کراچی میں پھر اندھیرا

ایسے وقت میں.. جب محکمہ موسمیات نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ ہفتے شہر کا درجہ حرارت 40 ڈگری سے عبور کرسکتا ہے، اس دوران سمندری ہوائیں متاثر یا مکمل طور پر بند ہوسکتی ہیں.. گرمی کی تازہ لہر شہریوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ کراچی میں بجلی کا شدید بحران پیدا ہوچکا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ بڑھتا جارہا ہے۔ اس وقت کراچی کے شہری نڈھال و پریشان ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں 9 سے 10 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے جبکہ کے-الیکٹرک نے لوڈشیڈنگ والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں مزید 3 گھنٹے کا اضافہ کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شہری کریں تو کیا کریں؟ بجلی اور پانی بنیادی ضرورت ہیں اور یہ دونوں، ریاست دینے میں ناکام ہے جس کی اذیت سے شہریوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے جاری بدترین لوڈشیڈنگ میں تمام دعووں کے باوجود کمی نہیں آسکی ہے۔ ہر سال موسم گرما میں شہریوں کو اس تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاجر برادری اور کاروبار کرنے والے اس صورتِ حال سے شدید پریشان ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے ہو یہ رہا ہے کہ سخت گرمی کے آتے ہی کے الیکٹرک کا پورا نظام بیٹھ جاتا ہے اور کئی کئی گھنٹے بجلی معطل رہتی ہے، اس کے باوجود بھاری بل شہریوں کو بھیجے جاتے ہیں، اور کبھی گیس اور فرنس آئل میں کمی، اور کبھی پلانٹ میں خرابی اور ٹیکنیکل فالٹ کے بہانے کیے جاتے ہیں، اور لوڈمینجمنٹ کے نام پر شہریوں کو طویل دورانیے تک بجلی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف ’کے الیکٹرک‘ ٹیرف میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ بجلی فی یونٹ 4 .83روپے مہنگی کی گئی ہے، اس سے کراچی کے بجلی صارفین پر 7 ارب سے زائد کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔

کئی سال سے کے الیکٹرک کو نیشنل گرڈ سے 600 میگا واٹ بجلی سپلائی کی جاتی تھی، لیکن گزشتہ سال کراچی میں لوڈشیڈنگ کی صورت حال قابو سے باہر ہونے اور کے الیکٹرک کے مسلسل اصرار پر وفاقی حکومت نے کوٹہ بڑھا کر 11میگا واٹ تک کردیا تھا، اس دوران کے الیکٹرک کو اپنے نئے پاور پلانٹ بن قاسم تھری کے 450 میگا واٹ کے پہلے فیز کو اسٹارٹ کرنا تھا، لیکن تاحال ایسا نہیں ہوسکا ہے، جب کہ کے الیکٹرک نے کہا تھا کہ 450 میگاواٹ رواں سال جنوری اور مزید450میگاواٹ کا یونٹ ستمبر اکتوبر تک مکمل ہوجائے گا۔ لیکن کیونکہ کے الیکٹرک ریاست کے اندر خود ریاست ہے اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ایسا کچھ نہیں چاہتی، اور شاید وہ جانتی ہے کہ ریاست اُس کا کچھ نہیں کرسکتی، کیونکہ یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ کے الیکٹرک کی ہر دور ِحکومت میں سرکاری سرپرستی اور پشت پناہی کی گئی ہے۔ کے الیکٹرک کے مالک ابراج گروپ نے حکومتی جماعتوں کو اربوں روپے کے الیکشن فنڈز دیے ہیں، اسی لیے کسی بھی حکومت نے اس کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ خود ایک مافیا ہے جس کے بارے میں سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا تھا کہ ”کے الیکٹرک نے لوگوں کو ہائی جیک کررکھا ہے، حکومت میں صلاحیت ہی نہیں ہے۔ جس کی مرضی استحصال کرے، کوئی روکنے والا نہیں۔ کے الیکٹرک عوام کو رتی بھر کا بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی، حکومتی اداروں میں صلاحیت کا سنجیدہ فقدان ہے“۔ عدالت اور اس کے ایک چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ”کے الیکٹرک کاروبار کررہی ہے، کے الیکٹرک لوگوں کو بلیک میل کرتی ہے“۔ جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ”کے الیکٹرک نے سارے شہر سے کاپر کی تاریں ہٹاکر بلین ڈالرز کمائے، کراچی بھر میں اب ایلومینیم کی تاریں لگا دی گئی ہیں جو لوڈ برداشت نہیں کرسکتیں، کے الیکٹرک یہاں صرف پیسہ بنا رہی ہے، جو بجلی چوری ہوتی ہے اس کے پیسے بھی دیگر لوگوں سے وصول کرتی ہے۔“
یہ وہ باتیں ہیں جو کراچی کے عوام دیکھ اور بھگت رہے ہیں، لیکن مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلزپارٹی ہو یا ماضی کی تحریک انصاف کی حکومت… کوئی کراچی کے عوام کے لیے آسانی پیدا کرنے اور کے الیکٹرک اور اس کی اذیت سے نجات دلانے میں سوائے بیان بازی کے کچھ نہیں کرپایا، لیکن شہر کراچی کے لوگوں کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک بار پھر بجلی کے مسئلے پر کراچی کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنی آواز اٹھا رہی ہے، اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ”کے الیکٹرک پاکستان کی مہنگی ترین بجلی بناتی ہے۔ بار بار اعلان کے باوجود بن قاسم پلانٹ تھری اب تک مکمل

