’’متناسب نمائندگی‘‘ کے نظام کو موقع دیجئے…!

طویل سیاسی کشمکش کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہو چکی اور اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی عمل میں آ گئی ہے۔ جناب عمران خاں کی جگہ، مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد شہباز شریف مجلس شوریٰ میں موجود چھوٹی بڑی ایک درجن سیاسی جماعتوں کی تائید و حمایت سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال چکے ہیں، وفاقی کابینہ کا پہلا مرحلہ بھی مکمل ہوا اور وزرائے کرام نے اپنی حلف برداری کے بعد اپنی وزارتوں میں کام شروع کر دیا ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سیاسی ماحول کی کشیدگی بھی ختم ہوئی، بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور عملی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی فضا پہلے سے زیادہ کشیدہ اور تلخ ہو چکی ہے، فریقین کے مابین ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی گولہ باری اور بہتان تراشی کا سلسلہ پہلے ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شدت سے جاری ہے۔ اقتدار کے ایوان سے رخصت ہونے والوں اور یہاں کے نوواردگان کے درمیان رسہ کشی جاری ہے جس کے سبب بہت سی الجھنیں سامنے آ رہی ہیں جن میں سے ایک اہم یہ بھی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر ہنگامہ آرائی، گالم گلوچ ، توڑ پھوڑ اور مار دھاڑ سے بھر پور ایسے مناظر دیکھنے میں آئے جن کی مثال ماضی میں تلاش کرنا خاصا دشوار کام ہے بہرحال جیسے تیسے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب مکمل ہوا اور وفاق میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر منتخب ہونے والے محمد شہباز شریف کے فرزند ارجمند حمزہ شہباز ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے منصب کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ انہیں منتخب ہوئے ایک ہفتے سے زائد گزر چکا ہے مگر عدالت عالیہ لاہور کے فیصلے اور حکم کے باوجود تادم تحریر ان کی حلف برداری کی نوبت نہیں آ سکی۔ صدر مملکت اور گورنر پنجاب تکنیکی وجوہ کا سہارا لے کر اس میں مسلسل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اس طرز عمل کے خلاف ایک بار پھر عدالت عالیہ سے رجوع کیا گیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس شدید کشیدہ سیاسی فضا میں باہم نفرتیں فروغ پا رہی ہیں اور عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ گھمبیر صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روز گاری پہلے بھی کم نہ تھی مگر نئی حکومت کے آنے سے بھی ان میں کمی آئی ہے نہ اس کی کوئی امید ہے، نئے وزیر خزانہ عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف سے از سر نو مذاکرات کا ڈول ڈال چکے ہیں اور ہر روز قوم کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ لامحالہ دیگر تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی لازمی اضافہ کی صورت میں سامنے آئے گا… بجلی کی لوڈشیڈنگ جو گزشتہ کچھ عرصہ سے قدرے قابو میں تھی، ایک بار پھر پورے زور شور سے شروع ہو چکی ہے جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے……!!!
موجودہ سیاسی محاذ آرائی کا واحد حل ملک میں از سر نو عام انتخابات ہیں تاہم انتخابی عمل سے قبل ایسی انتخابی اصلاحات پر قومی اتفاق رائے ضروری ہے جن کے نتیجے میں انتخابات میں دولت کے بے تحاشا استعمال، دھونس اور دھاندلی کو روکا جا سکے اور صاف، شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنایا جا سکے۔ کیونکہ 1970ء سے آج تک بار بار دہرائے جانے والے انتخابی عمل میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جسے مجموعی طور پر قابل اعتماد قرار دیا جا سکے، ہر انتخابی عمل کے بعد اس کے نتائج پر انگلیاں لازماً اٹھائی گئی ہیں آئندہ اس سے بچنے کے لیے جہاں الیکشن کمیشن کو آزاد، خود مختار، غیر جانبدار اور قابل اعتماد بنایا جانا ضروری ہے، وہیں سیاسی جماعتوں کو انتخابی نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں پر بھی اتفاق کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں ایک اہم اور غور طلب قابل عمل تجویز یہ بھی ہے کہ ملک میں متناسب نمائندگی، کا نظام رائج کیا جائے جو دنیا کے بہت سے جمہوری ممالک میں رائج ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، متناسب نمائندگی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی ووٹ ضائع نہیں جاتا بلکہ ہر ووٹ کی نمائندگی کی جھلک اسمبلی میں دیکھی جا سکتی ہے جب کہ ہمارے ملک میں رائج موجودہ انتخابی نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اکثر صورتوں میں پندرہ بیس فیصد ووٹوں کی نمائندگی ہی ہماری اسمبلیوں میں ہو پاتی ہے کیونکہ عام طور پر اس انتخابی نظام میں پندرہ بیس فیصد ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے اور اسی پچاسی فیصد ووٹ حاصل کرنے والے دیگر تمام امیدوار ناکام قرار پاتے ہیں کیونکہ ان کے ووٹ تقسیم در تقسیم کے عمل کے سبب انتخابی نتائج پر اثر انداز نہیں ہو پاتے اس کے برعکس متناسب نمائندگی کے نظام میں رائے دہندگان اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں اور پھر حاصل شدہ ووٹوں کے تناسب سے سیاسی جماعتوں کو اسمبلیوں میں نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے، اس نظام میں جہاں کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوتا وہیں قوم نام نہاد ’’الیکٹبلز‘‘ کی بلیک میلنگ سے بھی بڑی حد تک محفوظ ہو جاتی ہے اور اسمبلی میں نمائندگی کا اختیار افراد کی بجائے سیاسی جماعتوں کو حاصل ہو جاتا ہے۔ متناسب نمائندگی، کے نظام سے ’’لوٹا کریسی‘‘کے خاتمہ میں بھی مدد ملتی ہے یوں قوم کو ’ہارس ٹریڈنگ‘ اور ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے ناپسندیدہ اور گھنائونے کاروبار سے بھی نجات مل جائے گی ملک کا سیاسی اور انتخابی نظام بہت سی بدعنوانیوں سے پاک اور خاصی حد تک صاف اور شفاف ہو جاے گا۔ ان حالات میں ملک و قوم کے مفاد کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملکی نظام کو بہت سی معاشرتی خرابیوں سے پاک کرنے اور انتخابی نظام کو صاف و شفاف بنانے کی خاطر ’متناسب نمائندگی‘ کے نظام کو اختیار کرنے پر راضی ہو جائیں کہ اسی میں سب کی فلاح ہے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)