ہند امریکہ سربراہی ملاقات صدر بائیڈن، مودی جی کو قائل نہ کرسکے

گزشتہ ہفتے 11 اپریل کو بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی اور امریکی صدر جو بائیڈن نے سمعی و بصری رابطے پر تفصیلی ملاقات کی۔ ابلاغ عامہ کے علما اس قسم کی بالواسطہ ملاقاتوں کو Virtualیا مجازی کہتے ہیں۔
ہندامریکہ تعلقات 1947 میں بھارت کے قیام کے وقت سے ہیں اور دنیا بھر کے دوطرفہ تعلقات کی طرح اس میں اتار چڑھائوآتا رہا ہے۔ دہلی کے اپنے دوپڑوسیوں یعنی پاکستان اور چین سے تعلقات، ہند امریکہ دوستی میں عارضی سرد مہری اور گرمجوشی کا سبب بنتے چلے آئے ہیں۔ پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد امریکی کیمپ کی طرف مائل ہوا اور 1954 میں معاہدہِ جنوب ایشیا یا SEATO کی رکنیت اختیار کرلی۔ کہنے کو تو یہ جنوب ایشیائی ممالک کا اتحاد تھا لیکن اس آٹھ رکنی تنظیم کے صرف تین ممالک فلپائن، تھائی لینڈ اور پاکستان کا تعلق ایشیا سے تھا۔ فرانس برطانیہ،امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی اسکے رکن تھے۔ سیٹو کے صرف ایک سال بعد پاکستان معاہدہِ بغداد المعروف سینٹو (CENTO)کا رکن بن گیا۔ سینٹو دراصل مشرق وسطیٰ کے امریکی حلیفوں کی نشست تھی جہاں چچا سام کی سرپرستی میں ایران، عراق،ترکی اور پاکستان یکجا ہوئے۔سیٹو اور سینٹو کے ساتھ مشرقی یورپ کے سوویت نواز ممالک معاہدہِ وارسا اور بحریہ اوقیانوس کے گرد امریکہ کے حامی نیٹو کی شکل میں متحد ہوگئے۔
جنگ عظیم کے بعد دنیا نے جنگِ کوریا کی ہلاکت خیزی کا مظاہرہ دیکھا جب امریکہ نے روس اور چین سے تین سال تک خوفناک جنگ لڑی۔ اسی دوران غیر وابستگی کا شور اٹھا۔ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو، انڈونیشیا کے صدر احمد سوئیکارنو اور مصر کے جمال عبدالناصر اس تحریک کے روحِ رواں تھے جلد ہی 120 ممالک Non-Aligned Movement یاNAM کے نام سے منظم ہوگئے۔
نام سے وابستگی کے متوازی ہندوستان نے سوویت یونین (روس) سے تعلقات استوار کرلیے۔ ہندوستان کو پاکستان کی سیٹو اورسینٹو میں شمولیت پر تشویش تھی تو روس ان دونو ں امریکہ نواز اتحادوں کو اپنے خلاف سمجھتا تھا۔ دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر روس اور ہندوستان بہت قریب آگئے۔ اسی دوران ستمبر 1965 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان خونریز جنگ ہوئی جس میں سیٹو اور سینٹو بڑی حد تک غیر جانبدار رہے۔ آزمائش کی گھڑی میں اپنے اتحادیوں سے توقعات کے مطابق مدد نہ ملنے پر جہاں پاکستان مایوس ہوا وہیں ہندوستان میں امریکہ مخالف جذبات سرد پڑگئے۔ چھ سال بعد 1971 کی پاک ہند جنگ میں امریکی صدر نکسن نے پاکستان کی زبانی حمائت کی اور یہ خبر عام ہوئی کہ مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں محصور پاکستانی فوج کی مددکے لیے امریکہ کا چھٹا بحری بیڑا خلیج بنگال روانہ کیاجارہا ہے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔
اسی دوران چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کے مقابلے کے لیے امریکہ کو علاقے میں ایک مضبوط اتحادی کی ضرورت تھی چنانچہ دلی اور واشنگٹن ایک دوسرے کے مزید قریب آگئے۔ افغان جنگ کے نتیجے میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ کا ہم پلہ مخالف صرف چین رہ گیا جس سے ہندوستان بھی خائف ہے اور مشترکہ خطرے کے پیش نظر امریکہ اور بھارت کی قربت نے تزویراتی شکل اختیار کرلی۔
جب 2009 میں صدر بارک حسین اوباما نے اقتدار سنبھالا تو یہ تعلقات مزید مستحکم ہوئے یا یوں کہیے کہ ہندامریکہ تزویراتی تعلقات کے معمار صدر اوباما ہیں۔مئی 2014 میں نریندرامودی کے وزیراعظم بننے کے بعد جنوری 2015 میں صدراوباما اور انکی اہلیہ نے ہندوستان کا تفصیلی دورہ کیا۔ ملاقاتوں کے دوران جہاں سفارت، سیاست، خارجہ امور، دفاع، علاقائی سیاست خاص طور سے چین کے گھیرائو پر گفتگو ہوئی وہیں بھارتی قیادت نے اپنے ثقافتی ورثے اور تہذیبی پہلو کو بھی اجاگر کیا۔امریکی خاتون اول مشل اوباما نے تاریخی نوعیت کے مندِروں کی بہت عقیدت و حترام سے زیارت کی۔ موصوفہ رقص و موسیقی کی بہت شوقین ہیں چنانچہ انھوں نے روائتی یا کلاسیکل رقص کی ایک کلاس میں شرکت کی اور اختتام پر رقص کا شاندار مظاہرہ کیا جو بہت پسند کیا گیا۔
