ناپ تول کا اعشاری نظام اپنایا گیا تو پُرانے پیمانے رفتہ رفتہ رخصت پر چلے گئے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ پُرانے پیمانوں کے ساتھ ساتھ پرانے محاورے بھی رخصت ہوجاتے۔ مگر نہیں ہوئے۔ ڈھیٹ نکلے۔ پس نئے پیمانوں کے تحت پلی بڑھی اور نئے پیمانوں سے نپی تلی، نئی نسل کو پُرانی نسل کی پیمائشی اردو سمجھنے میں خاصی دشواری پیش آرہی ہے۔
دشواری یہ ہے کہ محاورے کے مطابق نوجوان لڑکے لڑکیوں کی زبان آج بھی گز بھرکی ہے۔ نئے نظام کے تحت ان کی زبانوں کو میٹر سے نہیں ناپا گیا۔ کوئی ناپے توشاید کچھ سنٹی میٹر کم ہوجائے۔ سیر کو اب بھی سوا سیر ہی ملتا ہے۔ معاشرے کے کسی کلو کو سوا کلو اب تک نہیں ملا۔ رادھاجی اپنا ناچ دکھانے کے لیے آج بھی نو من تیل کی طالب یا طالبہ ہیں۔ انھیں کوئی سمجھائے کہ تیل اب لٹر اور بیرل کے حساب سے ملتا ہے۔ رادھا جی کو عندالطلب نو بیرل تیل فراہم کردینا،کرپشن کے اس دور میں، کرشن کنھیّا کے لیے کون سا مشکل کام تھا؟
نئے پیمانوں کا یہ قضیہ آج یوں اُٹھ کھڑا ہوا کہ پانچ چھے دن پہلے محترم عبدالعزیز صاحب، عزیز آباد، کراچی سے پُرسش فرما ہوئے:
’’شہبازشریف صاحب برسوں سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ اُستادِ محترم! یہ دھیلا کیا ہوتا ہے؟ میں نے اپنی نانو کو ’’ڈھیلا مارنا‘‘ بولتے سنا تھا، مگر دھیلا نہ سنا، نہ دیکھا۔ کیا دھیلا اور ڈھیلا ایک ہی چیز ہے؟‘‘
نہیں، نہیں، عزیز آباد والے عزیزم عبدالعزیز! بالکل نہیں۔ دھیلا اور ڈھیلا ایک چیز نہیں۔ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ شکر کیجیے کہ آپ نے اپنی نانو کو ’ڈھیلا مارنا‘ بولتے ہی سنا، اس پر عمل کرتے نہیں دیکھا، ورنہ پہلے ہی پتا لگ جاتا۔
عزیزمن! ’دھیلا‘ مغلیہ دور کا ایک سکہ تھا۔ ’سکۂ رائج الوقت‘۔ اسے زرِ بدل یا Currency کہہ لیجیے۔ اُس زمانے کے آدھے پیسے کو دھیلا کہا جاتا تھا۔ دو دھیلوں کا ایک پیسہ بنتا تھا، چار دھیلے یا دو پیسے مل گئے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کو ’ ٹکا‘ مل گیا۔ چار پیسوں کا ایک آنہ بنتا تھا اور سولہ آنے کا ایک روپیہ۔ یہ محاورہ تو آج بھی کسی نہ کسی کے منہ سے کبھی نہ کبھی سننے کو مل ہی جاتا ہے کہ
’’صاحب، آپ کی بات سولہ آنے صحیح ہے!‘‘
’صد فی صد‘ یا ’سو فیصد‘ کی جگہ ’سولہ آنے‘ استعمال ہوتا رہا ہے۔ مگر ’دھیلا‘ سب سے چھوٹی نقدی نہیں تھی۔ سودا نقد لینے کے لیے اس سے چھوٹی نقدیاں بھی پائی جاتی تھیں۔ ’پائی‘ بھی ایک نقدی تھی۔ دھیلے سے چھوٹی پائی ہی ہوتی۔ پائی سے چھوٹی دمڑی، اور دمڑی سے چھوٹی کوڑی۔ کوڑی کو مزید چھوٹا کرکے ’پھوٹی کوڑی‘ بھی اِس ہات دی، اُس ہات لی جانے لگی۔ تین پھوٹی کوڑیاں مل کر ایک کوڑی بناتی تھیں۔ اب ہماری جیب میں کوڑی تو کیا؟ پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے، مگر روزمروں اور محاوروں کی تجوری روپے، آنے، پیسے، دھیلے، پائی، دمڑی، کوڑی اور پھوٹی کوڑی سب سے بھری ہوئی ہے۔
دَمڑی کو چَھدام بھی کہا جاتا تھا۔ رحمٰن کیانی عصر حاضر کی امتِ مسلمہ کا احوال بتاتے بتاتے اپنا ہی سر پیٹ لیتے ہیں:
گھر میں نہیں چَھدام مگر شوق بے شمار
مضراب بھی اُدھار ہے، تلوار بھی اُدھار
گھر میں چھدام نہ ہونے پر پنجابی زبان کا بھی ایک محاورہ ہے: ’’پلّے نہیں دھیلا، کردی میلا میلا‘‘۔
اب تو اگر کسی دھی کے پلّے دھیلا ہو بھی تو میلے والے اس الھڑ مٹیار کو ٹکٹ گھر کی کھڑکی ہی سے بھگا دیں گے۔ میلے کے اندر ’وڑنے‘کی اجازت بالکل نہیں دیں گے۔ کیوں کہ مغلیہ دھیلا اب قابلِ قبول نہیں۔ اب بینک دولت پاکستان کا چھاپا ہوا رنگین روپیہ چلے گا۔ آپ خواہ کتنی ہی منت سماجت کریں، انھیں ان کے ماں باپ کا واسطہ دیں مگر وہ زبانِ حال سے مسلسل یہی کہتے رہیں گے:
’’باپ بڑا نہ بھیّا، سب سے بڑا رُوپَیّا‘‘
مدتیں ہوگئیں، دمڑی چلی گئی، چمڑی رہ گئی۔ مگر بنیے پن، مال کی محبت اور کنجوسی کی خصلت ظاہر کرنے کے لیے یہ محاورہ اب تک استعمال ہورہا ہے کہ ’’چمڑی جائے، دمڑی نہ جائے‘‘۔ مراد یہ ہے کہ کنجوس مکھی چوس شخص جسمانی تکالیف اور اذیت سہ لے گا، مگر علاج کے لیے اپنی جیب سے ایک دمڑی بھی خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ رحمٰن کیانی نے اِن کنجوس بنیوں کو ’’لالا دَمڑچی لال‘‘ کا خطاب دے رکھاتھا۔سو، تاریخ بیان کرتے کرتے ایک دن کہنے لگے کہ…’لالا دَمڑچی لال پہ اتنا نشہ چڑھا‘…
گھس آئے کاشمیر میں اور کھیلنے لگے
بٹّے ترازو پھینک کے ڈنڑ پیلنے لگے
اب بٹّے ترازو بھی اُٹھتے جا رہے ہیں۔ روشن ہندسوں والے برقی ترازو جو آگئے۔ مگر زرِ بدل بالکل ہی بدل جانے کے باوجود آج بھی ہمارے قومی ادارے’کوڑیوں کے مول‘ یا ’کوڑیوں کے بھاؤ‘ بیچے جارہے ہیں۔جو شخص نکما اور ناکارہ ہو، اُس کی قیمت آج بھی ’دو کوڑی کا آدمی‘ کہہ کر متعین کی جاتی ہے۔ تحقیرِ مزید کرنی ہو تو کہا جاتا ہے کہ’دو کوڑی کا بھی نہیں‘۔ہماری اشرافیہ جن لوگوں پر حکومت کرنے کے لیے اُنھیں سے ووٹ مانگنے آتی ہے، ووٹ وصول کر لینے کے بعد ان ووٹرز کو اس جدید دور میں بھی قدر و قیمت کے لحاظ سے ’ٹکے ٹکے کے لوگ‘ قرار دیتی ہے۔ بعدکو اگر اُسی اشرافیہ کے پاس اُس کے وعدے یاد دلانے جائیے تو ’ٹکا سا جواب‘ دے دیتی ہے۔ ٹکا سا جواب دینے کا مطلب ’صاف انکار کر دینا‘ ہے۔نہیں معلوم کہ صاف انکار کر دینے میں ٹکے یا ’دو پیسے‘ کاکیا دخل ہوتا ہے؟
اوقات کے بارے میں تو اکثر خود ہمیں بھی بتایا جاتا رہتا ہے کہ ’’تمھاری ٹکے کی اوقات نہیں اور…‘‘
وہ شعر نما محاورہ تو آپ نے سن ہی رکھا ہوگا، کیا عجب کہ بھگت بھی رکھا ہو:
ٹکے سیر بھاجی، ٹکے سیر کھاجا
اندھیر نگری چوپٹ راجا
عزیز آباد والے عزیزم عبدالعزیز کو معلوم ہو کہ محترم محمد شہباز شریف صاحب پُرانی قومی اسمبلی سے 174 ووٹ لے کر اب ہماری نگری کے نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔23ویں وزیراعظم۔پس اگر مغلیہ دور کے پرانے پیمانوں پر نظر کیجیے تو محترم شہبازشریف صاحب کا نئے پاکستان میں دیا جانے والا یہ بیان بالکل برحق مان لینے میں کوئی امر مانع نظر نہیں آتا کہ’’میں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی‘‘۔ صاحبو!…’ہمیں یقین ہے، بے شک، ضرور، ایسا ہے!‘
شعری ذوق رکھنے والے شہبازشریف کی نقل میں ایک بار مرزا غالبؔ نے بھی ایساہی بیان داغ دیا تھا۔
’عید ملن دربار‘ میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ نے چچاسے پوچھا: ’’مرزا نوشہ! کتنے روزے رکھے؟‘‘
مرزا نے ہاتھ جوڑ کر اور منہ کھول کر جواب دیا:’’پیرو مرشد! ایک نہیں رکھا!‘‘
بھلے لوگو!کیا یہ ’الفاظ کی کرپشن‘ نہیں ہے؟ ’کرپشن‘ کے لیے اُردو میں لفظ ’بدعنوانی‘ استعمال ہوتا رہا ہے۔ مگر ’کرپشن‘ میں جو کشش ہے وہ ’بدعنوانی‘ میں کہاں؟ بدعنوانی کا ’بد‘ ہی ساری کشش کا خاتمہ ’بالخیر‘ کردیتا ہے۔ لہٰذا اب ’بدعنوانی‘ غریب اور چھوٹے چھوٹے لوگ کرتے ہیں۔ ’کرپشن‘ امیر اور بڑے بڑے لوگ کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں ہمارے ملک کے سب سے بڑے مزاح گو شاعر پروفیسر انورؔ مسعود صاحب نے بھی، بڑے ہونے کے ناتے، ایک بڑی ’کرپشن‘ کر ڈالی۔ غلام محمد قاصرؔ سے اُن کا شعر، مزاح کی بندوق کے بل پر چھین لیا اور ایسا چھینا کہ قاصرؔ کے اصل شعر کا لطف ہی جاتا رہا۔ انورؔ صاحب بڑی معصومیت سے منہ بسور کر فرماتے ہیں:
کروں گا کیا جو ’کرپشن‘ میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا