برصغیر کی سرزمین ٹھگوں کے لیے ہمیشہ بہت زرخیز ثابت ہوئی۔یہ انہی میں سے ایک ٹھگ کی کہانی ہے۔ایک اور غیر سیاسی ٹھگ بھی ہے‘قومی سیاست اور صحافت کو عشروں سے جس نے یرغمال بنا رکھا ہے۔پچھلے دنوں‘ وہ عمران خان سے ملنے گیا۔یہ کہانی پھر کبھی۔ کہا جاتا ہے کہ گئے وقتوں کے لوگ مکر فریب سے کم ہی آشنا تھے‘ایسا نہیں ہے۔اس کے برعکس ہے۔بنارس کے ٹھگ صرف ایک محاورہ نہیں بلکہ ان کی شہرت ہندوستان بھر میں تھی۔اسی طرح بمبئی کے جیب تراشوں کی شہرت بھی چہاردانگ عالم میں تھی۔ آج کے خفیہ ادارے‘ انٹیلی جنس بیورو‘ نے جس ادارے کی کوکھ سے جنم لیا ہے وہ انہی ٹھگوں کی کارروائیوں کے خلاف تشکیل دیا گیا تھا۔ہندوستان بھر سے ایسے گروہوں کا اس نے صفایا کیا تھا۔ایسا ہی ایک ٹھگ 1879ء میں راولپنڈی میں سامنے آیا جس نے ہزاروں لوگوں کو کنگال کر کے رکھ دیا۔یہ واقعہ راولپنڈی کے گزیٹیئر 1893-94ئمیں درج ہے۔ کہوٹہ کے ایک گائوں ناڑا میں جہاں آج کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم ہیں‘ گکھڑ خاندان میں 1859ء میں ایک لڑکا پیدا ہوا جو تین سال کی عمر میں چیچک کا شکار ہو کر نابینا ہو گیا۔اسے قرآن حفظ کرانے کی کوشش کی گئی مگر پانچ سپارے حفظ کرنے کے بعد ہی وہ بھاگ گیا اور ایک فقیر فتح اللہ نوشاہی کا مرید بن گیا۔پھر کچھ عرصہ بعد کہوٹہ سے ہجرت کر کے اپنے رشتہ داروں کے پاس گوجر خان چلا گیا‘جہاں اس نے 40روز کی چلہ کشی کی اور پیر بن گیا۔ضعیف الاعتقادی ہمیشہ سے اس معاشرے کا چلن رہی ہے۔چنانچہ سینکڑوں لوگ اس کے معتقد بننے لگے۔اسی دوران ایک مقامی زمیندار کے گھر چوری ہو گئی‘وہ حافظ کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ اگر اس کا مسروقہ مال برآمد ہو جائے تو اس کا چوتھائی حصہ حافظ کو دیدے گا۔ پانچ روپے اس نے حافظ کو دیے مگر وہ چوروں کا سراغ نہ لگا سکا۔نہ ہی وصول کی گئی رقم لوٹائی۔ زمیندار نے مقامی اسسٹنٹ کمشنر کے پاس شکایت درج کرا دی۔زمیندار کے پاس نہ کوئی گواہ تھا نہ ثبوت۔الٹا حافظ کی نیک نامی پر شہادت دینے کے لئے مقامی بااثر افراد پیش ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ حافظ ایک نابینا‘ غریب اور پارسا آدمی ہے؛چنانچہ وہ رہا کر دیا گیا۔حافظ نے اب مشہور کر دیا کہ خدا نے اسے ان مسلمان بھائیوں کی مدد پر مامور کر دیا ہے‘جو سود خور مہاجنوں کے قرض تلے دبے ہیں۔اس نے اعلان کیا کہ جو کوئی اس کے پاس ایک روپیہ جمع کرائے گا‘ وہ بدلے میں پانچ روپے پائے گا۔پیسے لوگ لانے لگے اور بدلے میں پانچ گنا وصول کرنے لگے۔جب یہ خبر گردونواح میں پھیلی تو حافظ کے ہاں پیسے لے کر آنے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔اب فتح جنگ کے ایک سکھ کو حافظ نے ایک روپے روزانہ کی تنخواہ پر منشی رکھ لیا۔وہ وصول شدہ رقم کا اندراج کرتا اور پیسوں کی ادائیگی کے لیے لمبی لمبی تاریخیں دینے لگا۔رقم کا تانتا بندھ گیا تو حافظ نے دو اور اپنے رشتہ دار رکھ لیے۔ کچھ عرصہ تک لوگوں کو پانچ گنا ادائیگی ہوتی رہی۔مشہور ہو گیا کہ وہ اپنے وقت کا ولی ہے جس پر رات کو اللہ تعالیٰ پیسوں کی بارش کرتا ہے۔حافظ رات کو ایک کمرے میں بند ہو جاتا اور چارپائی پر بیٹھ کر سکے چھت کی طرف اچھالتا۔اس کے حجرے کے باہر جو لوگ جمع ہوتے ‘وہ سکوں کی جھنکار سنتے کہ آسمان سے پیسوں کی بارش برس رہی ہے۔ گوجر خان کے ساتھ ساتھ اب حافظ نے اپنے آبائی گائوں ناڑا ور مٹور میں بھی اپنے آستانے بنا لیے۔