آٹھواں باب:موسمی آفتیں: ہم کیسے ٹھنڈک اور حرارت کا انتظام کرتے ہیں اکاون بلین ٹن کاربن کا سات فیصد

عالمی حدت پر ایک کتاب میں، گرمی کے انتظام کی بات کرنا عجیب سا ہے۔ جب پہلے ہی باہر اتنی گرمی ہے تو تھرمواسٹیٹ کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ ایک بات، جب ہم حرارت کی بات کرتے ہیں تو صرف ہوا گرم رکھنے کی بات نہیں کرتے، بلکہ پانی گرم رکھنے کی بات بھی کررہے ہوتے ہیں۔ نہانے سے لے کر برتن دھونے تک، اور صنعتی کارگزاریوں میں یہ استعمال ہوتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر جو بات ہے، وہ یہ کہ سردیاں کہیں نہیں جارہی ہیں۔ عالمی درجہ حرارت بڑھنے چڑھنے کے باوجود بہت سارے مقامات پر اب بھی خون جمادینے والی سردی اور برف باری ہوتی ہے۔ آج بھی آپ کو بجلی کی لازماً ضرورت ہے، ورنہ سردی سے ٹھٹھرکرمرجانا یقینی ہے۔ دنیا بھر میں عمارتوں سے خارج ہونے والی کاربن کا ایک تہائی آتش دانوں اور پانی کے ہیٹرز سے برآمد ہوتا ہے۔ لائٹس اور اے سی یونٹس کے مقابلے میں، یہ دونوں قدرتی ایندھن کی توانائی سے کام کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم الیکٹرک گرڈ کی صفائی کے ذریعے ہوا اور پانی سے کاربن الگ نہیں کرسکتے۔
ہمیں حرارت حاصل کرنے کے لیے تیل اور گیس کے بجائے کسی اور ذریعے کا سہارا لینا ہوگا۔ صفر کاربن تک کا سفر ایک مسافر گاڑی کا سفر معلوم ہوتا ہے: (1) ہرشے بجلی سے چلائیں۔ قدرتی گیس، پانی کے ہیٹرز اور بھٹیوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔ (2) صاف شفا ف تیل تیار کرکے استعمال کیا جائے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پہلا قدم منفی گرین پریمیم کا حامل ہے۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں، کہ جو بہت زیادہ مہنگی ہیں، بجلی سے بننے والی حرارت اور ٹھنڈک میں پیسوں کی بچت ہے۔ بیشتر تعمیری مقامات پر اگر آپ ائیر کنڈیشنر اور تیل گیس سے چلنے والے ہیٹرز کے استعمال سے گریز کریں اور بجلی سے چلنے والے ہیٹ پمپ کو متبادل کے طور پر استعمال کریں، اس طرح مجموعی لاگت خاصی کم ہوجائے گی ۔ ہیٹ پمپ کا خیال شاید آپ کے لیے نیا ہو۔ تاہم یہ تصور آسان ہے کہ پانی اور ہوا کی پمپنگ کس طرح ہوسکتی ہے۔ زمین پر آپ کس طرح گرمی کوپمپ کرسکتے ہیں؟
ہیٹ پمپ اس حقیقت کا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ گیسیں اور مائع پھیلتے اور سکڑتے ہیں۔ یہ پائپوں کے ذریعے کام کرتے ہیں، ایک کمپریسر اور خاص والوزدباؤ بدلنے کے کام آتے ہیں، تاکہ کولینٹ (COOLANT) ایک جگہ کی گرمی جذب کرکے دوسری جگہ خارج کرسکے۔ سردیوں میں آپ گرمی باہر سے اندر منتقل کرتے ہیں، یہ شدید ترین سردی میں ممکن نہیں۔ گرمیوں میں بالکل اس کے برعکس کرتے ہیں، اندر کی گرمی باہر منتقل کرتے ہیں۔ اس میں کوئی پراسراریت نہیں ہے۔ آپ پہلے ہی سے ایک ہیٹ پمپ گھر میں رکھتے ہیں، اسے ہم ریفریجریٹرکہتے ہیں۔ وہ گرم ہوا جو آپ کے فریج کے پیچھے سے خارج ہوتی ہے، وہ دراصل پھلوں، سبزیوں اور دیگراشیاء کی گرمی منتقل کررہی ہوتی ہے، اور اسے ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کررہی ہوتی ہے۔
ہیٹ پمپ آپ کی کتنی بچت کرسکتا ہے؟ یہ شہر شہر مختلف ہے، اس کا انحصارسردی کی شدت پر ہے، بجلی اور گیس کی لاگت پر ہے، اور دیگرکچھ عوامل بھی دیکھے جاتے ہیں۔ ہوسٹن میں سترہ فیصد بچت ہوگی۔ شکاگو میں خرچ چھ فیصد بڑھ جائے گا۔ یہ منفی گرین پریمیم چند سوال اٹھاتے ہیں: اگر ہیٹ پمپ اتنے ہی کارآمد اورآسان ہیں تو پھر صرف گیارہ فیصد امریکی گھرانوں میں کیوں استعمال ہورہے ہیں؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم عام طور پر گھر کی چیزیں ایک دہائی یا اس سے کچھ کم یا زیادہ عرصے میں ہی جاکر تبدیل کرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے پاس اتنا اضافی کیش نہیں ہوتا کہ بھٹی یا ہیٹر کوہیٹ پمپ سے بدل دیں۔ ایک اور وضاحت بھی موجود ہے: آؤٹ ڈیٹڈ حکومتی پالیسیاں۔ 1970ء کی دہائی میں توانائی کے بحران کے بعد سے ہم توانائی کے استعمال میں کٹوتی کرتے آئے ہیں۔ قدرتی گیس سے جلنے والی بھٹیوں اور واٹر ہیٹرز کو بجلی سے چلنے والی اشیاء پر ترجیح دی گئی۔
