ٹی بی ایک متعدی مرض ہے جو جراثیم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جراثیم چھوٹے، غیر مرئی نامیات ہوتے ہیں جو انسان کے جسم سمیت ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر جراثیم غیر مضرت رساں، یہاں تک کہ مفید بھی ہوتے ہیں۔ معدے میں پائے جانے والے جراثیم مفید جراثیم کی مثالوں میں شامل ہیں جو ہماری کھائی ہوئی غذا کو ہضم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ جراثیم مضرت رساں ہیں اور ایسے امراض کا باعث ہوسکتے ہیں جنہیں ہم انفیکشنز یا متعدی کہتے ہیں۔ ٹی بی کا باعث بننے والے جراثیم اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ اگر جراثیم خود کو جسم کے اندر کسی حصے سے منسلک کرکے فزوں ہونے لگتے ہیں اور جسم بذاتِ خود اس کے دفاع پر قادر نہیں ہوتا تو یہ کیفیت ٹی بی کا مرض کہلاتی ہے۔ پھیپھڑوں میں ٹی بی ہوجانا بہت ہی عام ہے، لیکن یہ جسم کے دیگر حصوں مثلاً کاسۂ سر، لمفی غدود، یا دماغ میں بھی ہوسکتا ہے۔ ٹی بی کا باعث بننے والے جراثیم کو مائیکرو بیکٹیریم ٹیوبرکلوسس خرد جرثومیاتی تپ دق (Mycrobacterium tuberculosis)کہا جاتا ہے۔
ٹی بی کا مرض چھوٹے ذرات کے ذر یعے ہوا کی معرفت پھیلتا ہے۔ یہ ذرات ٹی بی میں مبتلا فرد کی ناک اور منہ سے آتے ہیں، اور جب وہ فرد بات کرتا، کھانستا یا چھینکتا ہے تو یہ ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ٹی بی کے جراثیم انھی میں سے بعض ذرات کے اندر ہوتے ہیں۔ جب کوئی اور فرد اسی ہوا میں سانس لیتا ہے تو ٹی بی کے جراثیم والے کچھ ذرات اس کے جسم میں داخل ہوکر اس کے پھیپھڑوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ٹی بی کے جراثیم سے متاثرہ افراد لازمی طور پر بیمار نہیں پڑتے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی اپنے اجسام میں ٹی بی کے جراثیم کی حامل ہوتی ہے لیکن ان میں سے صرف بعض میں ہی یہ مرض فروغ پاتا ہے۔ کوئی ایسا فرد جسے 3–2 ہفتے یا اس سے زیادہ وقت سے کھانسی ہے اس کے پھیپھڑوں میں ٹی بی ہوسکتی ہے۔
پھیپھڑوں کی ٹی بی کی علامات میں سینے میں درد، کھانسنے کے وقت پھیپھڑوں کے اندرونی حصے سے بلغم کبھی کبھی خون کے ساتھ خارج ہونا شامل ہے۔ اسی طرح بھوک کم ہوجانا، وزن کم ہوجانا، کمزور اور تھکا ہوا محسوس ہونا، کچھ عرصے سے کھانسی ہونا، رات میں پسینہ آنا، گردن کے اوپر، بازوؤں کے نیچے سوجن ہونا بھی ٹی بی کی عمومی علامات ہیں۔ ٹی بی کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ ٹی بی کس کو ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا عام فہم جواب یہ ہے کہ جن افراد کا لمبے عرصے تک ٹی بی کے حامل ایسے افراد کے ساتھ قریبی رابطہ رہا ہوتا ہے جنہوں نے ابھی تک معالجہ شروع نہیں کیا ہے، انہیں یہ مرض ہوسکتا ہے۔ ٹی بی کے جراثیم آسانی سے نہیں پھیلتے، لہٰذا انفیکشن عام طور پر ایسے افراد کے درمیان پیدا ہوتے ہیں جو ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباً آٹھ ملین افراد کو ہر سال ٹی بی ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی بی کے مریضوں کے ساتھ پیالیوں، رکابیوں، چھریوں، کانٹوں اور چمچوں کا اشتراک کرنا محفوظ ہے۔ ایسے کپڑے، بستر یا بستر کی چادریں استعمال کرنا محفوظ ہے جنہیں ٹی بی کے مریضوں نے استعمال کیا ہو۔ اسی طرح ٹی بی کے مریضوں کے ساتھ حسب معمول، سماجی ربط ضبط بنانا بھی محفوظ ہے۔
ٹی بی کے علاج سے متعلق یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ اُس عرصے تک دوائیں لیتے رہیں جتنے عرصے تک ڈاکٹر آپ کو لینے کوکہتا ہے۔ اگر آپ بہت پہلے دوائیں لینا بند کردیتے ہیں تو دوبارہ بیمار پڑسکتے ہیں۔ ٹی بی کے جراثیم متمرد بھی ہوسکتے ہیں، اورنتیجے کے طور پر اگر آپ کو دوا بہت پہلے چھوڑ دینے کے بعد پھر سے لینا شروع کرنا پڑتا ہے تو یہ کم کارگر ہوسکتی ہے۔
