مغرب میں جو تحقیقات ہورہی ہیں ان میں بہت سوں کا تعلق عالم اسلام سے بھی ہوتا ہے، جن کو جاننا ہم مسلمانوں کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کم ہی حضرات یہ کام کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں ان میں سے کم ہی ہوتے ہیں جو ان کو اپنی زبانوں میں منتقل کرتے ہیں، ان میں ہماری اردو زبان بھی ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ محترم ناصر فاروق صاحب کو اس کا شوق و ذوق ہے انہوں نے مغرب کی کچھ تحقیقات کو جو عصر حاضر کے متعلق ہیں اردو میں ڈھال کر اردو زبان کی ثروت میں ثمین اضافہ کیا ہے۔ اس مختصر اور قیمتی کتاب میں انہوں نے پہلی مرتبہ جارج صلیبا کی تحقیقات کو اردوداں طبقے کے لیے پیش کیا ہے۔ ناصر فاروق جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹر ہیں، شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ بارہ سال سے ایک نجی نیوز چینل میں ایڈیٹنگ اور نیوز میکنگ کی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں، پندرہ سال سے ملکی اور غیر ملکی اخبارات و جرائد کے لئے اردو اور انگریزی میں مضامین لکھ رہے ہیں۔ ڈیلی ڈان، دی نیوز، گلف نیوز، گلف ٹائمز میں تاریخ سیاست اور حالات حاضرہ پر مضامین نمایاں ہیں۔ نائن الیون کے بعد اسلامی دنیا کی سیاسی صورت حال پر بھرپور تحقیقی کام کیا ہے۔ مذہب، فلسفہ، تاریخ، سیاست اور حالات حاضرہ ان کے خاص موضوعات ہیں۔ اردو کی معروف بلاگ سائٹس پر ان کے تحقیقی مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔ ہمارے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی میں ان کے مضامین و تراجم مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں۔ ناصر فاروق تحریر فرماتے ہیں:
’’مشرق، مغرب اور جدید سائنس انسانی تاریخ کی سادہ سی زمانی ترتیب ہے۔ اس ترتیب کی تفہیم میں مطالعہ مغرب کی اہمیت مسلم ہے۔ تاہم بہت سے ’’غیر معروف‘‘ مقالے، مضامین اور تحقیق ایسے بھی ہیں جو جامعات اور کتب خانوں میں مقید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ایسے ہی چند ’’غیر معروف‘‘ مضامین کی تالیف ہے۔
مطالعہ مغرب بظاہر اک سادہ ترکیب ہے۔ مگر بین السطور بڑی معنی خیز ہے۔ ایک مطالعہ مغرب وہ ہے، جو اہل مغرب کرتے ہیں۔ دوسرا مطالعہ مغرب وہ ہے، جو ہم مشرق والے ’’مغرب‘‘ کا کرتے ہیں۔ دونوں مطالعات میں فرق ہے۔ اس تفاوت اور درجہ بندی کا تاریخی، مادی، روحانی، نفسیاتی اور تعلیمی تناظر ہے۔ اس پس منظر میں ایک آزاد مطالعہ جبکہ دوسرا زیر اثر مطالعہ ہے۔ دونوں کے اپنے اپنے پیش منظر بھی ہیں۔
