نواں باب
میں یہ مقدمہ پیش کرتا رہا ہوںکہ ہمیں صفر کاربن اخراج تک پہنچنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے ہمیں جدتیں درکار ہیں۔ مگر یہ جدتیں راتوں رات ممکن نہیں۔ یقیناً گرین پراڈکٹس تک پہنچنے میں ہمیں دہائیاں لگیں گی۔ میں صرف وہ راہ سُجھانا چاہ رہا ہوں جو ہمیں منزل تک پہنچنے میں معاون ہوجائے۔
اس دوران دنیا بھرمیں لوگ، ہرطرح کی آمدنی والے، سب ہی کسی نہ کسی طور بدلتے موسم سے متاثر ہورہے ہیں۔ اس وقت جو بھی زندہ ہے اسے ’’زیادہ گرم‘‘ دنیا کا سامنا کرنا ہوگا۔ سطح سمندر بدلے گی، سیلاب کی راہیں بدل جائیں گی، طوفان نئی صورتیں اختیار کرلیں گے۔ ہمیں پھر سے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اپنے مکانات اور کاروبار میں کیا کچھ تبدیلیاں لائیں۔ ہمیں پاور گرڈز، بندرگاہیں، اور پُل تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ مینگروزکے جنگل اگانے کی ضرورت ہے۔
میں عالمی صحت اور ترقی کے سلسلے میں کم آمدنی والے افراد سے ملا ہوں، ان لوگوں کے لیے بدلتا موسم سنگین نتائج سامنے لاسکتا ہے۔ یہ غربت اور موسم سے الجھتی پیچیدہ کہانیاں ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2009ء میں میری ملاقات کینیا کے ایک کسان خاندان سے ہوئی۔ میں ان کے فارم پر گیا۔ یہ بہت غریب لوگ تھے۔ مٹی سے بنے کچے گھروں میں رہتے تھے۔ ان کی کاشت کاری بھی چند ایکڑ تک محدود تھی۔ مگر اس مختصر خطۂ زمین پرجوکچھ ہورہا تھا وہ سیکڑوں کسانوں کے لیے سیکھنے کی چیز تھی۔ ان کے پاس کامیابی کی ایک حیرت انگیز کہانی تھی۔ مگر بدلتا موسم ان کی ساری کامیابی الٹے قدموں پھیر سکتا ہے۔ اس خاندان نے میرا دروازے پر استقبال کیا، اور اپنی کہانی سنانا شروع کی۔
یہ دو سال پہلے، چند دیگر کسانوں کے ساتھ مل کرمعمول کی اجناس پیدا کررہے تھے۔ انتہائی غربت میں زندگی بسر ہورہی تھی۔ یہ مکئی اور کچھ سبزیاں اگارہے تھے۔ کچھ خوراک اپنے لیے پس انداز کرتے، باقی منڈی میں فروخت کردیتے تھے۔ آمدنی میں کچھ اضافے کے لیے یہ لوگ ایک گائے خرید لائے۔ یہ گائے دن میں دو بار دودھ دیتی تھی۔ صبح والا دودھ یہ مقامی تاجرکوفروخت کردیتے تھے۔ شام والا دودھ گھرکے استعمال کے لیے رکھ چھوڑتے تھے۔ مجموعی طور پرگائے یومیہ تین لیٹر دودھ دے رہی تھی۔ یہ اس خاندان کی ضرورت سے کم تھا۔ جس وقت میری اس خاندان سے ملاقات ہوئی، اس خاندان کے حالات ڈرامائی طور پر بہتر ہوچکے تھے۔ اب ان کے پاس چار گائیں تھیں، جو یومیہ چھبیس لیٹر دودھ دے رہی تھیں۔ بیس لیٹر فروخت کردیا جاتا اور چھ لیٹرخاندان میں صرف ہوتا تھا۔ ان کی یہ گائیں انہیں تقریباً چار ڈالر یومیہ کما کر دے رہی تھیں، اور یہ آمدنی کینیا کے اس علاقے میں گزربسر کے لیے کافی تھی۔ انہوں نے مکان کی تعمیرنو کی، انناس کی پیداوار بڑھائی اور اسے برآمد کیا، اور بچوں کو اسکول بھیجنا شروع کیا۔
ان کے لیے انقلابی موڑ، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، دودھ کی پیداوار کا پلانٹ قائم کرنا تھا، جو قریب ہی تعمیر کیا گیا تھا۔ یہاں دیگر فارمز کا دودھ بھی ذخیرہ کیا جانے لگا تاکہ ترسیل تک محفوظ کیا جاسکے۔
یہ پلانٹ ایک طرح کی تربیت گاہ بھی ہے، جہاں مویشیوں کی دیکھ بھال کے طریقے سکھائے جاتے ہیں، ویکسی نیشن سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے، دودھ کی جانچ وغیرہ بھی سکھائی جاتی ہے کہ ملاوٹ زدہ یا ضرر رساں نہ ہو۔ غرض دودھ کا معیاربہتر سے بہتر بنایا جاتا ہے۔
کینیا کی ایک تہائی آبادی زراعت پیشہ ہے۔ دنیا بھر میں ایسے چھوٹے کاشت کاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ان کی دو تہائی آبادی غربت میں جیتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد کے باوجود، یہ کاشت کار بہت کم کاربن اخراج کا سبب ہیں۔ دراصل یہ لوگ قدرتی ایندھن کی سہولیات سے بھرپور استفادہ نہیں کرسکتے۔ یوں یہ امریکی کاشت کاروں کی نسبت 55 گنا کم کاربن خارج کرتے ہیں۔