جب روس نے یوکرین پر لشکر کشی کا آغاز کیا تب امریکہ، یورپی یونین اور معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) نے شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے روس کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ اور یورپی یونین متعدد معاملات میں اب بھی روس سے بہت کچھ لینے پر مجبور ہیں۔ تیل اور گیس کا معاملہ سرِفہرست ہے۔ کئی یورپی ممالک دفاعی ساز و سامان کی سپلائیز کے حوالے سے بھی روس پر منحصر ہیں۔ پابندیوں کے نتیجے میں اگر روسی معیشت کو زیادہ نقصان پہنچا تو خود یورپ کی کئی معیشتوں کو دھچکا لگے گا۔ بھارت کا بھی دفاعی ساز و سامان کے حوالے سے روس پر انحصار رہا ہے۔ ایسے میں روس کا کمزور پڑنا بھارت کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
چین کے لیے معاملات تھوڑے سے پیچیدہ تھے۔ امریکہ اور یورپ نے اس پر دباؤ ڈالا کہ یوکرین کے معاملے پر روس کا ساتھ دینے سے گریز کرے اور اُس کی مدد کرنے کے خیال سے تو بالکل باز رہے۔ چینی قیادت نے اس معاملے میں غیر معمولی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ اور یورپ کے ساتھ کوئی بڑا قضیہ کھڑا کرنا مناسب نہ سمجھا اور تھوڑا سا انتظار کیا۔ اب چینی قیادت نے وہ داؤ کھیلا ہے جو پوری بازی کو پلٹ سکتا ہے۔ چینی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ آج عالمی معیشت میں چین اِس طور گُندھا ہوا ہے کہ اُسے آسانی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر چین کو الگ کرنے کی بات کی جائے تو عالمی معیشت ہی ٹھپ ہوسکتی ہے۔ ایسے میں چینی قیادت کے پاس ایک اچھی چال چلنے کا موقع تھا اور اس موقع کو اس نے ضایع نہیں ہونے دیا۔ جب دنیا بھر میں کورونا کی وبا ختم ہونے کو تھی اور کہیں سے کوئی خطرناک یا پریشان کن اطلاع نہیں مل رہی تھی تب چینی قیادت نے اپنے ہاں کورونا وائرس پھیلنے کی خبر پھیلائی اور امریکہ و یورپ کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کا عمل شروع کردیا۔ چین کا سب سے بڑا صنعتی، تجارتی اور مالیاتی مرکز شنگھائی کورونا کی وبا کی روک تھام کے نام پر ایک بار پھر بند کردیا گیا۔ اس لاک ڈاؤن کے نتیجے میں عالمی معیشت کے بہت سے معاملات الجھ کر رہ گئے ہیں۔
شنگھائی اور چند دوسرے شہروں میں کورونا کے کیسز بڑھنے کی اطلاع دیتے ہوئے چینی قیادت نے جو لاک ڈاؤن نافذ کیا ہے اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں صنعتی اور تجارتی عمل رک سا گیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عالمی معیشت کا بہت کچھ شنگھائی سے جُڑا ہوا ہے۔ دنیا بھر کی کمپنیوں میں پیداوار اور سپلائی کا عمل رک گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ اور یورپ میں مہنگائی کی نئی لہر آگئی ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ ان ممالک کی خام قومی پیداوار میں کم و بیش 4 فیصد کی کمی کا امکان ہے۔ بھارت جیسی بڑی معیشت میں بھی بہت کچھ ہل گیا ہے اور مرکزی بینک یعنی ریزرو بینک آف انڈیا کو بہت سے اقدامات کرنا پڑے ہیں تاکہ معیشت کسی واضح رکاوٹ کے بغیر چلتی رہے۔ روس سے بڑے پیمانے کے تجارتی اور دفاعی روابط ہونے کے باعث یوکرین کی جنگ نے بھارتی قیادت کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ مہنگائی کی نئی لہر کا سامنا کرنے کی سکت تو امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں کے لوگوں میں بھی نہیں رہی۔ امریکہ اور یورپ میں عام آدمی نے تنخواہ اور اجرت میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔
اب بہت سے سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین مین اسٹریم میڈیا، ویب سائٹس اور بلاگز کے ذریعے یہ شک ظاہر کررہے ہیں کہ چین نے شنگھائی اور دیگر شہروں کو کورونا سے بچاؤ کے نام پر بند کرکے دراصل عالمی معیشت کی رفتار کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے اور جہاں زیادہ ضرورت ہو وہاں سب کچھ روکنے کی چال چلی ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے زیرو کورونا کی پالیسی کا اعلان کیا ہے جسے ابھی سے متنازع قرار دیا جارہا ہے۔ چینی شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر لوگوں کو لاک اپ کیا جارہا ہے۔ بہت سے بنیادی حقوق معطل ہیں۔ زیرو کورونا ہونے تک شنگھائی سمیت چالیس شہروں کو باقی دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے۔ سوسائٹیز اور اپارٹمنٹس کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں۔ دو علاقوں یا دیہات کو جوڑنے والی سڑکیں اور دیگر راستے رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیئے گئے ہیں۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ شنگھائی اور دوسرے بہت سے شہروں میں اومیکرون ویریئنٹ پھیل گیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ویریئنٹ جان لیوا نہیں۔ دنیا کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ جب یہ ویریئنٹ جان لیوا نہیں تو پھر اس قدر سخت اقدامات کیوں کیے جارہے ہیں؟ عام چینی باشندوں کو کچھ اندازہ نہیں کہ کورونا کی وبا واقعی انتہائی خطرناک ہے یا پھر چینی قیادت باقی دنیا کو شنگھائی کی معاشی قوت کے درشن کرانا چاہتی ہے۔ چینی حکومت شنگھائی اور دیگر شہروں میں کورونا کی وبا سے متعلق جو اعداد و شمار جاری کرتی ہے اب انہیں بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ لوگ ماننے کو تیار نہیں کہ صورتِ حال اُتنی سنگین ہے جتنی بتائی جارہی ہے۔ چینی قیادت امریکہ اور یورپ کی معیشت کو کمزور کرنے اور دونوں خطوں کی قیادت کو تگنی کا ناچ نچانے کی کوشش کررہی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ چین نے معاشی اعتبار سے اتنی قوت حاصل کرلی ہے کہ اُسے چھینک آئے تو امریکہ، یورپ اور بھارت کو بھی سردی لگنے لگے! چین کے بغیر اب دنیا کا چلن ممکن نہیں رہا۔ معروف جریدے ایسٹرن آؤٹ لُک میں جہاں دیدہ تجزیہ کار ولیمز اونیل نے لکھا ہے کہ 4 فروری کو، بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے بعد، چین کے صدر شی جن پنگ اور اُن کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کی ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں ممالک نے معاشی اور دفاعی معاملات میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دینے کے حوالے سے چند معاہدے کیے گئے۔ یہ وسیع البنیاد معاہدے تھے جن کا مقصد دو طرفہ تعلقات کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست و معیشت کو بھی نیا رنگ دینا تھا۔ ممکنہ طور پر اُسی وقت یہ بھی طے پایا تھا کہ یوکرین پر روسی حملے کی صورت میں امریکہ اور یورپ کے ردِعمل سے کس طور نمٹنا ہے اور باقی دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے رہنے کے لیے مزید کیا کرنا ہے۔ اس موقع پر روس نے چین کو 30 سال تک گیس فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی اور اس حوالے سے گیس پائپ لائن کا روٹ طے کیا جارہا ہے۔ ڈالر کی اہمیت گھٹانے کے لیے چین نے اعلان کیا تھا کہ وہ روس سے گیس یورو میں خریدے گا۔