ٹی بی سے شفایاب ہونے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنی دوا روزانہ اُس وقت تک لیتے رہنی چاہیے جب تک ڈاکٹر نے لینے کو کہا ہے۔ چاہے آپ کو بہتری کا احساس ہو، تب بھی دوائی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ ٹی بی کے جراثیم اس کے بعد بھی آپ کے جسم میں زندہ رہیں گے چاہے آپ کو ان کا احساس نہ ہو۔ یہ جراثیم دھیرے دھیرے مرتے ہیں۔ اگر بطور مریض کسی کوکوئی دشواری ہے تو اُسے اس مسئلے کو نظراندازکرنے کے بجائے اپنے ڈاکٹر، ٹی بی سے متعلق رابطہ کار، یا ہوم نرس سے رجوع کرنا چاہیے۔
معاشرے، خاص کر خیبرپختون خوا میں ٹی بی کی بڑھتی ہوئی خطرناک شرح کے پیش نظر گزشتہ دنوں عالمی یوم تپ دق کے حوالے سے ٹی بی کنٹرول پروگرام خیبر پختون خوا، محکمہ صحت،کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ اور دیگر ڈونرز اداروں کے اشتراک سے خیبر میڈیکل یونیورسٹی(کے ایم یو) پشاورکے ملٹی پرپز ہال میں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس سے سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسزخیبرپختون خوا ڈاکٹر ایوب روز، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل محکمہ جیل خانہ جات خیبرپختون خوا ریحان گل خٹک، ڈائریکٹر کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ ڈاکٹر صائمہ آفاق، ڈائریکٹر مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ پروگرام ڈاکٹر صاحب گل، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز خیبر پختون خوا ڈاکٹر عبیداللہ، نمائندہ مرسی کور مس لبنیٰ جاوید، نمائندہ عالمی ادارۂ صحت ڈاکٹر بابر عالم، نیشنل ٹی بی پروگرام کے نیشنل کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر عبدالولی، اور صوبائی ٹی بی کنٹرول پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مدثر شہزاد نے خطاب کیا۔ مقررین نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹی بی ایک قابلِ علاج مرض ہے، اور اگر کسی کو دو ہفتوں سے زیادہ کھانسی اور بخار ہو تو اُسے قریبی ٹی بی مرکز میں جاکر اپنے ٹیسٹ کروانے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی بی کا ایک مریض 10 سے 15 صحت مند لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے، اس لیے تمام لوگوں میں ٹی بی کے متعلق آگاہی پیدا کرنا حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ تمام شہریوں کا مشترکہ قومی فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی بی کو کلنک کا ٹیکہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کو ایک بیماری سمجھ کر اس کے علاج پر توجہ اور اس سے بچائو کے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ٹی بی ایک متعدی مرض ہے اور اس پر قابو پانا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ہم سب کو مل جل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کمیونٹی، خاص کر نوجوانوں کو ٹی بی سے متعلق آگاہی مہمات میں شامل کرکے بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
ماہرین نے توقع ظاہر کی کہ کے ایم یو نے اب تک مختلف امراض سے نمٹنے میں مختلف محاذوں پر جو قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں امید ہے کہ اس کی انتظامیہ، فیکلٹی اور طلبہ ٹی بی کے موذی مرض سے نمٹنے میں بھی اسی جوش و جذبے سے کام کریں گے۔
قبل ازیں صوبائی ٹی بی کنٹرول پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مدثر شہزاد نے تقریب سے خطاب کے دوران وطنِ عزیز میں ٹی بی کی صورت حال اور اعداد وشمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی 24 مارچ کو ٹی بی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا میں ٹی بی کے مریضوں کے حوالے سے پانچویں نمبر پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال55000 افراد ٹی بی سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ ایک لاکھ لوگوں میں ہر 259 افراد ٹی