری لنکا کی طرح عوا م کنگال اور سیاسی جماعتوں کے لیڈر خوش حال اور مالامال ہوگئے ہیں۔‘‘