شاعری کے ضمن میں نعت گوئی سب سے مشکل صنف ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان شاعر محض عقیدت اور موزوں طبع کے ساتھ نعتیہ اشعار نہیں کہہ سکتا۔ اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو نعت گوئی ایک نہایت لطیف اور دقیق فن ہے جو صرف محبانِ مصطفیؐ کو نصیب ہوتا ہے۔ اسی لیے اہلِ ادب کا کہنا ہے کہ نعت گوئی کا راستہ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔ نعت کا بنیادی جوہر محبتِ رسولؐ ہے، اس لیے اس کو ہاتھ لگانا اتنا آسان نہیں جتنا کہا جاتا ہے اس کے حیاتِ سرورِ کونینؐ اور مقامِ رسالت سے آشنائی لازم ہے۔ جب کسی بھی مسلمان شاعر کو نسبتِ مصطفیؐ و اہلِ بیتؓ میں پختگی نصیب ہوتی ہے تو اس کے قلم سے محبتِ رسولؐ کے موتی الفاظ کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بحیثیتِ مسلمان ہمارا یمان ہے کہ سارے سارا قرآن پاک سرکارِ دوعالمؐ کی سیرت [نعت] ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی مکرمؐ کا ذکر بلند و بالا کرنے کے لیے قرآن پاک میں مختلف انداز میں حضور اکرمؐ کی قسم کھائی ہے حالانکہ اُس کی عالی شان ذاتِ بابرکت قسمیں کھانے سے بے نیاز ہے۔ جس مقدس ترین ہستی کی قسمیں اللہ پاک خود کھاتا ہے اس ہستی کے ظاہری اور باطنی کمالات و اوصاف کا عالم کیا ہوگا۔ لہٰذا نعت کہنے والا سنتِ الٰہی کا پیروکار ہے اور یقینا حریمِ ناز کا مکین ہے۔
زیر نظر کتاب کے مصنف سعید بدر نے نعت گوئی میں مروجہ نعتیہ اسلوب سے ہٹ کر ایک منفرد انداز اپنا یا ہے۔ ان کا صدارتی ایوارڈ یافتہ نعتیہ مجموعہ ’’سجدۂ شوق‘‘ روحانی اعتبار سے محبتِ مصطفیؐ کا ایک ایسا پیغام ہے جو مردہ دلوں کو حیاتِ نو بخشنے کی طاقت سے مالامال ہے۔ جدید دور میں نعت گوئی کا کینوس بہت وسیع ہوچکا ہے۔ جناب سعید بدر کی نعتیہ شاعری میں کیف و سرور اور وارفتگی کا عنصر ایک خاص انداز میں موجود ہے کیونکہ جذب و مستی، بے خودی میں اس وقت ڈھلتی ہے جب محبان صادق کو محبوب کی بارگاہ سے براہِ راست محبت کا پیغام موصول ہوتا ہے۔ ’’بعد از خدا توئی قصہ مختصر‘‘ یہ حقیقت آشکار کرتا ہے ، بارگاہِ مصطفیؐ ہی قربتِ الٰہی ہے ، کسی مسلمان کی یہ خوش نصیبی ہوتی ہے جب وہ نبی کریمؐ کی محبت میں ڈوب کر اپنے اعمال کو سنتِ نبویؐ میں ڈھالتا ہے تو ایسا مقام پاتا ہے جس پر ہر مومن رشک کرسکتا ہے۔ سعید بدر کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
عشق کے دعوے بہت کرتا ہے تُو سعیدؔ
کیا ترے اعمال ہیں مصداقِ فرمان، رسولؐ
دین و دنیا کی ملیں گی تم کو ساری نعمتیں
تھام کر! دیکھو سہی، تم دل سے دامانِ رسولؐ
سعید بدر اپنے اشعار میں نبی پاکؐ کی تعریف کے ساتھ فرامینِ رسولؐ پر عمل پیرا ہونا ہی لازم قرار دے رہے ہیں۔
ایک مرتبہ تاجدارِ کائنات اپنے کاشانۂ نبوت سے نکلنے اور نہایت سبک رفتاری سے ایک صحابیؓ کے گھر پہنچے اور اس سے دریافت کیا کہ وہ اس وقت اپنے گھر میں کیا کررہے تھے۔ صحابیؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ میں اور میرا خاندان آپؐ کے بچپن کا ذکر کررہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ آسمانِ بالا سے ایک نور تمھارے گھر میں اُترا ہوا تھا۔ میں یہ نور دیکھ کر تمھارے گھر آیا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ ذکرِ مصطفیؐ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس خوبصورت حقیقت کو جناب سعید بدر نے بڑے یقینِ کامل سے یوں بیان کیا ہے:
ابرِؔ رحمت آج میرے گھر میں برسے گا ضرور
