تذکرہ نگاری اردو ادب کی ایک صنف اور ہمارے سرمایۂ ادب کا ایک گراں قدر حصّہ ہے ۔ قدیم تذکروں نے ادب کی تاریخ نویسی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اُردو ادبی تنقید ی سرمائے میں بھی تذکروں کی اہمیت مسلّمہ ہے۔
ہمارے پیش نظر ’’کراچی کے اہل ِ قلم ‘‘ (تذکرہ و منتخب نگارشات) کی گیارہویں جلد ہے۔ جس کی ترتیب و تحقیق کا فریضہ معروف محقق، شاعر، ادیب اور تذکرہ نگار محترم منظر عارفی نے انجام دیا ہے۔ کراچی کے اہل ِ قلم کی تذکرہ نگاری کے سلسلے کا یہ ایک بڑا اور تاریخی کام ہے جسے پوری دیانت داری اور احساسِ ذمہ داری سے فاضل مرتب و محقق منظر عارفی انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل منظر عارفی کی متعدد نثری اور شعری کتب اور ـ’’کراچی کے اہل ِ قلم‘‘ کے سلسلے کی دس جلدیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر اہل ِ علم و قلم سے خراجِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔
’’کراچی کے اہل ِ قلمــ‘‘ کی گیارہویں جلد سو (100) اہل قلم اور ان کی ادبی خدمات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ بعض ایسی شخصیات بھی اس میں شامل ہیں جن کی ادبی خدمات کا تذکرہ اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ لیکن منظر عارفی نے اپنی تحقیق و جستجو اور لگن سے ایسے افراد سے بالمشافہ ملاقات کرکے ان سے مطلوبہ معلومات حاصل کیں اور انھیںضبطِ تحریر میں لے آئے۔ اس سلسلے میں انھیں جن مشکلات ومسائل کا سامنا کرنا پڑا ہوگا ، تحقیقی کام کرنے والے اس کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ بعض اوقات کسی کا ایک دو سطری تعارف تلاش یا حاصل کرنا بھی کیسا کارے دارِد ثابت ہوتا ہے۔ جب کہ جہاںشخصیات و خدمات کا تعارف موجود ہو،بعض اوقات دشواریوں کا سامناوہاں بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں منظر عارفی رقم طراز ہیں:
ــ’’تذکرہ نگاری میں بڑے بڑے مشکل کاموں میں سے ایک بڑا مشکل کام پوائنٹ ٹو پوائنٹ لکھی ہوئی ذات وخدمات کو ایک مبسوط نثر کی صورت دے کے اسے اپنے قاری کے لیے پیش کرناہوتا ہے۔ہرگز ضروری نہیں ہوتا کہ تذکرہ نگار ہر ’’مخفف‘‘کی تفصیل و تشریح‘‘سے بھی واقف ہو اور اسے اپنی زبا ن و بیان اوراسلوب میںپیش کر سکے ۔میں بہت سے تخلیق کاروں کا تذکرہ لکھتے وقت اس پریشانی سے گزرا ہوں۔لیکن کیاکیاجائے تخلیق کار کے مزاج کا۔ بیسیوںکتابیںلکھ دے گا۔نہیں لکھے گا توصفحے دوصفحے کا اپنا مبسوط تعارف۔ ناقدین سہل ،عام فہم ، رواں دواں،دقیق پیچیدگیوں ،مشکل فلاسفی ،وغیرہ جیسی خوبیوں کو سراہتے رہتے ہیں ۔ان کی تعریفیںکرتے رہتے ہیںلیکن میںنے کہیںنہیںدیکھا کہ انہوںنے بیشتر نہ سمجھ میں آنے والے ’’تعارف‘‘پر کبھی حرفِ تنقید اٹھایاہو۔اوراسے بھی دوسری تخلیقات کی طرح سہل ، عام فہم ، رواں دواں،دقیق پیچیدگیوں ،مشکل فلاسفی ،وغیرہ سے مبرّا رکھتے ہوئے لکھنے کی سفارش کی ہو۔بہرحال میں ضرور کہوں گا کہ تخلیق کاراپنے تعارف کو ’’کارِ بے کار ‘‘نہ سمجھاکریں اورصفحے دوصفحے کی اس تحریر کوبھی اسی اسلوب میں لکھا کریںجس اسلوب میں وہ کئی کئی سو صفحات کی کتابیں لکھتے ہیں ۔‘‘
لیکن سلام ہے منظر عارفی کی محنت اور جستجو کو جس نے انھیں اس کٹھن راہ میں حوصلہ نہیں ہارنے دیا اور انھوں نے’’ قطرہ قطرہ دریا ہو ہی جاتا ہے‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کراچی کے اہل قلم حضرات و خواتین کے تذکروں پر مشتمل گیارہ جلدیں مرتب کردیں۔ قابل ِ اطمینان بات یہ ہے کہ منظر عارفی نے ان گیارہ جلدوں میںکہیں بھی بھرتی کا کام نہیںکیا ، نہ کوئی تذکرہ بے پروائی سے لکھا۔ بلکہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ پوری دیانت دار ی اور احساسِ ذمے داری کے ساتھ ادب کی خدمت کے جذبے کے تحت یہ فریضہ انجام دیا ہے۔
ایک اور بات جو قابل ِ ذکر ہے وہ یہ کہ منظر عارفی ہر آنے والی جلد میں گزشتہ تذکروں سے متعلق نئی حاصل ہونے والی معلومات فراہم کرتے جارہے ہیں۔ اس طرح یہ تازہ ترین(Updated) معلومات پر مشتمل تذکرے ہیں۔ پچھلی دس جلدوں میں مجموعی طور پر ایک ہزار اہل قلم کا تذکرہ پیش کیا جاچکا ہے۔ یہ ایک بڑاکا م ہے اور جس بے غرضی اور بغیر کسی مالی منفعت کے محض علم وادب کی خدمت کے جذبے سے منظر عارفی یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں، اس پروہ لائق ِ صد تحسین ہیں۔