اس دوران علاقائی تعلقات کی ضمن میں Quadrilateral Security Dialogueالمعروف معاہدہ اربع (QUAD) کو مزید موثر بنانے پرگفتگو ہوئی۔ہندوستان، ٓامریکہ، آسٹریلیا اور جاپانی بحریہ کے مابین اس ‘بات چیت کا آغاز 2007میں ہوا تھا جس کا بنیادی مقصد بحرالکاہل سے بذریعہ آبنائے ملاکا بحر ہند کی طرف نکلنے والے راستے کی نگرانی ہے تاکہ چین کی آبی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے۔ امریکہ کے عسکری ماہرین کواڈ کو بحر ہند کا ”نیٹو“ کہتے ہیں۔اس دورے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس کاعنوان ہندی میں ‘چلیں ساتھ ساتھ تھا۔
صدرٹرمپ کے دور میں تعلقات مزید مضبوط ہوئے کہ دونوں رہنما ”اسلامک ٹیررازم “کے عالمی بیانیے پر متفق و یکسو تھے۔ہند امریکہ دوستی کو مزید مستحکم کرنے کی غرض سے 2018 میں یہ طئے پایا کہ باہمی تعلقات کو تجارت، دفاع ، سفارت و ثقافت سمیت ہمہ جہت بنانے کے لیے ہرسال وزرائے خارجہ و زرائے دفاع کے اجلاس منعقد کئے جائیں۔ ان نشستوں کو ٹو پلس ٹو (2 plus 2)کا نام دیا گیا۔ ان بیٹھکوں میں باہمی مراسم کو نفع بخش ونتیجہ خیز بنانے اور گرمجوشی کی حوصلہ افزائی کے لیے سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ اہداف طے کیے جاتے ہیں اور گزشتہ سال طے کیے جانے والے کے حوالے سے کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
ہندوستانی وزارت خارجہ کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے ثقافتی پہلو کو باہمی تعلقات کا جزو بنادیا ہے۔ دوہفتہ پہلے گیلپ کے ایک جائزے میں کہا گیا ہے کہ کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جاپان اور جرمنی کے بعد ہندوستان امریکیوں کا سب سے محبوب ملک ہے جبکہ اسرائیل کا ساتواں نمبر ہے۔
ستمبر 2019 میں مودی جی نے دورہ امریکہ کا آغاز ریاست ٹیکسس (Texas)کے شہر ہیوسٹن سے کیا۔ ہیوسٹن توانائی کاعالمی مرکز ہے اور یہاں آکر ہندوستانی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ توانائی کے شعبے میں ہندوستان اور ٹیکسس تعاون کے نئے دور کا آغاز کررہے ہیں۔ اس موقع پر ان کے اعزاز میں ہیوسٹن کی ہندوستانی کمیونٹی نے ایک زبردست عوامی استقبالیے کا اہتمام کیا۔ اس دورے کو Howdy Moodiکا نام دیا دیا۔ یہ دراصل ٹیکساس کے انداز میں ‘ کیسے ہیں ”مودی جی“ یا ‘”ہلو مودی “جی تھا۔استقبالیے میں صدر ٹرمپ، ریاستی گورنر، سینیٹر، ہیوسٹن کے مئیر اور وفاقی وریاستی وزرا نے شرکت کی۔ اپنی تقریروں میں دونوں رہنماوں نے اسلامک ٹیررازم کے خلاف مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔
فروری 2020 کو جب صدرٹرمپ ہندوستان کے دورے پر آئے تو اسے Howdy Moodi کے جواب میں نمستے ٹرمپ کا نام دیاگیا۔ اس دوران کے صدر ٹرمپ کے لیے احمدآباد (گجرات) میں بڑے عوامی استقبالیہ کا اہتمام ہوا۔سابق امریکی صدر ہوٹل اور گالف کورس کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور انھوں نے بھارت کو سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ومنافع بخش ملک قراردیتے ہوئے یہاں کئی ٹرمپ ٹاور تعمیر کرنے کا عندیہ دیا۔
صدر اوباما کے عہدِ اقتدار میں جو بائیڈن امریکہ کے نائب صدر تھے اور ان کی موجودہ انتظامیہ کے اہم ارکان یعنی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن، سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون اوباما کی کلیدی ٹیم کاحصہ تھے۔ چنانچہ ہندوستان کے لیے بائیڈن انتطامیہ بھی گرمجوشی کے جذبے سے سرشار ہے۔
