کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ کاوش حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر کالم نگار خادم ملغانی نے بروز اتوار 17 اپریل 2022ء کو اپنے زیر نظر کالم میں وطن عزیز کے موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
جوں جوں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے دن گزرتے جارہے ہیں توں توں حقائق عوام کے سامنے آتے جارہے ہیں۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ سچ، محبت، نفرت اور غصہ چھپ نہیں سکتا۔ وقت کی گرد خواہ کتنا بھی انہیں چھپالے آخر کار وہ ظاہر ہوکر ہی رہتے ہیں۔ بعینہٖ ملکی تاریخ میں ایک ہی مہینہ میں تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے عمران خان کی جانب سے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بارے میں اختیار کردہ بیانیہ/ مؤقف (Narrrative) کی حقیقت ایک عالم پر آشکار ہوتی جارہی ہے، بلکہ ایک طرح سے ہوچکی ہے۔ ایک دن پہلے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی اہم ترین پریس کانفرنس میں عمران خان کے مؤقف کی واضح طور پر نفی کرتے ہوئے کہاکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے لفظ ’’سازش‘‘ کا ذکر ہی نہیں تھا۔ اس میں تھاکہ پاکستان کے خلاف غیر سفارتی زبان استعمال کی گئی ہے، اس کانفرنس کے تفصیلی جائزے سے پیشتر دیکھتے ہیں کہ لفظ ’’ڈی مارش‘‘ ہے کیا؟ کیوں کہ بقول تحریک انصاف کے سازش اور دھمکی پر مشتمل خط کی وجہ سے امریکی سفارت کار کو ڈی مارش کیا گیا لیکن فوجی ترجمان کے مطابق یہ محض سازش پر ہی نہیں کیا جاتا۔
Demarche Deplomatic demarche are delivered to the appropyiate official of a government demarche generally seek to persuade inform or gather information from a foreign government. Government may also use a demarche to protest or object ot actions by a Foreign.
یعنی سفارتی ڈی مارش کسی حکومت یا تنظیم کے مخصوص اہلکار کو دیئے جاتے ہیں۔ جس کا مقصد زیادہ تر کسی غیر ملکی حکومت کو معلومات دینا، اس کی تقلید کرنا یا پھر اس سے معلومات حاصل کرنے کے لئے عمومی طور پر دیئے جائیں گے، یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ یہاں پر یہ کہاں درج ہے کہ کوئی ملک، حکومت یا مملکت کے خلاف سازش کرے تو محض اسی صورت میں اس کے سفارت کار کو ڈی مارش کیا جائے۔ اب پاک فوج کے ترجمان کی اہم ترین پریس کانفرنس کی طرف آتے ہیں۔ اس اہم پریس کانفرنس میں کپتان کی وہ آخری گیند نوبال ہوگئی اور وہ سیاسی میچ ہار گئے جس کے بارے میں وہ کہے چلے آرہے تھے کہ وہ آخری بال تک کھیلیں گے یا لڑیں گے، پی ٹی آئی کے لئے ’’سونامی‘‘ صرف ’’سازش‘‘ پر مبنی مؤقف کا جنازہ نکلنا ہی نہیںہے بلکہ اسے کرنٹ تو کپتان کے بارے میں اس انکشاف نے بھی دیا ہے جس کے مطابق آخری بال گیند کھیلنے والے کپتان نے آخری پاور پلے کھیلنے سے پہلے ہی اپنی ہار تسلیم کرلی یا عسکری قیادت کو طلب کرکے کہاکہ ’’آئو دوستو کچھ بیچ بچائو کرادو‘‘۔
ابسولیوٹلی ناٹ: کپتان کے اس مؤقف پر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کئی مرتبہ کہہ چکے تھے کہ جب امریکہ نے اڈے مانگے ہی نہیں تھے تو عمران خان نے ’’بالکل بھی نہیں‘‘ کیسے کہہ دیا اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں اس امر کی تصدیق کی کہ امریکہ نے اڈے نہیں مانگے تھے۔
اسٹیبلشمنٹ کے آپشن: حال ہی میں متحدہ اپوزیشن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان اب این آر او مانگ رہے ہیں۔ اس و قت ان کے وزیراعظم سے لے کر ان کے جذباتی وزرا اور مشیروں نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی لیکن ان کا یہ دعویٰ بھی نقش بر آب ثابت ہوا اور عسکری ترجمان نے یہ واضح کیا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی بھی آپشن نہیں دیئے بلکہ وزیراعظم نے جب انہیں منگوایا تو ملاقات میں اس پر بات ہوئی۔ بات ہوئی سے مراد جس نے منگوایا اسی نے معاملے کے حل کے لیے آپشن بھی دیئے ہوں گے۔