مشرق والوں کے ’’مطالعہ مغرب‘‘ کا تاریخی تناظر بیشتر نوآبادیاتی ہے۔ گزشتہ چند صدیوں سے مشرق کی تاریخ مغربی استعمار کی تاریخ رہی ہے۔ یہ مالی اور مادی بھی ہے۔ یہ فکری بھی ہے۔ یعنی ہماری کئی نسلوں نے تاریخ کا جیسا کچھ بھی مطالعہ کیا ہے، مغرب کی آنکھوں سے کیا ہے۔ ہم نے تاریخ کا جیسا کچھ بھی علم حاصل کیا ہے، مغرب کے تصور تاریخ پر کیا ہے۔ ہمارا مطالعہ تاریخ یونان سے شروع ہوتا ہے اور سلطنت روما سے گزر کر، براہ راست یورپی نشاۃ ثانیہ میں چھلانگ لگا دیتا ہے اور صنعتی انقلاب سے بقول سرسید سرکار انگلشیہ کی ’’رحمت خدا وندی‘‘ پر منتج ہوتا ہے۔ مطالعہ مغرب میں ہمارا تصور تاریخ یورپ کی حدود میں ہی بھٹکتا پھرا ہے۔ ہم غلام رہے۔ ہمارا مطالعہ بھی غلام رہا۔ سو ہماری نفسیات ساری کی ساری غلام رہی ہے۔ سرسید احمد خان کے علی گڑھ سے دینی مدارس تک، تعلیم ’’زیر اثر‘‘ رہی ہے۔ یہ فقط فقیہ تیار کررہی تھی، مفتیان پیدا کررہی تھیں، دین اور سیاست کی علیحدگی کا درس دے رہی تھی، کلرک تیار کررہی تھی اور بابو بنارہی تھی۔ یوں ہمارا ’’مطالعہ مغرب‘‘ مکمل طور پر مغربی فکر کے زیر اثر رہا ہے۔
مطالعہ مغرب کی اس نفسیات پر سب سے پہلے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کاری ضرب لگائی۔ سید صاحب نے مطالعہ مغرب کے لیے تنقیدی نگاہ پیدا کی۔ اس ضمن میں ان کی تصنیف تنقیحات شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ مغربی فکر پر تنقید کی تحریک چلی اور بیسویں صدی میں’’تنقیدی مطالعہ‘‘ نے خاطر خواہ پیش رفت کی۔ یہیں سے ہمارے مطالعہ مغرب کا پیش منظر ابھر کر سامنے آیا۔ تنقیدی مطالعہ اور آزاد تحقیق کی راہیں ہموار ہوئیں۔ اس ضمن میں مسلمان ریاستوں کی جزوی آزادی بھی کسی قدر فائدہ مند ثابت ہوئی۔ بیسویں صدی میں مغربی فکر پر تنقید نے بتدریج مصر سے شام اور پاکستان سے ترکی تک مؤثر پیش رفت کی۔
آج صورت حال یہ ہے کہ مغرب کے دونوں مطالعات معیاری مواد بھی سامنے لارہے ہیں۔ ایسے مقالات اور تحقیقی مضامین بھی قرطاس پر ابھر رہے ہیں کہ جن کا نہ صرف مطالعہ ضروری ہے بلکہ قابل ترویج بھی ہے۔ یہ ہر طالب علم کا حق ہے کہ وہ اس تحقیق تک رسائی حاصل کرے، جو علم میں اضافہ کرسکے۔ خاص طور پر مسلمان طالب علم کے لیے علم وہ گمشدہ میراث ہے کہ جہاں پائے حاصل کرے اور اس کی جستجو کرے۔
یہ ایسے ہی چند تحقیقی مقالات اور مضامین کی تالیف کا مقدمہ ہے کہ جن کا مطالعہ مجبور کرتا ہے کہ اردو پڑھنے والوں تک منتقل کیا جائے۔ یہ تنقید سے مبرا نہیں، مگر تجسس تحقیق پر بے طرح ابھارتے ہیں۔ تحریک تحقیق پیدا کرتے ہیں۔ نئی تحقیق کے رجحانات سامنے لاتے ہیں۔ تصور علم اور تصور تاریخ میں معیار اور درستی لاتے ہیں۔ غرض مطالعہ مغرب کی دونوں جنسوں کا عمدہ آہنگ پیش کرتے ہیں۔
مطالعہ مغرب کی دونوں جنسوں کا یہ آہنگ وہ علمی رجحان ہے، جو معیار تحقیق کو بلندیوں پر لے جاسکتا ہے، اسے ’’مطالعہ عالم‘‘ کی سی جامع ترکیب میں ڈھال سکتا ہے۔ استشراقیت، تعصب، جھوٹ اور علمی بددیانتی کی بیخ کنی کرسکتا ہے۔
زیر نظر تالیف میں وہ چند مقالات اور مضامین شامل کئے گئے ہین، جو یورپی کتب خانوں میں عربی مخطوطات سے متعلق ہیں، اسلامی اور چینی تہذیب میں علمی تعلق کی وضاحت کرتے ہیں اور اسلام سے پہلے کی سائنس سے سائنس جدید کی تنقید جیسے موضوعات کا مختصر سا خاکہ پیش کرتے ہیں۔ یہ تالیف مسلمان محققین کے دل و دماغ پر دستک دے رہی ہے۔ جیسا کہ پروفیسر جارج صلیبا کہتے ہیں: ’’ہر نوجوان، مرد، عورت سے فقط اتنا ہی کہوں گا کہ اپنی ثقافت، اپنی تہذیب کا خود مطالعہ کریں، خود تحقیق کریں اور انیسویں صدی کے مستشرقین کے مطالعے سے پرہیز کریں۔ سارے اصل متون تک خود رسائی حاصل کریں، اپنے فہم کی قوت سے انہیں سمجھیں، پرکھیں کہ کس طرح ان کے آبا نے علوم کی دریافت کی اور انہیں پروان چڑھایا۔ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کس طرح ان کے آبا نے تحقیق کی اور معلوم کی تحصیل اور تدریس کی اور کس طرح کائنات کے بیان میں اپنی علمی استعداد کا مظاہرہ کیا۔ اس کام کے لئے بہت سارے لوگوں کی ضرورت ہے۔ افسوس مطالعہ و تحقیق کرنے والے لوگ بہت کم ہیں۔ یہ خبر دیتے ہوئے دل دکھی ہے کہ آج بھی سات سے آٹھ سو ایسے قلمی نسخے کہ جن سے میں خود واقف ہوں، صرف دو یا تین ہی شائع ہوسکے ہیں۔ آپ اندازہ لگایئے کہ کس قدر کام ہمارے لیے موجود ہے اور کتنے ہی نوجوان اس کام کے لئے درکار ہوں گے!‘‘۔
بلاشبہ، اسلام بنیادی طور پر علمی تحریک ہے۔ بے شک اس کا معجزہ کتاب فرقان مجید ہے۔ علم کا عروج ہی مسلمانوں کا عروج ہے۔ مطالعہ مغرب ہو مطالعہ مشرق ہو یا جنوب و شمال، مسلمانوں کی عزت علم سے ہے‘‘۔
کتاب میں پانچ مضامین جارج صلیبا کی ہیں ان کا مختصر تعارف بھی مناسب رہے گا۔
’’جارج صلیبا 9 دسمبر 1939ء کو لبنان میں پیدا ہوئے۔ امریکن یونیورسٹی بیروت سے ریاضی سائنس میں بیلچر کی ڈگری حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے 1967ء میں امریکہ گئے۔ Berkeley،University Califirnia سے شمال مشرقی مطالعات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ نیویارک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر کے فرائض انجام دیئے، انہیں عربی اور اسلامی علوم کے نمایاں علما کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ وہ International Astronomical Union, American Oriental Society, History of Science Society اور Middle East Stydies Associataion کے رکن بھی ہیں۔
ان کی اہم کتابوں میں :
n Islamic Science and the Making of the European Renaissance.
n Rethinking the Roots of:Modern Science:Libraries.
n Arabic Scientific Manuscripts in European.
کتاب کے محتویات درج ذیل ہیں:
جارج صلیبا کون ہیں؟ ان کی تحقیق کیا ہے؟، سائنس اسلام سے پہلے:پروفیسر جارج صلیبا، سائنس جدید کی جڑیں کہاں ہیں؟، یورپی کتب خانوں میں عربی نسخوں کے علوم: پروفیسر جارج صلیبا، درس گاہ مراغہ کی فلکیاتی روایت: پروفیسر جارج صلیبا، چین اور اسلامی تہذیب… علوم کا تبادلہ: پروفیسر جارج صلیبا، اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں، جارج صلیبا کا انٹرویو: ناصر فاروق، جدید سائنس کی حدیں: پروفیسر ہسٹن اسمتھ، سائنس پرستی: جدید تصور جہاں کی بنیاد: پروفیسر ہسٹن اسمتھ، غیر سائنسی سائنس: افتخار حیدر، ایمان اور ریاضی: افتخار حیدر، آدمی کی اصل: موریس بوکایئے، تائو آف اسلام: پروفیسر سچیکو مراتا۔
کتاب مجلا ہے۔ رنگین سرورق سے مزین ہے۔