امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ میں بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے، تشدد، مذہبی آزادی پر پابندیوں اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان خلاف ورزیوں میں حکومتی اہلکاروں کی جانب سے ماورائے عدالت قتل، مسلمانوں پر تشدد اور حکومتی اور غیر حکومتی قوتوں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں قتل عام جیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ انہیں بھارت کے بعض حصوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بارے میں مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کچھ علاقوں میں مسلم برادری فرقہ ورانہ تشدد اور امتیازی سلوک کا شکار ہے، سال کے دوران مسلمان برادری کے جسمانی استحصال، تعصب، زبردستی نقل مکانی کے ساتھ ساتھ گائے کی سمگلنگ کے الزام پر تشدد جاری رہا۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے کرناٹک میں طالبات کے حجاب پر پابندی لگائی۔ حجاب پابندیوں پرعالمی سطح پر تنقید ہوئی لیکن کرناٹک ہائی کورٹ نے یہ پابندیاں برقرار رکھیں۔ بھارت میں جبری نقل مکانی، گائے کشی پر بہیمانہ قتل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ قیدیوں پر جیل اہلکاروں کا ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک جاری ہے۔ بھارت نے آزادی اظہار اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔ صحافیوں پر تشدد دھمکیاں، بلاجواز گرفتاریاں، سوشل میڈیا کا گلا گھونٹنے، مقدمات چلانے اور انٹرنیٹ کی آزادی پر پابندیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
دوسری جانب مقبوضہ بیت المقدس سے آمدہ اطلاعات کے مطابق وہاں بھی گزشتہ کئی روز سے اسرائیلی پولیس اور اس کی سرپرستی میں انتہا پسند یہودیوں کے مسلمانوں پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کو عبادت کا موقع دینے کے لیے مسلمان نمازیوں کو طاقت کے بل پر جبراً مسجد سے نکال دیا، انتہا پسند یہودی، اسرائیلی پولیس کی سرپرستی میں مسلمانو ں کے قبلۂ اول میں داخل ہو گئے، اس پر احتجاج کرنے والے نمازیوں پر تشدد کیا گیا اور18 نمازیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ قبل ازیں جمعۃ المبارک کے روز بھی صیہونی فوجیوںنے مسجد میں توڑ پھوڑ کی اور ڈیڑھ سو سے زائد نمازیوں کو زخمی کیا جب کہ چار سو کو حراست میں لے لیا گیا۔ غزہ برس ہا برس سے ایک جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے،منگل کی شب بھی، اسرائیلی طیاروں نے اسے، بمباری کا نشانہ بنایا۔ اسرائیل اور بھارت تو ازل سے مسلمانوں کے دشمن ہیں، دنیا بھر میں کہیں بھی نظر دوڑائیں برما، میانمار سے بوسنیا، عراق، شام، لبنان ہر جگہ مسلمان شاعر مشرق کے اس ارشاد کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں:۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
امریکی محکمہ خارجہ کی بھارت میں مسلمانوں پر مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے متعلق رپورٹ کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ یہ امریکہ اور یورپ کے دہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے، اسی طرح کی کوئی رپورٹ پاکستان، ایران، ترکی یا اسی طرح کے کسی دوسرے مسلمان ملک سے متعلق کسی امریکی یا یورپی ادارے نے پیش کی ہوتی تو اس کے اجراء کے ساتھ ہی اس مسلمان ملک کے خلاف سفارتی، تجارتی اور اقتصادی پابندیوں کے اعلانات بلکہ احکام بھی جاری کئے جا چکے ہوتے اور ان پابندیوں پر عمل درآمد کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق کئی ادارے اور ایف اے ٹی ایف جیسی تنظیمیںبھی حرکت میں آ چکی ہوتیں مگر جب معاملہ بھارت یا اسرائیل جیسے ملکوں کا ہو تو اس طرح کی زبانی جمع خرچ سے زیادہ کوئی حیثیت نہ رکھنے والی رپورٹوں سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ اس کے باوجود یہ رپورٹیں غنیمت ہیں کہ نہ ہونے سے بہتر ہیں کسی نہ کسی سطح پر کوئی نہ کوئی اثر بہر حال یہ محض لفظی رپورٹیں بھی چھوڑتی ہی ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی پولیس اور انتہا پسند یہودیوں کے مسلمانوں پر تشدد گرفتاریوں اور ناروا سلوک کے خلاف عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسیس نے باقاعدہ صدائے احتجاج بلند کی ہے کہ اسرائیل کو کسی کی مذہبی آزادی سلب کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ویٹی کن سٹی میں ایسٹر کی سب سے بڑی تقریب سے خطاب کے دوران پوپ فرانسس نے اسرائیلی طرز عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت سے نہ روکا جائے… اس کے برعکس امت مسلمہ، جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی، دامے درمے اور سخنے ہی نہیں بلکہ قوت بازو اور بزور شمشیر بھی اپنے کمزور و مظلوم مسلمان بھائیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے، مگر وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا، امت مسلمہ کہ دنیا کے نقشے پر موجود پانچ درجن کے قریب مسلمان ممالک میں سے کسی ایک کو بھی بھارت اور اسرائیل کے شکنجے میں جکڑے ان بے بس و بے کس مظلوم و مجبور مسلمانوں کے حق میں عملی تو دور کی بات ہے، زبانی ہمدردی اور صدائے احتجاج بلند کرنے کی توفیق نصیب نہیںہوئی حالانکہ قرآن حکیم میں مسلمان حکمرانوں کو یہ واضح ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کمزور پا کر دبا لئے گئے مسلمانوں کی عملی مدد کے لیے میدان میں آئیںمگر یہاں اس کے برعکس صورت حال ہے جن پر ظالموں کے خلاف مظلوموں کے حق میں عملی اقدام کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، وہ اپنے مظلوم بھائیوں کو بھول کر ظالموں سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لئے کوشاں ہیں۔ پاکستان بناتے ہمارے بزرگوں نے یقین دلایا تھا کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا تحفظ پاکستان یقینی بنائے گا مگر آج پاکستان کے سیاستدانوں، رہنمائوں اوراداروں کو باہم سرپھٹول سے فرصت ملے تو وہ مظلوم کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کی فکر کریں۔ ملک کی سینکڑوں چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو اسرائیل اور بھارت کی مذمت میں زبانی بیان جاری کرنے کی ہمت بھی نہیں سوائے جماعت اسلامی کے، جس کی مرکزی مجلس عاملہ نے جمغۃ المبارک کو ملک گیر سطح پر ’’یوم یکجہتی فلسطین‘‘ منانے کا اعلان کیا ہے… ورنہ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی حالت علامہ اقبال کے اس شعر سے مختلف نہیں:
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلمان نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
(حامد ریاض ڈوگر)