مہینے میں کچھ دن یہاں بیٹھ کر روپیہ بٹورنے لگا۔لوگوں نے اپنی بیٹیوں کے جہیز کے لیے جمع کردہ رقم بھی حافظ کو آ کر پیش کر دی کہ پانچ گنا ہو جائے گی۔وہ لمبی لمبی نمازیں پڑھا کرتا۔لوگوں کا اعتماد اور بڑھ جاتا کہ واقعی وہ پارسا آدمی ہے۔نابینا اور چیچک زدہ حافظ کی پارسائی اور امارت کو دیکھتے ہوے‘ اسے موضع للہیال سے ایک لڑکی کا رشتہ بھی مل گیا۔ایک کے بعد دوسری شادی کے لیے ایک اور عورت سے منگنی بھی رچا لی۔حافظ کی شہرت اب پورے ضلعے میں پھیل چکی تھی۔گھر کے سامنے ایک میلہ سا لگا رہتا۔اسی دوران کلر سیداں کے کھتری بخشی خوش وقت کے کان کھڑے ہوئے۔حافظ کی سرگرمیوں کا وہ جائزہ لینے لگا۔جلد ہی اسے پتہ چل گیا کہ حافظ بہت بڑا ٹھگ ہے۔حافظ کی مکاریوں کی رپورٹ اس نے انگریز افسروں کو پیش کی تو وہ حیران رہ گئے۔ کچھ دن اس کی خفیہ نگرانی ہوئی تو ششدر رہ گئے۔حافظ نے سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے کیسا جال بچھا رکھا ہے۔انگریزی حکومت نے حافظ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔جیسے ہی حافظ کے منشیوں کو علم ہوا وہ رقم لے کر بھاگ گئے۔کہا جاتا ہے کہ حافظ کے پاس اس زمانے میں 25ہزار روپے موجود تھے جو اس نے زمین میں دبا دیے۔کسی نے اسے رقم دفن کرتے دیکھ لیا اور آنکھ بچا کر نکال لے گیا۔ ادھر حافظ کو پولیس نے اس کے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔صرف 2960روپے برآمد ہوئے۔پولیس نے قریبی کھیتوں میں دفن کی گئی کچھ مزید رقم برآمد کر لی۔مقدمہ چلا اور حافظ کو دھوکہ دہی پر ڈیڑھ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔اس کے ساتھیوں کو بھی مختلف سزائیں سنائی گئیں۔ قید سے رہائی پانے کے کچھ عرصہ بعد حافظ نے پھر وہی دھندا شروع کر دیا۔ایک بار پھر اسے گرفتار کر کے دو سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔حافظ نے پارسائی کے لبادے میں ہزاروں لوگوں کو کنگال کر دیا۔ایک عرصے تک حافظ کی مکاری علاقے کے لوک گیتوں کا حصہ رہی:حافظ ناڑے دا پیا روڑی کٹدا ای مال لوگاں دا اس نے زوری لٹیا ای :ناڑے کے حافظ کو لوگوں کا مال لوٹنے پر قید بامشقت ہو گئی‘اب وہ پتھر کوٹ رہا ہے۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے اوریہ بھی کہ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔چنانچہ ہر چند سال بعد کہیں نہ کہیں سے ایسے ہی کسی جعلی پیر یا سائیں کی خبر آتی ہے۔جو سادہ لوح لوگوں کو روپیہ یا زیور دگنا کرنے کا لالچ دے کر لوٹ لیتے ہیں۔اس قسم کے لوگوں کے لیے ’ڈبل شاہ‘ کی اصطلاح بھی موجود ہے۔حافظ ہی کی طرح کا ایک مشہور و معروف ڈبل شاہ کا کیس 2005ء میں وزیر آباد میں پیش آیا‘ جب سبط الحسن نامی ایک اسکول ٹیچر نے لوگوں کو ان کے پیسے ڈبل کرنے کا جھانسہ دے کر صرف 18مہینوں میں پانچ ارب 40کروڑ روپے سے محروم کر دیا۔نیب نے 2018ء تک ڈبل شاہ کے متاثرین کو ایک ارب 20کروڑ کی رقم واپس کی ہے۔2012ء میں ڈبل شاہ کو عدالت نے 14سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔برصغیر کی سرزمین ٹھگوں کے لیے ہمیشہ بہت زرخیز ثابت ہوئی۔یہ انہی میں سے ایک ٹھگ کی کہانی ہے۔ایک اور غیر سیاسی ٹھگ بھی ہے‘قومی سیاست اور صحافت کو عشروں سے جس نے یرغمال بنا رکھا ہے۔پچھلے دنوں‘وہ عمران خان سے ملنے گیا۔یہ کہانی پھر کبھی۔
(ہارون رشید،روزنامہ 92،منگل 26 اپریل 2022ء(