افغانستان میں امن کے تسلسل، اس کی جغرافیائی سلامتی اور وحدت کے خلاف ایک بار پھر مسلح جتھہ بندی کے جال بُنے جارہے ہیں۔ افغانستان کا استقلال عوام کی 20 سال کی طویل جدوجہد کا حاصل ہے۔ امریکہ کو بالآخر مذاکرات کی میز پر آنا پڑا۔ یوں 29 فروری 2020ء کو دوحہ معاہدے پر ملا عبدالغنی برادر اور امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے دستخط کردیے۔ یہ دن افغان حریت پسند عوام کے لیے انتہائی خوشی و مسرت کا تھا۔ یہ منظر پوری دنیا نے بڑے انہماک سے دیکھا۔ دوسری جانب معاہدے سے پہلے اور بعد میں بھی امریکہ اور نیٹو کے تحفظ اور کفالت میں مسلط شمال کے حلقے، سیاسی و جنگی شخصیات اور بعض پشتون بڑے اسے ناکام بنانے پر جتے رہے، اقتدار سے چمٹے رہے۔ معاہدے کی وہ شرائط مثلاً قیدیوں کی رہائی میں تاخیری حربوں کا سہارا لے کر معاہدے پر اثرانداز ہوئے۔ یہاں واشنگٹن نے بھی مزید کردار ادا کیے بغیر فوجیں نکال کر افغانستان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ صدر اشرف غنی نے انتقالِ اقتدار کے بجائے فرار کی ذلت آمیز راہ کا انتخاب کیا۔ چناں چہ دوحہ معاہدے کے افغان فریق کو مجبوراً کابل یعنی ملک کی زمامِ کار ہاتھ میں لینا پڑی۔ معاہدے پر بلا پس و پیش عمل درآمد کیا جاتا تو یقیناً عبوری حکومت کی شکل آج سے مختلف ہوتی۔ بہرحال نئی حکومت نے کسی گروہ،سیاسی بڑے اور فوجی افسران کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا ہے۔ طورن اسماعیل کو عزت اور اکرام کے ساتھ ایران جانے کی اجازت دی۔ جنرل رشید دوستم پہلے ہی ترکی جا پہنچے تھے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ وطن میں رہے جن پر کسی قسم کی قدغن نہیں ہے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد ضیاء مسعود اور سی آئی اے کے پروردہ امر اللہ صالح نے نئی حکومت سے جنگ کی ٹھان لی، مگر انہیں کامیابی نہ ملی۔ وطن میں رہتے تو ان کے لیے کسی قسم کے مسائل نہ ہوتے۔ چناں چہ ان کی زور آزمائی برداشت نہ کی گئی۔ نئی حکومت نے پورا پنجشیر کابل کی قلمرو میں شامل کرلیا۔ جبکہ ان دونوں نے دوسرے ملک میں پناہ لے لی۔ رشید دوستم بھی امریکی و برطانوی فوجی حمایت اور فوجی کمک کی کوششوں میں ہے اور افغان حکومت کے خلاف سرگرم داعش گروہ کے کمانڈروں سے رابطے اور ملاقاتیں کررہا ہے۔ دوستم نے تعاون کے بدلے امریکہ کو یوکرین میں روس کے خلاف اپنے جنگجو بھیجنے کی پیشکش کر رکھی ہے۔ یہ مشق امریکہ کی تشکیل کردہ سابقہ حکومتوں میں ہوتی رہی۔ ملیشیائیں بناکر شمال کے لوگوں کو، خاص کر افغان شیعہ نوجوانوں کو ایران کے راستے عراق، شام وغیرہ لڑنے بھیجا جاتا۔ ادھر افغانستان کے شمال اور دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی نمایاں لوگ ایران منتقل ہوئے ہیں۔ احمد ضیاء مسعود، رشید دوستم، امر اللہ صالح اور ایران میں مقیم یہ لوگ قومی مزاحمتی محاذ کے نام سے قومی اور علاقائی بنیادوں پر افغانسان پر ایک اور جنگ مسلط کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔
سابق حکومت کے ایک فوجی جنرل سمیع سادات نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں ان ارادوں کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں مسلح کارروائیاں شروع کردی جائیں گی۔ محاذ نے جنگ چھیڑنے اور پنجشیر میں علاقوں پر قبضہ کرنے کی ابلاغی جنگ کا بھی آغاز کردیا ہے۔ ایران کے اندر ہرات سے تعلق رکھنے والے کمانڈر طور اسماعیل سمیت نمروز کے سابق گورنر عبدالکریم، سابق افغان صدر کے مشیر ابراہیم، مولوی حسام الدین تاجک، صوبہ فاریاب کے سابق پولیس سربراہ نظام الدین قیصری، سابق این ڈی ایس اہلکار گل حاجی فرید، صوبہ فرح کے سابق پولیس چیف عبدالولی مبارز، قومی مزاحمتی محاذ کے کمانڈر عبدالغنی علی پور، این آر ایف کمانڈر عبدالحکیم شجاعی، بادغیس کے سابق گورنر حسام الدین شمس اور بادغیس کے سابق پولیس آفیسر شیر اکا الکوزئی مقیم ہیں۔ یہ وہی حربے ہیں جو سابق کمیونسٹ دورِ حکومت میں ہوتے رہے، تب روس کی حمایت سے اقتدار کی کنجیاں ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ آخر میں خراسان کے نام سے افغانستان کی تقسیم کی منصوبہ بندی پر کام شروع کیا۔ سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو انہوں نے بے دست و پا بنا رکھا تھا۔ ڈاکٹر نجیب، گلبدین حکمت یار اور دوسرے جہادی رہنمائوں کے درمیان امن منصوبے پر پیش رفت ہوئی تھی، جس کی بھنک پڑنے کے بعد کمیونسٹ پرچم پارٹی کے جنرل نبی عظیمی وغیرہ نے احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر سبوتاژ کیا، ڈاکٹر نجیب شمال کی ملیشیائیں کابل میں داخل کرنے کی اجازت پر مجبور کیے گئے، جس کے بعد حالات نے ایک اور خوفناک کروٹ لی۔ پھر مجددی اور ربانی کی حکومتیں ان کی اپنی حکومتیں تھیں، جو درحقیقت شمال کی زیردست تھیں۔ چناں چہ ملا محمد عمر کی تحریک کے اٹھنے اور کابل پر قبضے سے ان کے خواب بکھر گئے۔ شمال کے گروہ اس دوران مختلف تخریبی منصوبوں میں مگن رہے۔ ایران ان کا اہم مستقر رہا۔ 8 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکی و نیٹو حملے کے بعد یہ پھر سیاہ و سفید کے مالک ٹھیرائے گئے۔ افغانستان کی اکثریتی آبادی صدارت اور چند دیگر عہدے دے کر محض علامتی حصے دار تھی۔ امریکی چھتری تلے نومبر 2001ء میں منعقد ہونے والی بون کانفرنس میں عبوری حکومت قومی بنیادوں پر تشکیل دی گئی۔ کانفرنس میں طالبان اور حزب اسلامی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ باقی پشاور گروپ جو حامد گیلانی کی سربراہی میں تھا، ہمایوں جریر کی نمائندگی میں قبرص گروپ، روم گروپ، عبدالستار سیرت اور متحدہ جبہ، ربانی کی سربراہی میں شریک ہوا۔ متحدہ جبہ، ربانی کی حکومت کو تسلیم کرانے کی جستجو میں لگا رہا اور مسلسل عبوری حکومت کے قیام میں خلل کی تاک میں رہا۔ مذاکرات میں شریک نہ ہونے والے عبداللہ عبداللہ برہان الدین ربانی کو فون پر ہدایات دیتے۔ بہرحال شمال کو حکومت میں اہم اور مؤثر حصہ دیا گیا، پھر حامد کرزئی کہا کرتے تھے کہ اقلیتی اقوام امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور پشتون ان سے تکلیف میں ہیں۔ یقیناً ایسا ہی تھا، جنرل فہیم اور جنرل دوستم کو مارشل بنانا زور زبردستی والا معاملہ تھا۔ عبداللہ عبداللہ بزور افغانستان کے چیف ایگزیکٹو بنے۔ اشرف غنی کے مقابل متوازی طور پر ملک کے صدر کا حلف اٹھایا۔
امریکی تسلط کے پورے عرصے میں شمال کا خطہ علی الخصوص پنجشیر کابل کی عمل داری سے باہر تھا۔ کابل کی حکومت کی رٹ اپنے علاقوں میں تسلیم نہیں کی جاتی تھی، اور افغانستان کی تقسیم کی تخریب کو عملی صورت دینے کی تاک میں تھے۔
آج کل تاجکستان سے افغان سرزمین کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، تاجکستان ان علاقائی و نسلی گروہوں کی مدد کررہا ہے۔ حتیٰ کہ تاجکستان سے امریکی ڈرون افغان سرزمین پر پرواز کرتے ہیں، ازبکستان سمیت ترکی کی سرزمین افغانستان کی وحدت اور سلامتی کے خلاف استعمال ہورہی ہے، یہ دو ممالک رشید دوستم اور ان کے لوگوں کے مسکن ہیں۔ امریکہ یوکرین کی بھاری مالی و اسلحی امداد کرچکا ہے، مزید بھی کررہا ہے۔ مگر افغانستان کی حکومت تسلیم کرنے کے بجائے اسے معاشی مسائل میں دھکیلنے کی مکروہ پالیسی اپنا رکھی ہے اور افغانستان کے بارے میں منفی عزائم کے اشارے دے رہا ہے۔ افغان حکومت داعش گروہ کی صفائی میں لگی ہے۔ اپریل سے اب تک افغانستان کے صوبہ ہرات، قندوز، بلخ، ننگرہار اور کابل میں داعش خودکش حملے کرا چکی ہے، جس میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ لہٰذا اگر افغانستان میں شرارت میں پہل کی جاتی ہے تو یہ خطے اور دنیا کے لیے ایک اور امتحان کا پیش خیمہ بنے گی۔ پاکستان کے اندر دینی اور سیاسی جماعتوں سمیت عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّٗی عوامی پارٹی کو چاہیے کہ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے شمال کے جتھوں کے عزائم کے خلاف سیاسی دبائو ڈالیں۔