انا کی جنگ

غیر فعال پارلیمان کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے

یہ حقیقت ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کی غرض و غایت ہی ملکی امور کو آئین کے مطابق چلانا اور حسبِ ضرورت قانون سازی کرنا ہے۔ یہ بھی سب پر عیاں ہے کہ پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں اور وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد نامکمل کمیٹیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ تقریباً غیر فعال ہوگئی ہے، تاہم اتحادی حکومت کے قیام کے بعد قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس طلب کیا گیا ہے، اور پہلے اجلاس میں ہی سابق وزیراعظم عمران خان کے اداروں کے خلاف بیانات پر مذمتی قرارداد بھی منظور کی گئی ہے۔ حکومت جسے ابھی بے شمار چیلنج درپیش ہیں اپنے اصل مقصد اور ہدف سے دور ہوتی نظر آرہی ہے۔ کہا گیا تھا کہ حکومت انتخابی اصلاحات پر کام کرے گی، لیکن ابھی تک اس بارے میں معمولی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔ تحریک انصاف بھی انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے مگر وہ بھی اپنے دعوے میں سچی دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر وہ انتخابات چاہتی ہے تو کے پی کے کی اسمبلی ختم کردے، کل ملک میں انتخابی دنگل سج جائے گا۔ مگر وہ ابھی ایک خاص حکمت عملی کے تحت چل رہی ہے تاکہ اپنی حکومت کی چار سالہ کارکردگی کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے سازش کی تھیوری آگے بڑھاتی چلی جائے اور اسی کی بنیاد پر انتخابات میں ووٹ حاصل کرکے دوبارہ اقتدار میں آجائے۔ اس کی یہ حکمت عملی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، اسے یہ زعم ہے کہ کوئی بھی اس پر ہاتھ نہیں ڈالے گا کیونکہ اس پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب اسے پنجاب میں مضبوط کرنا ہوگا۔ یہ اس کی خام خیالی ہے۔ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے بعد اسپیکر تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کی تصدیق کرنے جارہے ہیں اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کے 39 ارکان اپنے استعفوں کی تصدیق کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے، یوں وہ قومی اسمبلی کے بدستور رکن تصور کیے جائیں گے۔ ان ارکان کے استعفوں کی تصدیق کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار بھی فعال ہونے والا ہے، جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں گے جو انتخابی اصلاحات کے لیے کام کرے گی۔ اس عمل کے بعد قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اور تمام کمیٹیاں جو ابھی تک نامکمل ہیں، انہیں مکمل کیا جائے گا، اس کے بعد کہیں جاکر پارلیمنٹ فعال ہوگی۔ جب تک یہ کام نہیں ہوتے اُس وقت تک امورِ مملکت ٹھپ پڑے رہیں گے اور اَنا کی جنگ ملک کو سیاسی عدم استحکام کی کھائی میں دھکیل دے گی، جس کے نتیجے میں ملک میں ایسا نظام آجائے گا جس پر سب پچھتائیں گے۔ تحریک انصاف کے عقاب اس کوشش میں ہیں کہ وہ مسلسل باور کراتے رہیں کہ عمران خان اپنی عوامی مقبولیت کے عروج پر ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ساڑھے تین برس کی حکومت کی بدترین کارکردگی کا جواب دینے کے بجائے سازش کا بیانیہ بیچا جائے تاکہ نااہلی اور مہنگائی کو بھول بھال کر عوام ایک بار پھر تحریک انصاف کو ووٹ دیں۔ عمران خان کو یہ بات بتائی جارہی ہے کہ وہ بھٹو کی طرح مقبول ہیں، بھٹو بھی اقتدار سے نکل کر مقبول ہوئے تھے۔ لیکن معاہدۂ تاشقند کی پراسرار ’’سازش‘‘ آج تک راز ہی ہے اور عمران خان امریکی ’’سازش‘‘ کے بیانیے پرجذبات بھڑکا رہے ہیں، اور انکشاف کیا ہے کہ یہ سازش اس سال مارچ میں نہیں بلکہ جولائی 2021ء میں پکنی شروع ہوئی تھی، اسی لیے وہ اپنے پسندیدہ افسر کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اب عمران خان میر جعفر اور میر صادق کی ’’غداری‘‘ کی شکایت لے کر عوام کے پاس چلے گئے ہیں، یہ طفلانہ کہانی زیادہ دیر تک نہیں چلنے والی۔ مگر توشہ خانہ کے تحائف اور فارن فنڈنگ کیس کے معاملے نے عمران خان کو مشتعل کر رکھا ہے۔ ان تحائف میں قیمتی گھڑیاں، ڈائمنڈ جیولری، بریسلٹ اور دیگر زیورات شامل ہیں۔ توشہ خانہ سے گولڈ پلیٹڈ کلاشنکوف بھی غائب ہے، لیکن سازش کا بیانیہ آگے بڑھ جانے سے عمران خان بہت خوش ہیں کہ کوئی ان سے حساب نہیں مانگ رہا، اور ان کی نااہلی کے باعث ملک جس معاشی نقصان کا شکار ہوا اس کا سارا بوجھ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی نے اٹھا لیا ہے۔ اب مسلم لیگ(ن) کے پاس ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ نہیں رہا ہے، لیکن تحریک انصاف کی سیاسی غلطی کے باعث ملکی سیاست ایک ایسے رخ پر جارہی ہے جس کے سنگین نتائج اور خوفناک انجام سامنے نظر آرہے ہیں۔