چین اور روس کے درمیان پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کا عنوان ’’نیو ایرا‘‘ (نیا دور) ہے۔ اس معاہدے کا صرف ایک مقصد ہے … عالمی سیاست و معیشت پر امریکہ اور یورپ کی اجارہ داری ختم کرنا۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے نیا عالمی نظام بھی لایا جائے گا۔ چین ہی کی حمایت و مدد سے روس پوری دنیا کو شدید خلجان میں مبتلا رکھنے کے لیے یوکرین میں جنگ کو طُول دے رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین نے یوکرین پر لشکر کشی کے تجربے سے معاشی دھچکا برداشت کیا ہے، مگر وہ جانتا ہے کہ اُس کی معیشت سے بہت سے ممالک کی معیشتیں اِس طور جُڑی ہوئی ہیں کہ اگر اُسے پابندیوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تو دوسروں کو بھی بہت کچھ جھیلنا پڑے گا۔ متعدد یورپی ممالک ابھی سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ کورونا کی وبا کے اژدھے سے چینی قیادت امریکہ اور یورپ کو ڈرا رہی ہے۔
آئیے، اب ذرا شنگھائی کی صنعتی، تجارتی اور مالیاتی طاقت کا اندازہ لگائیں۔ دنیا کی 800 ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چین کے صدر دفاتر شنگھائی میں ہیں۔ ان میں سے 121 ملٹی نیشنل کمپنیوں کا شمار فورچیون گلوبل 500 کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ ایپل، کوآل کوم، پیپسی اور جنرل موٹرز کا اب شنگھائی صدر مقام ہے۔ دنیا بھر کی 70 ہزار سے زائد کمپنیوں کے دفاتر شنگھائی میں ہیں۔ ان میں سے 24 ہزار کمپنیاں جاپان کی ہیں۔ کورونا لاک ڈاؤن کے باعث وہاں ٹیسلا کا کاریں بنانے کا پلانٹ بھی بند کرنا پڑا ہے۔ 40 ہزار کاروں کا ہدف صفر پر آگیا۔ فوکس ویگن، جنرل موٹرز اور گاڑیاں تیار کرنے والے دیگر اداروں کا بھی یہی حال ہوا ہے۔ کاریں تیار کرنے والے ادارے فورڈ کا مرکزی ڈیزائن سینٹر بھی شنگھائی میں ہے۔
ایپل کے آئی فون بنانے والی کمپنی پیگاٹران کی فیکٹری شنگھائی اور کُنشان میں ہے۔ اعلیٰ ترین سیمی کنڈکٹر بنانے والی کمپنی ٹی ایس ایم سی (جس کی سیون نینو میٹر اور فائیو نینو میٹر چپس ایپل اے 14 اور A1 میں استعمال کرتی ہے) بھی اپنی جڑیں شنگھائی میں رکھتی ہے۔ فارما جائنٹ ایسٹرا زینیکا کا گلوبل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر بھی شنگھائی میں ہے۔
ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والا شنگھائی دنیا بھر میں کنٹینرز کی سب سے زیادہ ٹریفک رکھنے والی بندرگاہ کا حامل بھی ہے۔ یہاں سے ہر سال کم و بیش 4 کروڑ 70 لاکھ کنٹینر روانہ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف ایک ماہ کے دوران لاک ڈاؤن سے پوری دنیا کے لیے کم و بیش 40 لاکھ کنٹینرز کی سپلائی رک گئی۔ اب جب دوبارہ کنٹینر ٹریفک کھلے گی تب چینی حکومت کرایوں میں اضافے کا اعلان کرے گی۔ گزشتہ برس چین سے امریکہ کے لیے ایک کنٹینر کا کرایہ 5900 ڈالر تھا جو اب کم و بیش 15700 ڈالر ہوچکا ہے۔ امریکی کمپنیوں نے چین پر انحصار اس قدر بڑھالیا ہے کہ اب فوری طور پر اس دائرے سے نکلنا محال ہے۔ چین اب واضح طور پر بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ امریکہ کی کمپیوٹرز کی درآمد میں 18 فیصد حصہ چین کا ہے جبکہ الیکٹرانکس آئٹمز کے معاملے میں امریکہ کا 35 فیصد انحصار چین پر ہے۔