غیر ملکی سازش: کپتان کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد بیان کردہ امریکی سازش کی تھیوری میں ابھی تک ڈیولپمنٹس سے یہ امر واضح ہوچکا ہے کہ وہ بہت عرصہ پہلے یہ محسوس کرچکے تھے کہ اب ان کی حکومت مزید نہیں چل سکتی۔ اس احساس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ انہیں اس مبینہ سازش کی بھنک پڑ چکی تھی جس کی اصل حقیقت اب ظاہر ہوئی ہے بلکہ اندرونی حالات ہی اس نوعیت کے تھے۔ انہیں احساس تھا کہ پارٹی پر کنٹرول اب ممکن نہیں رہا ہے اور اتحادی بھی ہر نئے آنے والے دن میں کوئی نہ کوئی نئی فرمائش لیے ان وارد ہوجاتے ہیں۔ اس لئے یہ بہتر ہوگا کہ وقت سے پہلے ہی الیکشن کے لئے میدان سجادیا جائی۔ ممکن ہے کہ انہیں اس بات کی خبر بھی پڑ چکی ہو کہ ان کے اتحادی یا ناراض ممبران ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں اور یہ بات سابق صدر آصف زرداری بھی کرچکے ہیں کہ وہ گزشتہ تین برس سے حکومت کا تعاقب کررہے تھے اور اتحادیوں سے رابطے میں تھے۔ اب ظاہر ہے کہ بھرم رکھنے اور عوام میں جانے کے لیے بھی کوئی جوار چاہئے۔ عمران خان انتخاب میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے وقت سے قبل الیکشن کے میدان میں جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اپوزیشن کے تین برس کے رابطے رنگ لانا شروع ہوگئے اور تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو عمران خان کا کام آسان ہوا۔ عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اور کسی حد تک اپوزیشن کو بھی تنگ کرنے کی خاطر امریکی خط کی سازش کا Narrative اختیار کیا گیا اور ابھی تو آگے چل کر مزید کئی نئی باتیں سامنے آئیں گی۔
غیر ملکی سازش کے مؤقف کی اصل حقیقت کے بعد توشہ خانے کا معاملہ سامنے آیا ہے، یہ سازش کرنے والوں کے بارے میں باتیں سامنے آرہی ہیں کہ کس قدر مہارت سے یہ تیار ہوئی۔ یہاں پر سوال یہ بھی ہے کہ امریکہ نے سازش کیوں تیار کی؟ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ بھٹو صاحب کو ایٹمی پروگرام کی سزا دی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے میزائل ٹیکنالوجی اور نواز شریف سے منع کرنے کے باوجود بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے پر امریکہ ناراض تھا، لیکن عمران خان نے آخر ایسا کون سا کارنامہ سرانجام دیا تھا کہ امریکہ کو ان کے خلاف سازش کرنی پڑی اور عمران خان کو انہی سے ہاتھ ملانا پڑا جن سے وہ پہلے ہی ناراض تھے۔ اس کا جواب سابق سفیر ملیحہ لودھی ایک ٹی وی پروگرام میں دے چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران حکومت کے خلاف سازش کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے، یہ اس لیے بھی کہ عمران خان کی ایسی پالیسی کوئی تھی ہی نہیں کہ امریکہ ان کے خلاف سازش کرتا۔ غیر ملکی سازش کا بیانیہ اس لیے بھی گھڑا گیا کہ اس کے کرداروں کا خیال ہوگا کہ یہ پی ٹی آئی کو سیاسی میدان میں کام آئے گا۔ خاص طور پر الیکشن میں یہ بے حد کام آئے گا، کیونکہ ہمارے ہاں امریکہ اور بھارت مخالف بیانیہ الیکشن میں بہت کام دے جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہی اقتدار سے بے دخلی کو امریکی سازش کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔ اس لیے بھی یہ مؤقف پی ٹی آئی کی سوچ کے مطابق امریکی مخالف جذبات پر پورا اتررہا ہے اور اس وقت اسے بار بار دہرایا جارہا ہے۔ اس سعی کا دوسرا سبب شاید اسٹیبلشمنٹ کی اندرونی حمایت حاصل کرنا بھی ہو لیکن یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہ اسی سمت دیکھتی ہے جس طرف اس کا سربراہ دیکھتاہے، عمران خان نے ایک بیانیے کے ذریعے بہت سارے شکار کرنے چاہے، یاد رہے کہ وہ اپنے جلسوں میں زیادہ وکٹیں ایک بال سے گرانے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ ان کی وہی گیند تھی اس کے توسط سے انہوں نے اپوزیشن کو ردعمل دینے اور دفاعی پوزیشن پر لانے کی بھی کوشش کی، کیونکہ سب سے بڑھ کر مشہور نعروں کی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی انہیں نظر انداز کرنا تو ٹھہرا ایک طرف ، اس پر ردعمل دینے پر مجبور ہوجایا کرتا ہے۔ عمران خان نے سازش پر مبنی نعرے کو آئندہ الیکشن کے لیے زندہ رکھنا چاہا لیکن وہ چند ایام ہی میں اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس بیانیہ کے بارے میں ایک خبررساں ادارے کی اسٹوری شائع ہوئی تھی جو یہاں پر اختصار کے ساتھ شیئر کی جارہی ہے۔ اس اسٹوری کے مطابق اس خط میں سابق حکومت کی اہم شخصیت کی ہدایت پر زبان (متن) میں تین مرتبہ تبدیلی کروائی گئی، جس پر اس وقت کے امریکہ میں سفیر اسد مجید نے سخت احتجاج کیا تھا، انہوں نے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا تھا۔ وہ آنے والے چند دنوں میں ساری حقیقت کے بارے میں کچا چٹھا کھولیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسد مجید سخت دبائو میں تھے انہیں کہا گیا تھا کہ وہ خاموش رہیں ورنہ سارا ملبہ ان پر آن گرے گا۔ اب جبکہ سازش کی اصل بنیاد ہی کمزور ہوتو اس کمزور ہتھیار کے زور پر اس حد تک دعویٰ کرنا یہ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی اسے سازش قرار دیا ہے تو لامحالہ اس کی تردید تو پھر آنی ہی تھی اور سارے معاملہ پر چوہدری شجاعت کے مشہور جملے کے مطابق ’’مٹی پائو‘‘ ہوگیا۔
اختتام اور شروعات، یہ ایک طرف اس بیانیہ کا اختتام ہے جو پی ٹی آئی کا آنے والے الیکشن کے لئے بہت بڑا کارآمد ہتھیار تھا اور دوسری طرف پھر یہ شروعات بھی ہے، ان غیر آئینی اور غیر پارلیمانی حربوں کی جو تحریک عدم اعتماد کے ہونے سے شروع ہوئے تھے اور ان کی انتہا کل پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر دیکھنے کو ملی۔ جب کہ یہ اجلاس ہائی کورٹ کے حکم پر ہوا۔ بہت افراتفری، ہنگامہ اور بدنظمی کے بعد حمزہ شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تو منتخب ہوگئے لیکن ہمارے ہاں جو روایات قائم کی جارہی ہیں وہ ہمارے لئے دنیا میں ہمارا ہی مذاق اڑانے کا باعث ثابت ہورہی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں ہم کچھ ایسی غیر پارلیمانی، غیر آئینی حرکتیں کرچکے ہیں جو قبل ازیں فلپائن، تائیوان یا کسی دوسرے ملک کے ایوانوں میں دیکھنے کو ملا کرتی تھیں۔ سیاسی عدم برداشت، شکست قبول کرنے کا حوصلہ نہ ہونا اور مقابلے سے راہ فرار اختیار کرنے جیسے حربے حالیہ کچھ ایام میں بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال میں کہ جب پارلیمنٹ کو میدان جنگ بنایا جائے، سینئر سیاست دان، ایوان کے کسٹوڈین، ایوان کے نگہبان ہونے کا کردار ادا نہ کریں اور ہنگامہ کرنے والوں، آئینی عہدہ رکھنے والے کو مار پیٹ کرنے والوں کو ویل ڈن کہہ کر اس کے حوصلے بڑھا رہے ہوں تو ایسے میں الیکشن کے میدان کا تصور کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں اس مرتبہ آنے والے انتخابات کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ سیاست کو سیاست تک محدود رکھنے کے بجائے ذاتیات اور اناپرستی تک لے جانے سے جمہوریت اور آئین سمیت پارلیمانی روشنی کی کوئی بھی توقیر باقی نہیں رہے گی۔ ملک میں جمہوریت اور جمہوری روایات کو بڑھاوا دینا الفاظ کی جادوگری سے ناممکن ہے۔ سیاست کو سیاست تک رکھنا ہی سیاسی میچورٹی کی علامت ہے، لیکن جس طرح سے آج کل پارلیمانی اور آئینی روایات کو بالائے طاق رکھا جارہا ہے، اس عمل کواگر ختم نہ کیا گیا تو آئندہ آنے والے انتخابات نہایت خطرناک منظر کی عکاسی کررہے ہیں۔