عمران خان نے اپنے نئے انتخابات کے مطالبے کے لیے 20 مئی کی ڈیڈلائن دے دی ہے، جس کے پورا نہ ہونے کی صورت میں وہ اسلام آباد پر پُرہجوم قبضے کی کال دیں گے۔ تحریک انصاف کا یہ اعلان ملک کو غیر معمولی حالات کی جانب لے جارہا ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کے پاس 2023ء تک کا مینڈیٹ ہے۔ گو کہ اس حکومت کا یہ آئینی و پارلیمانی استحقاق ضرور ہے مگر سیاسی بحران کا حل انتخابات ہی ہیں۔ اگلے انتخابات کو متنازع بننے سے بچانے کے لیے نئی مردم شماری، اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں اور ووٹرز لسٹ کی تیاری ضروری ہے، اور انتخابی اصلاحات پر تمام جماعتوں کا اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔ یہ کام آج بھی شروع ہو تو دس ماہ سے پہلے مکمل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ انتخابات نومبر میں ہوں یا اگلے برس مارچ / اپریل میں، اس پر تمام سیاسی جماعتیں سر پھٹول کے بجائے باہم مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکال سکتی ہیں۔
؎

حکومت نے امریکی سازش کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے ’’امریکی سازش‘‘ کی انکوائری کرائی جائے۔ اگر یہ کام بھی کرلیا جائے تو حرج نہیں، تاکہ قومی انتخابی مہم پراگندہ نہ ہو۔ حکومت کی طرف سے ایک اور کوشش کے طور پر آزاد اور خودمختار کمیشن سے معاملے کی تحقیقات کرانے اور اس کی رپورٹ عوام کے سامنے لانے کا اعلان کیاگیا ہے۔ انکوائری کمیشن کا سربراہ وفاقی کابینہ کی منظوری سے کسی ایسے شخص کو مقرر کیا جائے گا جس کی غیرجانب داری پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے سائیفر کے بارے میں بیان کے بعد بھی عمران خان نے اپنا مؤقف نہیں بدلا، لہٰذا وہ شاید ہی کسی کمیشن کے اپنے مؤقف کے برخلاف فیصلے کو تسلیم کریں۔

پونے چار سال حکومت کرنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت تمام محاذوں پر بری طرح ناکام رہی۔ پوری جماعت کی توجہ صرف اس بات پر ہے کہ حکومت کی توجہ ان کے احتساب سے ہٹ کر انتخابات کی طرف ہوجائے، اس طرح پی ٹی آئی کو چند ماہ کی مہلت مل جائے گی اور بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف جس طرح چار سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود ملک کو آگے لے جانے کے لیے درست سمت کا تعین نہ کرسکی اسی طرح اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی تاحال عوام کو یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس کی حکومت کے خاتمے کی وجہ کیا بنی۔ عمران خان پاکستان میں رجیم چینج کو امریکی سازش قرار دے رہے ہیں جبکہ ان کے وزراء اور مشیر برملا اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے خراب تعلقات ان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ بنے ہیں، ان میں نمایاں نام شیخ رشید احمد اور فواد چودھری کا ہے جو برملا اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے خراب تعلقات ان کی حکومت کے خاتمے کی اصل وجہ ہیں، بلکہ ان کے اتحادی پرویزالٰہی کے نزدیک بھی اصل وجہ الٹے سیدھے فیصلوں سے اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنا ہے۔ بلکہ اس کے کئی بڑے وزراء تو اب آہستہ آہستہ خاموش رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