بدقسمتی سے، اگرچہ تکنیکی طورپر یہ ممکن ہے کہ بجلی کے استعمال سے اس شعبے میں کاربن اخراج صفر پر لے جایا جائے، مگر یہ تیزی سے ممکن نہیں ہوگا۔ یہ سوچنا سادگی ہوگی کہ راتوں رات گیس کے چولہے(گیزر) اور واٹر ہیٹرز کو بجلی سے چلنے والی اشیاء سے بدل دیا جائے۔ اس وقت امریکہ میں برائے فروخت نصف گیزرگیس پرچلتے ہیں، اور دنیا بھر میں گرم پانی یا حرارت پیدا کرنے کے لیے بجلی کی نسبت قدرتی ایندھن چھ گنا زیادہ توانائی مہیا کرتا ہے۔
میرے لیے یہ ایک اور دلیل ہے اس بات کی کہ آیا ہمیں جدید بائیو فیول اور الیکٹروفیول کی ضرورت کیوں ہے، کہ جنہیں گیزر اور بڑی بھٹیوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے کسی ترمیم کی بھی ضرورت نہیں، اور اس سے فضا میں مزید کاربن بھی شامل نہیں ہوتی۔ تاہم دونوں طریقے بھاری گرین پریمیم کا تقاضا کررہے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ ہمیں متبادل تیل کی لاگت کم سے کم کرنی ہوگی۔ دیگر کئی طریقے بھی ہیں کہ جن سے ہم ہیٹنگ سسٹم سے کاربن کم کرسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بجلی کا استعمال، گیس سے چلنے والے گیزروں اوربھٹیوں سے نجات حاصل کرنا، اور انہیں الیکٹرک ہیٹ پمپ سے بدل لینا۔ حکومتوں کو ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جن سے ان چیزوں کے استعمال میں جدت لائی جاسکے۔
پاور گرڈ کوکاربن فری کرنے کے لیے صاف ستھری توانائی کے ذرائع کا استعمال ترجیح ہونی چاہیے، کہ جہاں توانائی پیدا کی جاسکے، ذخیرہ کی جاسکے، اور بجلی مہیا کرسکے۔
دنیا اس وقت بڑے تعمیراتی دور سے گزر رہی ہے۔ بڑھتی چڑھتی شہری آبادیاں بتا رہی ہیں کہ سن 2060ء تک ہم 2.5 ٹریلین اسکوائر فیٹ تعمیرات کا اضافہ کرچکے ہوں گے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے بیشتر تعمیرات مؤثر طور پر توانائی کا استعمال کررہی ہوں گی۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم جان چکے ہیں کہ کس طرح گرین بلڈنگز تعمیر کرنی ہیں۔ بس ہمیں گرین پریمیم کی ادائیگی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس کی ایک اچھی مثال سیاٹل کی عمارت The Bullitt Center ہے، جسے دنیا کی بہترین گرینسٹ کمرشل عمارت سمجھا جاتا ہے۔ اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی رہتی ہے، حرارت اور ائیر کنڈیشنگ کی ضرورت یہاں ہے ہی نہیں۔
اگرچہ Bullitt Centerکی بیشتر ٹیکنالوجیزعام استعمال کے اعتبار سے بہت مہنگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعمیر کے سات سال بعد بھی سب سے ماحول دوست عمارت یہی ہے۔ تاہم ہم گھر اور دفاتر میں کم لاگت سے بھی زیادہ مؤثر ماحول دوست طرزِ زندگی اختیار کرسکتے ہیں۔ نئے عمارتی قواعد، توانائی بچانے والے آئیڈیاز ماحول دوست تعمیرات میں معاون ہوسکتے ہیں۔
ہم اب تک گرین ہاؤس گیس کے پانچ بڑے ذرائع کا جائزہ لے چکے ہیں۔ ہم کیسے چیزیں بناتے ہیں، کیسے اگاتے ہیں، کیسے نقل وحرکت کرتے ہیں، اور کس طرح حرارت اور ٹھنڈک کا انتظام کرتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ تین چیزیں اب بالکل واضح ہوچکی ہیں: 1) مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے، تقریباً ہر انسانی سرگرمی سے متعلق ہے۔ 2) ہمارے پاس چند آلات ہیں کہ جنہیں استعمال کرکے کاربن اخراج گھٹایا جاسکتا ہے۔ 3) مگرپھر بھی ہمارے پاس سارے آلات اور جدید ذرائع موجود نہیں ہیں کہ جن کی ہمیں ضرورت ہے۔
اب میں ان واضح اقدامات کی جانب اشارہ کروں گا جنہیں اختیارکرکے ہم آلات کے استعمالات اور جدتیں بہتر سے بہتر بناسکیں گے۔ مگر پہلے ایک سوال کا سامنا کرنا ہوگا کہ ہم بدلتے موسم کے سلسلے میں ایسا کیا کچھ کرسکتے ہیں کہ جو پہلے ہی سے ہورہا ہے؟ اور خاص طور پر ہم دنیا کے غریب ترین شخص کے لیے کیا کرسکتے ہیں، کہ جس نے اس ماحولیاتی تباہی میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے مگرنقصانات سب سے زیادہ اٹھائے گا؟