میں ذکرِ احمدمرسلؐ کیا ہے حرزِ جاں
تاجدارِ کائناتؐ کے غلاموں کامقام بلند سمجھنا آسان نہیں۔ فتح مکہ کے بعد جب سرکارِ دوعالمؐ، شان عالی مرتبت کے ساتھ صحنِ کعبہ میں داخل ہوئے تو حضرت بلالِ حبشیؓ سے فرمایا: ’’بلالؓ کعبے کی چھت پر چڑھ جاؤ اور اذان کہو۔ حکمِ مصطفیؐ کی فوری تعمیل کی گئی۔‘‘ حضرت بلالِ حبشیؓ بھی نسبتِ مصطفیؐ پر رشک کرتے ہوں گے کہ غلامیِ مصطفیؐ کا کیا مقام ہے کہ آج خانہ کعبہ اُن کے پائوں تلے تھے۔ اس حقیقت سے جناب سعید بدر کچھ یوں پردہ اُٹھاتے ہیں:
آپؐ نے بخشے غلاموں کو مقاماتِ بلند
رُستگاری پاگئے جو تھے اسیرانِ ستم
درود شریف پڑھنا حکمِ الٰہی ہے۔ واصف علی واصف لکھتے ہیں: ’’کہ اللہ پاک جس بندے سے محبت کرتا ہے اُسے درود شریف پڑھنے کی سعادت سے بہرہ مند فرما دیتا ہے۔ اس لیے درودِپاک قربتِ مصطفیؐ کے حصول کا یقینی نسخہ ہے اور جس اُمتی کو محبتِ رسولؐنصیب ہوجائے تو وہ محبتِ اہلِ بیتؓ اور محبتِ صحابہؓ سے ہرگز محروم نہیں ہوسکتا۔‘‘ سعید بدر نے اس ابدی حقیقت کو اتنے حسین پیرائے میں بیان کیا ہے:
پڑھتے ہیں درودآپؐ پر سب نوری و خاکی
ہیں مدح سرا صبح و مسا، خلقت و خلاق
جناب سعید بدر ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور کسی مسلمان کو ایمان اُس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ سیّد المرسلینؐ کو ’’خاتم النبیینؐ‘‘ تسلیم نہ کرلے۔ کیونکہ آپ سیّد الانبیاؐ تو ہیں ہی لیکن اللہ تعالیٰ کی نبی اوّلین و آخرین سے محبت کا عالم یہ ہے کہ ربِّ کائنات نے ’’خاتم النبیینؐ‘‘ کا تاج بھی آپؐ کے سرپر ہی سجایا ہے۔ لہٰذا اس کے عقیدے کی پاسداری اور حفاظت ہر مسلمان کے ایمان کی ضمانت ہے۔ سعید بدر کا قلم اس مقام پر بھی سجدۂ شکر بجالاتے ہوئے، پکار اُٹھتا ہے:
اےؔ کہ جن کے بعد آسکتا نہیں کوئی نبیؐ
’’لا نبی بعدی‘‘ فرمایا جنھوں نے بے گماں
سعید بدر کا مذکورہ نعتیہ مجموعہ ’’سجدۂ شوق‘‘ ادبِ خدا و مصطفیؐ کا ایک نہایت حسین گل کدہ محسوس ہوتا ہے۔ جس میں جذباتِ عیقدت اور آگاہی حقیقت کے ساتھ ساتھ سرکارِ دوعالمؐ کے اُسوہ حسنہ اور آپؐ کی ذات سے وابستہ زمان و مکاں کی دلکش جھلکیاں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی نعتیہ شاعری میں سادگی، شائستگی، سلاست اور روانی موجود ہے اور ان کے نعتیہ (باقی صفحہ 41پر)
اشعار قلوب و اذہان کے تاریک گوشوں کو محبتِ رسولؐکی لافانی روشنی سے منور کرتے چلے جاتے ہیں اور قاری ’’سجدۂ شوق‘‘ کے مطالعہ کے دوران خود کو ’’دربارِ رسالتؐ‘‘ میں کھڑا محسوس کرتا ہے۔
سعید بدر کا نعتیہ کلام محبانِ مصطفیؐ کے دلوں کو ہمیشہ گرماتا رہے گا اور وہ ان کے نعتیہ کلام سے فرحت، تازگی اور ایمانی حرارت حاصل کرتے رہیں گے۔ اللہ پاک کے سچے اور پکے غلام کی نشانی یہ ہے کہ چاہے اُس کی زندگی کے تمام شب و روز، تقویٰ و پرہیزگاری سے مزین ہوں مگر اُس کی نگاہ اپنی عابدانہ زندگی کی بجائے محض اللہ پاک کے فضل و کرم پر رہتی ہے اور وہ ہمیشہ زبانِ حال سے اس بات کا شکر ادا کرتا ہے کہ نیکی کی توفیق ہمیشہ فضل باری تعالیٰ کے بغیر قطعی طور پر ممکن نہیں۔ اسی لیے وہ اللہ پاک سے اُس کے عدل کی بجائے ہمیشہ فضل کا طلبگار رہتا ہے اور کمالِ بندگی کا راز بھی اسی عاجزی میں پنہاں ہے۔ سعید بدر کی نگاہِ طلب بھی ہمیشہ اپنے مالکِ حقیقی کے در پر لگی رہتی ہے۔ اور وہ بس اسی حقیقت کا اقرار کرتے رہتے دکھائی دیتے ہیں:
یہ میریؔ بے ثمر سی زندگی تو آنی جاتی ہے
اگر تو بخش دے یاربّ! یہ تیری مہربانی ہے