بی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر ٹی بی کنٹرول پروگرام ڈاکٹر مدثر شہزاد نے کہا کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں سالانہ تقریباً 40 ہزار نئے مریضوں میں ٹی بی کے مرض کی تشخیص ہوئی ہے، جب کہ صوبے بھر میں 2002ء سے اب تک 667600 مریض رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مزاحمتی ٹی بی پورے معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جبکہ صوبائی ٹی بی کنٹرول پروگرام نے مزاحمتی ٹی بی کے 2012ء سے لے کر اب تک 2800 مریضوں کا بالکل مفت علاج کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں ٹی بی کی تشخیص کے لیے لیبارٹریاں موجود ہیں جن کو عنقریب پورے صوبے کے تمام اضلاع تک پھیلایا جائے گا۔ مزاحمتی ٹی بی کے ایک مریض کے علاج پراوسطاً دس لاکھ روپے خرچہ آتا ہے جبکہ صوبائی ٹی بی کنٹرول پروگرام مریضوں کو علاج کی تمام سہولیات بالکل مفت فراہم کررہا ہے۔صوبائی محکمہ صحت نے کم وسائل کے باوجود ٹی بی کی روک تھام کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے ہیں جس سے صوبائی حکومت کے عزم اور جدوجہد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صوبائی حکومت نے ٹی بی کی روک تھام کے حوالے سے عالمی اہداف کے حصول کا عہد کیا ہے۔ اس سلسلے میں 2016ء میں صوبائی اسمبلی سے ٹی بی بطور قابلِ اطلاع بیماری ایکٹ منظور کیا گیا جس کی رو سے ٹی بی کے ہر نئے مریض کی بروقت اطلاع لازمی قرار دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خوا میں مزاحمتی ٹی بی ایک بڑے خطرے کے طور پر بھی ابھر رہی ہے۔ ٹی بی کے اس خطرناک موذی مرض کی روک تھام کے لیے صوبے میں پانچ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ یہ مراکز پشاور ، ایبٹ آباد، ڈی آئی خان ، سوات اور مردان میں زیر عمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبے کے دس اور اضلاع میں بھی مزاحمتی ٹی بی کے مراکز عنقریب قائم کر دئیے جائیںگے۔
ڈاکٹر مدثر شہزاد نے بتایا کہ صوبائی ریفرنس لیبارٹری برائے ٹی بی کا قیام حکومت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ یہ لیبارٹری حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں 2014ء میں قائم کی گئی ہے جو صوبے بھر کے ٹی بی کے مریضوں کو معیاری تشخیصی سہولیات مہیا کرنے میں اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ دو بائیو سیفٹی لیبارٹریاں ایبٹ آباد اور ڈی آئی خان میں قائم ہیں جو کہ صوبائی ریفرنس لیبارٹری کے ساتھ ذیلی لیبارٹریوں کے طور پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ جین ایکسپرٹ جیسی جدید مشینوں کے ذریعے حساس اور مزاحمتی ٹی بی دونوں کی تشخیص اب جلد ممکن ہے۔ یہ مشینیںصوبے بھر کے بڑے ہسپتالوں سمیت تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں بھی نصب کی جا چکی ہیں۔ مزاحمتی ٹی بی کے علاج کی دستیابی کے لیے ٹی بی پروگرام کو اپنی کوششیں مزید مربوط کرنی پڑیں گی۔ مزاحمتی ٹی بی کے مریضوں کی بروقت تشخیص اور موثر علاج کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی سرپرستی کے ساتھ ساتھ معیاری ادویہ کی فراہمی اور ترسیل میں ٹی بی پروگرام اور محکمے کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ ان کاکہنا تھا کہ حکومت ِخیبر پختون خوا اِس سال ٹی بی کے عالمی دن کو اس عزم کے ساتھ منارہی ہے کہ ٹی بی کے خلاف جنگ کوقومی جذبے کے ساتھ جاری رکھا جائے اور ٹی بی کے مریضوں کو جدید معیاری سہولیات ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائیں۔
تقریب کے دوران جہاں ٹی بی سے متعلق کوئز مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں طلبہ وطالبات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وہاں آخر میں مہمان مقررین کو ٹی بی کے سدباب کے لیے ان کی شاندار خدمات پر خصوصی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