چینی شہروں میں اسٹار بکز جیسی تمام امریکی کمپنیوں کی فرنچائز بند پڑی ہیں۔ چین میں اسٹار بکز کے 5600 اسٹور ہیں جن میں سے 4 ہزار بند ہیں۔
صرف شنگھائی کی جی ڈی پی (خام ملکی پیداوار) 1390 ارب ڈالر کی ہے۔ اگر شنگھائی کو ایک ملک مان لیا جائے تو انڈونیشیا، سعودی عرب، میکسیکو اور نیدر لینڈز (ہالینڈ) سے زیادہ اُس کی جی ڈی پی ہو۔ شنگھائی ایئرپورٹ کا شمار دنیا کے دس بہترین اور مصروف ترین ایئرپورٹس میں ہوتا ہے۔ شنگھائی میں دو انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہیں۔ مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے اعتبار سے شنگھائی اسٹاک ایکسچینج دنیا کی سب سے بڑی اسٹاک مارکیٹ ہے۔ لندن اور نیویارک بھی اب شنگھائی کی چمک دمک کے سامنے ماند پڑچکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ساری کامیابیاں شنگھائی نے صرف ربع صدی میں حاصل کی ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا میٹرو ریل نیٹ ورک بھی شنگھائی کا ہے۔ ارب پتی افراد اور فلک بوس عمارتوں کے حوالے شنگھائی دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔
یوکرین پر لشکر کشی کی پاداش میں امریکہ نے جو پابندیاں عائد کیں اُن کے نتیجے میں روس کو پہنچنے والا نقصان اُس نقصان سے کم ہے جو چین نے کورونا کی روک تھام کے نام پر شنگھائی اور دیگر بہت سے شہروں میں لاک ڈاؤن کے ذریعے امریکہ کو پہنچایا ہے۔ چینی قیادت کے اقدامات ہی کے نتیجے میں اس وقت امریکہ شدید معاشی بحران اور بالخصوص کمر توڑ مہنگائی کے پھیر میں ہے۔ امریکہ اور چین کے صنعتی، تجارتی اور مالیاتی ادارے چیخ پڑے ہیں کہ چین سے اُن کے معاملات غیر معمولی حد تک جُڑے ہوئے ہیں اور اِس کے نتیجے میں اُنہیں بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شنگھائی سمیت جن شہروں میں کورونا زیرو ٹارگٹ کے تحت لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے اُن کی مجموعی آبادی 33 کروڑ ہے۔ یوں چینی قیادت نے امریکہ اور یورپ کی ناک محض دبا نہیں رکھی بلکہ کاٹ بھی رہی ہے۔
امریکہ اور یورپ کو چینی قیادت کی پالیسیوں کے نتیجے میں مزید کن خرابیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ نئی اور گرما گرم بحث ہے۔ چین اور روس نے طے کرلیا ہے کہ اب پچیس تیس سال میں امریکہ اور یورپ کو ایک طرف ہٹاکر دنیا پر راج کرنا ہے۔ بھارت میں بھی یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ چین جب بھارت کا گلا دبائے گا تب روس اُس کی مدد کو پہنچے گا یا نہیں؟ امریکہ نے بھی بھارت کو خبردار کردیا ہے کہ کسی بھی مشکل میں روس اُس کی مدد کو نہیں آئے گا۔ امریکہ کو چھوڑ کر بھارت نے روس کا ساتھ دینا پسند کیا ہے اور روس نے چین کے ساتھ مل کر امریکہ اور یورپ کو دیوار سے لگانے کی تیاری کرلی ہے۔ ایسے میں بھارت کا کیا بنے گا اِس کے بارے میں بھارتی قیادت کو ضرور سوچنا چاہیے۔ اس وقت دنیا یہی دعا مانگ رہی ہے کہ روس یوکرین جنگ اور چین میں کورونا کے خاتمے کے اقدامات پر پردہ ہی پڑا رہے۔