آپریشنل نہیں ہوا، کے الیکٹرک نے اپنے معاہدے کے مطابق بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہیں کیا۔“ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے گزشتہ 5 سال سے کے الیکٹرک کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا ہوا ہے لیکن افسوس کہ اہلِ کراچی کی سپریم کورٹ میں بھی کے الیکٹرک کے خلاف کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ حافظ نعیم نے فیول ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے نیپرا کی آن لائن سماعت میں استفسار کیا ہے اور بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں  کہ ”نیپرا کے پاس کے الیکٹرک کی پیداواری صلاحیت ناپنے کا کیا پیمانہ ہے؟ اور کیا 2023ء میں کے الیکٹرک کا معاہدہ ختم ہوگا؟ کراچی والوں کی کے الیکٹرک سے جان کب چھوٹے گی؟ نیپرا نئی کمپنیوں سے رابطے کے لیے کیا کام کررہی ہے؟ کے الیکٹرک ہر بات پر عدالت سے اسٹے آرڈر لے لیتی ہے، نیپرا کی لیگل ٹیم اسٹے آرڈرز پر کیا کردار ادا کررہی ہے؟ کے الیکٹرک کے میٹرز کی جانچ پڑتال کرنے کا کوئی غیر جانب دار ادارہ نہیں۔“ اس کے ساتھ حافظ نعیم الرحمٰن نے کراچی کے صارفین کے کلابیک کی مد میں 42 ارب روپے واپسی کے لیے نیپرا کی لیگل ٹیم کو کراچی بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیپرا کی لیگل ٹیم کراچی آئے تاکہ کے الیکٹرک کے کلابیک کے خلاف عدالتی اسٹے ختم کرنے کے حوالے سے مشاورت کی جائے۔ جماعت اسلامی نیپرا کی معاونت کے لیے تیار ہے اور نیپرا کی لیگل ٹیم کو کراچی میں سپورٹ کرے گی۔ اس وقت شہر میں شدید گرمی کے باوجود کے الیکٹرک کی جانب سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ حالانکہ اسے بغیر کسی معاہدے کے گیس فراہم کی جارہی ہے۔ دوسری جانب حکومتیں خواہ ماضی کی ہوں یا موجودہ.. وہ کے الیکٹرک کو تمام سہولیات فراہم کررہی ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ مختلف اداروں کی رقم جو کے الیکٹرک کے ذمے واجب الادا ہے، کے الیکٹرک اسے ادا کرے، ادارے کا لائسنس منسوخ کرکے فرانزک آڈٹ کروایا جائے تاکہ عوام کو پتا چل سکے کہ کس طرح کے الیکٹرک کراچی کے عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کررہی ہے۔