’’وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں سے درگزر کرتا ہے، حالانکہ تم لوگوں کے سب افعال کا اسے علم ہے۔ وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے۔ اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ رہے انکار کرنے والے، تو ان کے لیے دردناک سزا ہے‘‘۔ (الشوریٰ: 25، 26)
یہ آیات اللہ تعالیٰ کی صفاتِ جلال و جمال کا آئینہ ہیں۔ یہ بتارہی ہیں کہ ہر انسان اپنی موت کے آخری لمحے سے پہلے تک اگر اپنے رب کو پکارے، اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کو رحمٰن و رحیم پائے گا۔ معاف کردینے والا غفار الذنوب پائے گا… کیوں کہ وہ گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔
توبہ کے معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے کیے پر نادم ہو، جس برائی کا وہ مرتکب ہوا ہے یا ہوتا رہا ہے اُس سے باز آجائے، اور آئندہ اس کا ارتکاب نہ کرے۔ نیز یہ بھی سچی توبہ کا لازمی تقاضا ہے کہ جو برائی کسی شخص نے پہلے کی ہے، اس کی تلافی کرنے کی وہ اپنی حد تک پوری کوشش کرے، اور جہاں تلافی کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، وہاں اللہ سے معافی مانگے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرکے اس دھبے کو دھوتا رہے جو اس نے اپنے دامن پر لگالیا ہے… لیکن کوئی توبہ اُس وقت تک حقیقی توبہ نہیں ہے جب تک کہ وہ اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے نہ ہو۔ کسی دوسری وجہ یا غرض سے کسی برے فعل کو چھوڑ دینا سرے سے توبہ کی تعریف میں نہیں آتا۔
گناہ معاف کرنے اور توبہ قبول کرنے میں فرق ہے، اور وہ یہ کہ بسااوقات توبہ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں گناہوں کی معافی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک شخص خطائیں بھی کرتا رہتا ہے اور نیکیاں بھی۔ اس طرح اُس کی نیکیاں اُس کی خطائوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتی ہیں خواہ اسے ان خطائوں پر توبہ و استغفار کرنے کا موقع نہ ملا ہو، بلکہ وہ انہیں بھول چکا ہو۔
’’یہ ہے نیکی کرنے والوں کی جزا، تاکہ جو بدترین اعمال انہوں نے کیے تھے انہیں اللہ ان کے حساب سے ساقط کردے، اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے ان کے لحاظ سے ان کو اجر عطا فرمائے‘‘ (الزمر: آیت:35)۔ اسی طرح سے سورۃ الفتح آیت 5 میں فرمایا گیا ہے: ’’تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں اور ان کی برائیاں ان سے دور کردے‘‘۔ اسی طرح ایک شخص پر دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں، مصیبتیں، بیماریاں اور طرح طرح کے رنج و غم پہنچانے والی آفات آتی ہیں، وہ سب اس کی خطائوں کا بدل بن جاتی ہیں… لیکن توبہ کے بغیر معافی کی یہ رعایت اہلِ ایمان میں بھی صرف اُن کے لیے ہے جو سرکشی و بغاوت کے ہر جذبے سے خالی ہوں، اور جن سے گناہوں کا صدور محض بشری کمزوریوں کی وجہ سے ہوا ہو، اور جو ہمیشہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔
٭۔۔۔توبہ اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے
حضرت شعیب علیہ السلام اہلِ مدین کو نصیحت کرتے ہوئے ایک موقع پر کہتے ہیں: ’’دیکھو! اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آئو، بے شک میرا رب رحیم ہے۔ اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ سنگ دل اور بے رحم نہیں ہے۔ اس کو اپنی مخلوقات سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ خوامخواہ سزا دینے ہی کو اس کا جی چاہے اور اپنے بندوں کو مار مار کر ہی وہ خوش ہو۔ تم لوگ اپنی سرکشیوں میں جب حد سے گزر جاتے ہو اور کسی طرح فساد پھیلانے سے باز ہی نہیں آتے تب وہ تمہیں سزا دیتا ہے۔ ورنہ اس کا حال تو یہ ہے کہ تم خواہ کتنے ہی قصور کرچکے ہو، جب بھی اپنے افعال پر نادم ہوکر اس کی طرف پلٹو گے، اس کے دامنِ رحمت کو اپنے لیے وسیع پائوگے۔
اسی حقیقت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مثالوں کے ذریعے اس طرح سمجھایا ہے کہ ’’اگر تم میں سے کسی شخص کا اونٹ ایک بے آب و گیاہ صحرا میں کھو گیا ہو، اور اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اسی اونٹ پر ہو، اور وہ شخص اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہوچکا ہو، یہاں تک کہ زندگی سے بے آس ہوکر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا اور عین اس حالت میں یکایک وہ دیکھے کہ اس کا اونٹ سامنے کھڑا ہے تو اس وقت جیسی کچھ خوشی اس کو ہوگی اس سے بہت زیادہ خوشی اللہ کو اپنے بھٹکے ہوئے بندے کے پلٹ آنے سے ہوتی ہے‘‘۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ جنگی قیدی گرفتار ہوکر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا شیرخوار بچہ چھوٹ گیا تھا اور وہ مامتا کی ماری ایسی بے چین تھی کہ جس بچے کو پالیتی اسے چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانے لگتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال دیکھ کر ہم لوگوں سے پوچھا ’’کیا تم لوگ توقع کرسکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں آگ میں پھینک دے گی؟‘‘ ہم نے عرض کیا ہرگز نہیں، خود پھینکنا تو درکنار، وہ آپ گرتا ہو تو یہ اپنی حد تک تو اسے بچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب سن کر فرمایا: ’’اللہ کا رحم اپنے بندوں پر اس سے بہت زیادہ ہے، جو یہ عورت اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے‘‘۔
٭۔۔۔توبہ کا موقع آثارِ موت سے پہلے تک ہے
قرآن اور حدیث دونوں اس معاملے میں ناطق ہیں کہ توبہ و استغفار کی جگہ یہ دنیا ہے، نہ کہ آخرت۔ دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اُسی وقت تک ہے جب تک آثارِ موت طاری نہیں ہوجاتے۔ جس وقت آدمی کو یقین ہوجائے کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا ہے، اُس وقت تک کی توبہ قبول ہے۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلتِ عمل ختم ہوجاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا استحقاق باقی رہ جاتا ہے۔
٭۔۔۔عملی توبہ بھی کرنی چاہیے
گناہ کی تلافی کے لیے زبان اور قلب کی توبہ کے ساتھ ساتھ عملی توبہ (باقی صفحہ 41پر)
بھی ہونی چاہیے۔ عملی توبہ کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں مال خیرات کرے۔ اس طرح وہ گندگی جو نفس میں پرورش پارہی تھی اور جس کی بدولت آدمی سے گناہ کا صدور ہورہا تھا، دور ہوجاتی ہے اور خیرو بھلائی کی طرف پلٹنے کی استعداد بڑھتی ہے۔ گناہ کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنا ایسا ہے جیسے ایک آدمی جو گڑھے میں گر گیا تھا، اپنے گرنے کو خود محسوس کرلے۔ پھر اس کا اپنے گناہ پر شرمسار ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس گڑھے کو اپنے لیے نہایت ہی بری جگہ سمجھتا ہے اور اپنی اس حالت سے سخت تکلیف میں ہے۔ پھر اس کا صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں سے اس کی تلافی کی سعی کرنا گویا گڑھے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنا ہے۔
(52 دروس قرآن، انقلابی کتاب۔۔۔ حصہ دوئم)