پاکستان کا جی ڈی پی اس وقت 292 ارب ڈالر ہے۔ عمران خان صرف ساڑھے تین برس وزیراعظم رہے، اور ملکی معیشت زمیں بوس کرگئے۔ اسے سنبھالنا اب موجودہ حکومت کا کام ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی، مشکل حالات میں ہمیشہ مدد کی ہے، وزیراعظم شہبازشریف نے بھی معیشت کو سہارا دینے کے لیے جن دوست ممالک سے تعاون کی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ان میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر وزیراعظم نے سعودی عرب کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا، اس دورے کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں بتایا گیا کہ سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک میں موجود 3ارب ڈالرکی واپسی کی مدت میں توسیع کردی ہے، پاک سعودی سپریم کوآرڈی نیشن کونسل کے تحت مختلف امور پر دوطرفہ تعلقات اور تجارت کے فروغ پر اتفاق کیا گیا، دونوں ملکوں کا نجی شعبے میں بھی تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔ اعلامیے کے مطابق دونوں ملک زراعت اور خوراک کے شعبوں میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کریں گے، پاکستان کی معاشی مدد کے طور پر پیٹرولیم کی فنانسنگ بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا، پاکستان کو موخر ادائیگی پر پیٹرولیم مصنوعات کی سپلائی جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی، آئی ایم ایف سے اضافی 2 ارب ڈالر ملنے تک سعودی قرض کی واپسی معطل رہے گی، یواے ای نے بھی سیف ڈپازٹ 2 ارب ڈالر کی واپسی پر اصرار نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، قطر بھی پاکستان کو گیس سپلائی میں درپیش مالی اور لاجسٹک مشکلات کے حل میں تعاون کرے گا۔ آئی ایم ایف سے رواں ہفتے ہونے والے مذاکرات کے بعد تینوں ملک اپنے پیکیج سامنے لائیں گے، اس کے علاوہ چار مختلف ذرائع سے امید افزا پیکیج کے بیک وقت ملنے کا ایسا امکان پہلی بار سامنے آیا ہے۔ آئی ایم ایف کی پیکیج شرائط کی نوعیت اس امکان کی صحت متعین کرے گی، اس کے بعد قیمتوں پر کنٹرول، ڈالر کو قابو میں اور زرمبادلہ کے ذخائر کو توانا رکھنے میں مدد ملے گی۔ مجموعی پیکیج کم از کم 6 اور زیادہ سے زیادہ 8 ارب ڈالر کا ہوگا، ٹائم لائن سامنے آنے پر سیف ڈپازٹ، موخر ادائیگی اور موصول قرض کی مقدار متعین ہوگی۔

پاکستان کے دوست ممالک اور امریکہ میں یہی فرق ہے۔ امریکہ کا اصل ہدف تو یہی ہے کہ کابل میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے نیوکلیئر طاقت کے حامل پاکستان کو معاشی گرداب میں مزید پھنسا کر، سیاسی و آئینی بحران پیدا کرکے ایسی صورتِ حال سے دوچار کیا جائے کہ چین اور پاکستان اپنے مشترکہ معاشی اہداف تک نہ پہنچ پائیں۔ یہ ایک گریٹر گیم کا حصہ ہے، امریکہ اس گیم میں اس قدر کامیاب ہوگیا ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں ہونے والے واقعے پر بھی ایک مسلم ملک ہونے کے باوجود بدتر حد تک تقسیم ہوچکے ہیں۔ اس پر صرف امریکہ خوش ہے اور قادیانی۔ یہ جو ملک میں انارکی پھیل رہی ہے،اداروں کے خلاف نعرے بازی،عدلیہ پر وار،عوام کو ایک خونی جتھے میں تبدیل کرنا… یہ سب انہی چالوں کا حصہ ہے۔ اس کے بعد سی آئی اے،موساد،را،بلیک واٹر کے لیے مشکل نہیں کہ وہ ہم سے وسائل چھین لے جائیں، اس کے بعد ہمارے مقدر میں صرف غربت کی لکیر رہ جائے گی چاہے پھر ہم اس کے اوپر رہیں یا نیچے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