’’ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی غیر معمولی علمی و ادبی صلاحیتیں اُس زمانے ہی سے خراجِ تحسین وصول کرتی چلی آرہی ہیں جب انہوں نے تیرہ چودہ برس کی عمر میں اپنی پہلی کتاب لکھ کر اکابر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی۔ بعد ازاں ان کے زرخیز قلم نے مضامینِ نو کے انبار لگا دیئے جن میں مضامین، مقالات اور کالموں کے علاوہ چالیس پینتالیس چھوٹی بڑی کتابیں بھی شامل ہیں۔ تصانیف کی اسی طویل فہرست میں تین شعری مجموعوں کے نام بھی آتے ہیں جن میں یہ تازہ مجموعہ ’’آتے دنوں میں گم‘‘ ایک کا اضافہ کرتا ہے۔ شاعری میں زاہد منیر صاحب کا غالب رجحان آزاد نظم کی طرف ہے اور گزشتہ ایک عشرے میں ان کی ارتقا پاتی ہوئی نظم اس سطح پر آگئی ہے جہاں وہ معاصر نظم کے قابلِ لحاظ شعراء میں شمار کیے جانے کا استحقاق پیدا کرچکے ہیں۔ ان کا یہ تازہ مجموعہ صرف نظموں ہی پر مشتمل ہے جن میں عمق، گہرائی اور تخلیقیت کے عناصر روز افزوں نظر آتے ہیں۔ ان کے مصرعے بسا اوقات اس قدر سادہ و برجستہ ہوتے ہیں کہ ان کی نثر نہیں بنائی جا سکتی مگر ان کا تخلیقی وفور اور پُرمعنی ایمائیت قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔‘‘ سطورِ بالا ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی نظموں کے تازہ مجموعے ’’آتے دنوں میں گم‘‘ کے آغاز میں شائع شدہ ڈاکٹر خورشید رضوی کے ’’پیش سخن‘‘ سے لی گئی ہیں۔ شاعر، محقق، دانشور، نقاد اور استاد پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر آج کل جامعہ پنجاب کے ادارۂ زبان و ادبیات اردو کے ڈائریکٹر کے طور پر ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جن بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ان کے اظہار کے لیے وہ اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک بھی پاکستان کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو اجاگر کرنے اور فروغِ فکرِ اقبال کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں قائداعظم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، جب کہ بیرونی دنیا میں بھی انہیں کئی اعزازات کا مستحق ٹھیرایا گیا ہے۔ ممتاز شاعر جناب امجد اسلام امجد نے ’’آتے دنوں میں گم‘‘ میں شامل نظموں کو بجا طور پر ’’باتیں کرتی نظمیں‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتوں اور مختلف زبانوں پر ان کی دسترس کا تو مجھ سمیت ایک زمانہ قائل ہے لیکن ان کی نظموں کا تخلیقی حسن، انوکھا پن اور موسیقیت بھی اپنی جگہ پر ایک فضا اور مقام رکھتے ہیں، اور یہ بات ہے کہ ان کی شخصیت کے مخصوص ٹھیرائو اور عالمانہ تاثر کے باعث اس طرف ادبی دنیا کی توجہ نسبتاً کم کم رہی ہے۔ کئی مشاعروں اور شعری نشستوں میں ان کو سننے کا اتفاق تو بارہا ہوا ہے، مگر ہر بار ان کی سنجیدہ طبعی اور علمیت کا احساس اس قدر غالب رہا کہ بطور شاعر وہ مولانا حالی کے اس مصرعے کی طرح ہی رہے کہ ’’اک مرغ ہے خوش لہجہ کہ کچھ بول رہا ہے‘‘ مگر اب جو ان کی بہت سی نظموں کو (جو کتابی صورت میں شائع بھی ہورہی ہیں) ایک ساتھ پڑھنے اور ان کے موضوعات کی وسعت، داخلیت اور اظہار کی کاری گری کو تفصیل سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے تو ان کے لیے فوری طور پر میرے ذہن میں جو ترکیب اور عنوان اترے وہ ’’بولتی ہوئی نظمیں‘‘ یا باتیں کرتی نظمیں کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔‘‘
کتاب کے خوبصورت رنگین گرد پوش کے پسِ ورق پر دورِ حاضر کے مقبول شاعر جناب افتخار عارف، زاہد منیر عامر کی شاعری کی علیحدہ شناخت کا یقین ظاہر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:… ’’اردو ادب کی تاریخ میں بعض نام ور محققوں، نقادوں اور اساتذہ نے شاعری کے میدان میں بھی اپنی تخلیقی توانائی کا اظہار کیا ہے مگر بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے تنقید و تحقیق کی طرح شعر میں بھی کوئی نمایاں مقام بنانے میں کامیابی حاصل کی ہو۔ ان کا تذکرہ محض اس حوالے سے تذکرے میں آجاتا ہے کہ وہ شعر بھی کہتے ہیں۔ زاہد منیر عامر کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مشرق کی کلاسیکی تخلیقی روایت سے آگاہی اور زبان و بیان کے تمام رنگ و آہنگ نمایاں کرنے کا ہنر انہیں بخوبی آتا ہے۔ ان کی لغت، ان کے مضامین اور ان کی فکر باہم آمیز ہوکر ایک خوش گوار تاثر کو جنم دیتے ہیں جو اپنی تہ داری اور جمالیاتی تنوع کے سبب ہمیں اپنی جانب متوجہ کیے رکھتا ہے۔ زاہد منیر عامر کی نظمیں ہماری عصری شاعری کے منظرنامے میں اپنی ایک علیحدہ شناخت قائم کریں گی، مجھے اس کا یقین ہے۔‘‘
’’آتے دنوں میں گم‘‘ میں زاہد منیر عامر کی 51 نظمیں تین حصوں میں شائع کی گئی ہیں، جن میں سے ہر نظم ایک منفرد خیال اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور پڑھنے والے کے تخیل کو ایک جانے پہچانے مگر اس کے ساتھ ہی نئے اور انوکھے تصور کی جانب پرواز پر آمادہ کرتی ہے۔ نظموں کے بعد ایک باب ’’اختتامیہ‘‘ کے عنوان سے قائم کیا گیا ہے جس میں جناب جمیل یوسف اور پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید کی قدرے تفصیلی اور جامع تحریریں شامل کی گئی ہیں جن میں ہر دو حضرات نے زاہد منیر عامر کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کا ذرا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا ہے۔
جناب زاہد منیر عامر نے نہایت مختصر ’’عرضِ شاعر‘‘ میں اپنے نئے مجموعہ کی نوید ان الفاظ میں سنائی ہے: ’’آتے دنوں میں گم… میرا نیا شعری مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ ترتیب پانے کے بعد بھی بہت سی نظمیں کہی جا چکی ہیں جو اپنے مزاج کے فرق کے باعث ایک الگ مجموعے کا جواز رکھتی ہیں۔‘‘
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ…!!!