کراچی سمیت سندھ میں میں پانی کی عدم دستیابی کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی قلت خطرناک حد تک بڑھ گئی جس سے پانی کی کمی 60 فیصد ہوگئی۔ کوٹری بیراج پر 59 فیصد پانی کی کمی ہے۔ کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں ریت اڑ رہی ہے۔ کراچی، ٹھٹہ اور بدین سمیت مختلف شہروں میں پانی کی عدم فراہمی کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ حیدرآباد، ٹھٹہ، سجاول اور بدین سمیت مختلف علاقوں میں کھڑی فصلوں خصوصاً کپاس کو نقصان ہورہا ہے، کپاس کی فصل 35 سے 40 فیصد کم ہونے کا خدشہ ہے۔ سانگھڑ میں 50 سے 60، جب کہ پچھلی شاخوں ٹیل میں 80 فیصد تک پانی کی کمی ہے، سانگھڑ میں 3 میں سے ایک لاکھ ایکڑ پر کپاس کاشت نہیں ہوسکی ہے۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ نہری پانی کی فراہمی کو یقینی بناکر فصلوں کو تباہ ہونے سے بچایا جائے۔ کراچی میں پہلے ہی نصف آبادی کو پانی دستیاب نہیں ہے، اور جو پانی دستیاب ہے اس کی مقدار میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ اقتصادی شہر کراچی میں پانی کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت شہر کے تقریباً ہر دوسرے شخص کو اس کی ضرورت کا پانی مل نہیں پارہا ہے، اور کچی آبادیوں میں رہنے والے ایک کروڑ 60 لاکھ گھروں میں پانی آتا ہی نہیں ہے۔ ماہرین بار بار کہہ رہے ہیں کہ پانی کا بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔
پانی کی قلت کی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلی جہاں ایک وجہ ہے، وہاں صوبوں کے درمیان پائی جانے والی بے اعتمادی بھی اہم اور بڑی وجہ ہے۔ ہمارے یہاں پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیموں کی کمی ہے، اور جو ہیں اُن کی استعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7ملین ایکڑ فٹ پانی بچایا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے اگر ضائع ہونے والا پانی استعمال میں آئے تو پانی کا مسئلہ طویل عرصے کے لیے ختم ہوسکتا ہے اور پھر شاید قلت کا مسئلہ ہو ہی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مملکتِ خداداد کو ہر معاملے میں نوازا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران جزوی طور پر انسانوں کا ہی پیدا کیا ہوا ہے، کیونکہ اس حوالے سے سنجیدہ اور مستقل بنیادوں پر کوئی کوشش دیکھنے کو ملتی ہی نہیں ہے، کچھ ہوتا بھی ہے تو محض نمائشی ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جاتے ہیں۔ ہم دنیا کے سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں اور ہمارے یہاں یہ اہم اور بنیادی ضرورت کا مسئلہ بھی سیاست کی نذر ہوکر رہ گیا ہے، ہم نئے ڈیم بنانے کے معاملے میں آگے نہیں بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے مستقبل میں پانی کی قلت میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن کراچی میں پانی کے مسئلے اور عدم دستیابی کی اہم اور بڑی وجہ بدانتظامی، کرپشن اور ٹینکر مافیا ہے، کیونکہ ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی کو شیئر میں ملنے والا پانی بھی منصفانہ طور پر تقسیم کردیا جائے اور پانی ٹینکرز کے بجائے پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کیا جائے تو اس طرح کی کمی کی صورت حال نہ ہو، لیکن اس شیئر کا بڑا حصہ چوری ہوجاتا ہے یا پھر پانی کی لائنوں میں رساؤ میں ضائع ہوجاتا ہے۔ اس وقت شہر میں واٹر بورڈ کے 6 سرکاری ہائیڈرینٹس ہیں جو پیپری، لانڈھی، صفورا، نیپا، سخی حسن اور منگھوپیر میں واقع ہیں، یہ سرکاری ہائیڈرینٹس24 گھنٹے چلتے ہیں جس کے باعث اطراف کے علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ واٹر ٹینکر 3 ہزار سے 6 ہزار تک وصول کررہے ہوتے ہیں، اس میں مافیا کو علاقہ پولیس کا پورا تعاون حاصل ہوتا ہے، وہ فی ٹینکر پانچ سو تا ایک ہزار روپے وصول کرکے اپنی نگرانی میں چوری کرواتی ہے۔ زیادہ تر ہائیڈرینٹس بارسوخ افراد حکومت اور واٹر بورڈ کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں۔ ابھی فروری میں ہی پانی کی عدم فراہمی کے خلاف درخواست کی سماعت میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے چیف انجینئر واٹر بورڈ کو طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”واٹر بورڈ اور ٹینکر مافیا کچی آبادیوں کا پانی چوری کرنے میں ملوث ہیں اور ہمیں رپورٹ میں لمبی لمبی کہانیاں سناتے ہیں۔ واٹر بورڈ ٹینکرز مافیا سے ملا ہوا ہے۔ ایک ٹینکر والا چھ ماہ میں کئی ٹینکرز کا مالک بن رہا ہے۔“ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا تھا کہ ”تمام کچی آبادیوں کا پانی چوری ہوتا ہے۔ واٹر بورڈ اور ٹینکرز والے پانی پمپ کرکے چوری کرتے ہیں۔“ یعنی یہ بات تاریخی طور پر طے ہے کہ شہر میں فراہمی آب کا نظام واٹر بورڈ میں سیاسی اور کرپٹ لوگوں کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہے۔
پانی کی لائنوں میں رسائو، سرکاری ہائیڈرنٹس، غیر قانونی ہائیڈرنٹس، والو آپریشن میں ہیرا پھیری بھی پانی کے بحران کی اہم وجوہات ہیں،جس کا اعتراف وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیرصدارت واٹر بورڈ کے ایک اجلاس میں بھی کیا گیا کہ ’’شہر میں بچھائی ہوئی پانی کی لائنیں بہت پرانی ہیں جس کی وجہ سے پانی ضائع ہوتا ہے،پانی کی لائنیں بچھانے کے لیے پرانے واٹر سپلائی پائپ تبدیل کرنا ہوں گے‘‘۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ پر 15سالوں سے مسلط ہے، اس کے ساتھ کئی بار ایم کیو ایم بھی حکومت سندھ کا حصہ رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس شہر کا بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہی نہیں ہوتا۔ شہر کے لوگ چیخ رہے اور تڑپ رہے ہیں لیکن کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ ایسے میں خوش آئند بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے مسائل سے لاتعلق نہیں ہے، وہ پانی اور بجلی کے مسئلے پر بھرپور آواز اٹھا رہی ہے، اور اب مزید ایک قدم بڑھاتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے پیر کو
ادارئہ نور حق میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ واٹر بورڈ کرپشن کا اڈہ بن چکا ہے، پانی لائنوں میں فراہم کرنے کے بجائے ٹینکرز کے ذریعے فروخت کیا جارہا ہے، شہریوں کے ساتھ واٹر بورڈ کے اس ظالمانہ سلوک، شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی اور بحران کے خلاف 20 مئی بروز جمعہ واٹر بورڈ کے ہیڈ آفس کا گھیراؤ کریں گے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ شہر میں پانی کی فراہمی کے میگا منصوبے k-4میں 650ملین گیلن پانی کی منظوری دی گئی تھی لیکن حکمرانوں نے کراچی دشمن فیصلہ کیا اور کٹوتی کرکے اسے 260ملین گیلن کردیا۔
کراچی ملک کا معاشی حب ہے، اگر اس کو بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ سے اسی طرح محروم رکھا گیا تو آنے والے دنوں میں شہر مزید تباہی کی طرف بڑھےگا، اور یہ صرف کراچی کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ہی خطرناک ہوگا اور ملکی معیشت کازوال تیز ہوجائےگا۔