سود… حکومتی حیلہ سازیوں کا سد باب بھی ضروری ہے

اہل ایمان کی طویل جدوجہد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے، وفاقی شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جس میں ریاست اور حکومت کو واضح الفاظ میں ہدایت کی گئی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسولؐ سے جنگ کا سلسلہ ختم کیا جائے کہ ہماری معیشت اور معاشرت کی تباہی اور سنگین نوعیت کے نہ ختم ہونے والے معاشی مسائل کا بڑا سبب یہی جنگ ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے 26 رمضان المبارک یا ستائیسویں شب رمضان کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں سود یا ربو ٰ کی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دے کر واضح کیا ہے کہ بنکوں کی جانب سے اصل رقم سے زائد رقم کی وصولی ربو ٰ ہے جو اسلام، قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف ہے عدالت نے سود کے لیے سہولت کاری والے تمام قوانین اور ان کی ذیلی شقوں کو بھی غیر شرعی قرار دے کر اس برس 31 دسمبر تک ایسے تمام قوانین کو شریعت کے مطابق بنانے کی ہدایت کی ہے جب کہ حکومت کی طرف سے سود سے پاک بینکاری نظام کے نفاذ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات کو عدالتی فیصلے میں مسترد کر دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ حکومت اندرون و بیرون ملک کے تمام قرضوں کو سود سے پاک نظام کے تحت لائے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق تیس فیصد بینکاری پہلے ہی سود سے پاک نظام پر منتقل ہو چکی ہے۔ اس لیے اٹارنی جنرل کا یہ موقف کہ مروجہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے مناسب وقت دیا جائے قابل قبول نہیں کیونکہ شرعی عدالت کے پہلے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے عدالت عظمیٰ نے بھی توسیع دی تھی اب دو دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام رائج کرنے کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے، عدالت نے فیصلے میں یہ وضاحت بھی دی کہ دوران سماعت جب فریقین سے مزید مہلت دیئے جانے سے متعلق رائے طلب کی گئی تو ان کی رائے میں یکسانیت نہیں تھی۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت کو احساس ہے کہ نظام کو تبدیل کرنے میں وقت لگے گا تاہم یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے ملک سے سود کا خاتمہ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا مگر یہ عمل بہت سست رہا۔ عدالت نے توقع ظاہر کی ہے کہ حکومت اب سود کے خاتمہ سے متعلق پیش رفت سے متعلق رپورٹ مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کرے گی اور مکمل طور پر سود سے پاک بینکاری نظام کے نفاذ کے لیے پانچ سال کا وقت کافی ہو گا اس لیے حکومت 31 دسمبر 2027ء تک تمام سودی نظام ختم کرے۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کے لین دین سے متعلق قوانین کی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ملکی قوانین میں جہاں کہیں بھی سود کا لفظ آتا ہے، اسے ختم کیا جائے اور سود کی اجازت سے متعلق تمام قوانین کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو یکم جون 2022 تک ان قوانین میں ترمیم کا حکم بھی عدالت کے فیصلے میں دیا گیا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے سود سے متعلق اس فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت واضح، تفصیلی اور جامع حکم ہے جس میں فریقین کا موقف تفصیل سے سننے کے بعد عدالت نے اپنی ٹھوس رائے قائم کی ہے اس فیصلے کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ ملک کو حقیقی معانی میں اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد کا آغاز قیام پاکستان بلکہ اس سے بھی پہلے کر دیا گیا تھا تاہم سود کی لعنت سے نجات کے لیے عدالتی جنگ بھی دو چار برس کی بات نہیں بلکہ تیس بتیس برس پر محیط ہے۔ اس ضمن میں پہلی درخواست 30 جون 1990 کو وفاقی شرعی عدالت میں دائر کی گئی تھی، 1991ء میں جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی سربراہی میں عدالت کا تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا جس نے سودی نظام کے خلاف شریعت اور خلاف آئین ہونے کا فیصلہ دیا مگر اس پر نیک نیتی سے عمل کرنے کی بجائے وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا جس نے شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا اور جون 2000ء تک اس فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیا مگر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے عدالت عظمیٰ نے فیصلے پر بھی نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی جس پر 24جون 2002ء کو عدالت عظمیٰ نے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا اور ربو ٰ کی تشریح کے لیے معاملہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو بھجوا دیا گیاجہاں 2002ء سے 2013ء تک اس کیس کی سماعت کی نوبت ہی نہ آ سکی۔ سود کے خاتمہ سے متعلق یہ درخواستیں جماعت اسلامی پاکستان سمیت 88 مدعین کی جانب سے دائر کی گئی تھیں جن میں سے بہت سے درخواست گزار اور عدالتی معاونین اپنی مہلت عمر پوری کر کے اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو گئے جب کہ خود وفاقی شرعی عدالت کے نو منصفین اعلیٰ درخواست گزاروں کو انصاف فراہم کئے بغیر گھروں کو واپس چلے گئے۔ یہ ہمارے عدالتی نظام کی بے عملی کی ناقابل تقلید مثال ہے کہ ایک معاملہ کو فیصل ہونے میں 32 برس گزر جاتے ہیں مگر حکومتی وکیل فیصلے پرعملدرآمد کے لیے مزید طویل مہلت کے طلب گار دکھائی دیتے ہیں اور عدالت بھی ناں ناں کرتے مزید پانچ سال کی مدت دے دیتی ہے جس کا جواز تلاش کرنا آسان نہیں، تاہم اب بھی جب کہ عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے تو حکومت اس پر عملدرآمد میں قطعی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ اس فیصلے کو حکمرانوں نے سنا ان سنا کر دیا ہے یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا ہے کیونکہ عدالت نے حکومت کو سود سے متعلق قوانین میں یکم جون تک ترمیم کی ہدایت کی ہے جس میں اب محض دو ہفتے کا وقت باقی ہے مگر حکومتی ایوانوں میں اس سلسلے میں کہیں کوئی سرگرمی، سنجیدگی یا حرکت دکھائی نہیں دے رہی اور خدشہ ہے کہ حکومت وقت گزار کر کوئی نا معقول جواز لے کر عدالت پہنچ جائے گی اس لیے ضرورت ہے کہ اس معاملہ کو عدالت میں لے جانے والے سنجیدہ فکر اسلامی حلقے عدالتی فیصلے پر موثر انداز میں عملدرآمد اور قوم کو سود کی لعنت سے واقعی نجات دلانے کے لیے حکومتی کارکردگی کی مسلسل نگرانی اور دبائو جاری رکھنے کے لیے موثر لائحہ عمل بھی اختیار کریں تاکہ حکمران اپنی حیلہ سازیوں کے ذریعے اتنی محنت سے حاصل کئے گئے اس نہایت اہم فیصلے کو غیر موثر نہ کر سکیں۔
(حامد ریاض ڈوگر)