ہندامریکہ تعلقات کے اس مختصر تعارف کے بعد اب آتے ہیں دونوں ملکوں کی اہم سربراہ ملاقات کی طرف۔ انھیں دنوں ٹو پلس ٹو اجلاس 10 سے 12 اپریل تک واشنگٹن میں ہوا جس میں ہندوستان کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر اور وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے شرکت کی۔ ان دونوں حضرات نے بطور مبصر مودی بائیڈن ویڈیو ملاقات کا بھی مشاہدہ کیا۔
قصرِ مرمریں نے ایک دن پہلے جاری ہونے والے اعلامیے میں بڑی صراحت سے کہا تھا کہ ملاقات کے دوران یوکرین کے خلاف روسی جارحیت سے پیداہونے والا عدم استحکام ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ ہوگا۔ امریکہ کو شکایت ہے کہ یوکرین کے معاملے میں دلی، واشنگٹن کا اُس گرمجوشی سے ساتھ نہیں دے رہا جس کی ایک مخلص اتحادی سے توقع ہے۔ بھارت نے روسی حملے کی مذمت تو کی لیکن سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں جگہ روسی کے خلاف قرارداد پر امریکہ کا ساتھ دینے کے بجائے مودی انتظامیہ غیر جانبدار رہی۔ امریکہ کے لیے سفارتی حمایت سے زیادہ اہم روس کیخلاف اقتصادی پابندیوں کی مہم میں عالمی تعاون ہے۔صدر بائیڈن روسی معیشت کو ضرب لگانے کے لیے اس کی تیل اور گیس برآمدات کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں۔ ہندوستان، چین کے بعد دنیا میں تیل کادوسرا بڑا درآمد کنندہ ہے جس کادرآمدی جم 45 لاکھ بیرل روزانہ ہے۔
روس پابندیوں کا دبائو کم کرنے کے لیے برآمدات کی رقم روبل (roble)میں وصول کرنے پر اصرار کررہاہے۔ امریکہ کے مالیاتی اداروں کا خیال ہے کہ دہلی تیل کے نرخ میں غیر معمولی رعائت کے عوض روبل میں ادائیگی پر آمادہ ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ شمارے میں ہم تفصیلات پیش کرچکے ہیں۔
ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مختصر سے اعلامیے میں اس ملاقات کو خوشگوار اورروائتی گرمجوشی سے معمور قراردیا گیا۔ امریکی دفتر خارجہ کے مطابق ملاقات میں QUAD سمیت تمام امور پر گفتگو ہوئی۔خیال ہے کہ روسی کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو موثربنانے کے لیے ہندوستان کا تعاون ملاقات کا مرکزی ایجنڈا تھا۔امریکہ کی خواہشات اپنی جگہ لیکن بھارت روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کے ماسکو سے مراسم خاصے گہرے ہیں، چنانچہ یوکرین کے معاملے پر دہلی کی غیرجانبداری بلکہ کسی حد تک روس کی طرف جھکائو واشنگٹن کے لیے حیرت کا باعث نہیں۔
ملاقات کے بعد صدارتی ترجمان محترمہ جین ساکی نے بات چیت کی تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے بس اتناکہا کہ امریکہ تیل کے لیے ہندوستان کی ضروریات کو اچھی طرح سمجھتا ہے لیکن صدر بائیڈن نے وزیراعظم نریندرا مودی کو باور کروادیا کہ ‘بھاری مقدار میں روس سے تیل خریدنا ہندوستان کے مفاد میں نہیں۔ امریکی ترجمان نے ‘بھاری کی وضاحت نہیں فرمائی۔ ساکی صاحبہ کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ملاقات کے دوران ہندوستانی وزیراعظم نے قومی مفادات کے حوالے سے اس جنگ میں بھارت کے غیرجابندرارہنے کی اہمیت صدر بائیڈن کو گوش گزار کردی۔
اسی ضمن میں ایک تازہ خبر یہ ہے کہ گروپ سیون (G-7)سربراہی اجلاس میں ہندوستان کی شرکت پر جرمنی اور فرانس نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی اس کانفرنس کا میزبان ہے جو 26 سے 28 جون تک جنوب مشرقی جرمنی کے علاقے بئین (Bavaria) میں منعقد ہوگی۔ تنظیم کے سات ارکان کے علاوہ سینیگال، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا کو بطورِ خصوصی مہمان مدعو کیا گیا ہے۔ صدر بائیڈن کی خواہش ہے کہ مہمانوں کی فہرست میں ہندوستان کا بھی شامل کیا جائے۔ جرمن قیادت کا خیال ہےکہ یوکرین کی جنگ میں ہندوستان کا رویہ G-7 برادری کی توقعات کے مطابق نہیں۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