ہم بات کررہے تھے کن بچوں کو داخلے کی ضرورت پڑتی ہے اور پری میچور بچوں یا جن بچوں کو NICU میں داخل کرنا ضروری ہے ان کے ٹیسٹ کیوں کیے جاتے ہیں۔
ہر وہ بچہ جو 37 ہفتے سے پہلے پیدا ہوجائے، پری میچور ہے۔ مگر کیا سارے پری میچور ایک جیسے ہوتے ہیں، یا سب کے لیے ایک جیسے ٹیسٹ ہیں؟
یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ کن بچوں کو داخل کرنا ضروری ہے، وقت پر پیدا ہوئے ہوں یا وقت سے پہلے۔
ایسے تمام بچے
جو 35 ہفتے سے کم پر پیدا ہوگئے،
جن بچوں کی سانس کی رفتار تیز ہو،
جن بچوں میں انفیکشن کا امکان ہو،
جن بچوں نے پیدائش کے فوراً بعد سانس صحیح طرح نہیں لی اور نیلے پڑ گئے،
جن بچوں نے پیدائش کے بعد سانس نہیں لی اور مصنوعی طریقے سے سانس دینی پڑی،
جن بچوں کی مائیں حمل میں شوگر میں مبتلا ہوجائیں،
جن بچوں میں بظاہر کوئی جسمانی نقص ہو،
ایسی ماؤں کے بچے جن کی بچہ دانی کا پانی 18 گھنٹے سے زائد لیک ہوگیا ہو،
جن بچوں کا کوئی سرجیکل مسئلہ ہو،
جن ماؤں کی ہسٹری میں کوئی ایسا مسئلہ ہو جو بچے کی جان کے لیے خطرہ ہو،
یہ ایک لمبی فہرست ہوسکتی ہے، مگر یہاں سمجھنے کے لیے صرف چیدہ چیدہ مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں۔
اگر ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ کیوں بچے کو داخل کیا گیا ہے تو یہ بھی سمجھنا آسان ہے کہ اس کے بعد NICU میں چند بنیادی ٹیسٹ ضروری ہیں تاکہ بچے کی صحت کو جانچنے میں آسانی ہو، مثلاً اگر سانس کی رفتار تیز ہے تو ایکسرے کرنے سے یہ پتا چلے گا کہ پیدائشی نمونیا تو نہیں!
اسی طرح ایک ایسا بچہ جس کی ماں حمل میں شوگر کا شکار ہوگئی ہے تو وہ بھی ممکنہ طور پر کم شوگر کا شکار ہوسکتا ہے۔ اور اگر یہ چیز چیک نہیں کی گئی تو بچہ ذہنی طور پر پسماندگی کا شکار ہوسکتا ہے اگر بار بار اس کی شوگر کم ہو۔
اگر فورآً توجہ نہ ملے تو بھی سرجیکل مسائل بچے مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں، مثلاً اگر بچے کی پاخانہ کرنے کی جگہ قدرتی طور پر بنی ہوئی نہیں ہے یا پیشاب کی جگہ رکاوٹ ہے تو یہ سرجیکل ایمرجنسی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اور ہسٹری سے جن بچوں میں انفیکشن کے امکانات ہمیں معلوم ہیں اور ہم نے ٹیسٹ بھیج کر فوراً اینٹی بائیوٹک شروع نہیں کی تو انفیکشن زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔
ایک لمبی فہرست ہے جو کہ نومولود بچوں کے این آئی سی یو میں داخلے کی وجوہات پر بیان کی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود روز کئی لوگ اس بات پر شاکی رہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو شاید بلاوجہ داخل کرلیا گیا ہے، اگرچہ کہ تفصیلی حالات بچے کے بارے میں بتادیے جاتے ہیں۔
داخل کرتے ہوئے اور اس کے بعد نومولود کا ایک تفصیلی معائنہ ضرور ہوتا ہے اور بعض اوقات مزید کچھ مسائل کا اندازہ ہوتا ہے تو وہ بھی درج کرلیے جاتے ہیں اور بچے کے والدین کے علم میں لائے جاتے ہیں، جیسے کہ اگر بچے کے چیک اپ میں محسوس ہو کہ بچے کے دل کی دھڑکن تیز ہے، بے ربط ہے یا اس میں کوئی اضافی آواز محسوس ہو تو اس کے لیے دل کا ایکو کارڈیو گرام بعض اوقات بہت ضروری ہوتا ہے،
یعنی نومولود بچے کا پہلا معائنہ بہت تفصیلی ہونا چاہیے جس میں بچوں کی آنکھوں کو بھی آنکھ دیکھنے کے آلے سے چیک کرنا ضروری ہے کہ کہیں پیدائشی طور پر ہی بینائی سے محروم تو نہیں۔
جب بچہ نرسری (NICU) میں داخل ہوجائے کسی بھی وجہ سے،تو اس کے دل کی دھڑکن، سانس کی رفتار، درجہ حرارت وغیرہ بار بار چیک کیے جاتے ہیں، یہ کام مانیٹرز کی مدد سے بھی کیا جاتا ہے مگر نرسنگ اسٹاف خود بھی یہ کام کرتا ہے، اور اس طرح مسلسل بچے پر انکیوبیٹر میں نظر رکھی جاتی ہے۔
یہ عمل تسلسل کے ساتھ 24 گھنٹے جاری رکھنا بچے کی صحت کے لیے بہت اہم ہے۔
ہر مسئلے میں آنے والے بچے کا واپس اپنی ماں کے پاس جانے کا وقت الگ الگ ہوتا ہے۔ کسی دو بچوں کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک شماریاتی اندازہ ضرور ہوتا ہے مگر مثال نہیں بنائی جاسکتی کہ دوسروں کے بچے جلدی کیوں ڈسچارج کردیے گئے اور ہمارا کیوں نہیں؟ کیونکہ ہر بچہ منفرد ہے، ہاں البتہ ڈسچارج کا کچھ سسٹم موجود ہے، مثلاً کوئی بھی بچہ اُس وقت ڈسچارج کے قابل ہے جب وہ اپنے جسم کا درجہ حرارت خود برقرار رکھنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہو، یعنی کوئی اونچ نیچ نہ ہورہی ہو،
جب وہ کسی نہ کسی ذریعے سے دودھ اتنی مقدار میں پینے اور ہضم کرنے کے قابل ہوچکا ہو جس کے بعد اس کو کسی Intravenous ذریعے سے توانائی کی ضرورت نہ پڑے،
مثلاً اگر بچہ ٹیوب کے ذریعے، سرنج کے ذریعے، کپ فیڈنگ سے یا ڈائریکٹ ماں سے یا دودھ کی بوتل سے دودھ پی سکتا ہو ، تو ڈسچارج کے قابل ہے۔
کوئی بڑا مسئلہ باقی نہ رہا ہو جس کی وجہ سے NICU میں رہنا ضروری ہو۔
بعض اوقات مختلف وجوہات سے ڈسچارج کے بعد گھر پر بھی اسپتال جیسی سہولیات کا فراہم کرنا مجبوری ہوتا ہے جس کے لیے الگ انتظامات والدین کی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔
آج کے لیے اتنا ہی، اِن شاء اللہ اگلی نشست میں پری میچور بچوں کے مخصوص مسائل پر بات کریں گے تاکہ ٹاپک مکمل ہوسکے۔